Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asadullah Raisani
  4. Haram Ka Paisa Aur Umar e Nooh

Haram Ka Paisa Aur Umar e Nooh

حرام کا پیسہ اور عُمرِنوحؑ

حالیہ دنوں میں میری ملاقات ایک 60 سالہ بزرگ سے ہوئی جن کا حال ہی میں جرگہ کے ذریعے ایک تنازعہ حل ہوا تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے عدلیہ کی بجائے جرگہ کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا انتخاب کیوں کیا تو انہوں نے کہا "نہ تو میرے پاس عدالتوں اور کچہریوں میں ضائع کرنے کے لیے حرام کا پیسہ ہے اور نہ ہی عمرِنوحؑ کہ سالوں فیصلہ آنے کا انتظار کرتا رہوں میں۔ " اس بات پر پورے کمرے میں ایک زوردارقہقہہ گونج اٹھا اور وہاں بیٹھا ہر شخص زوروں سے ہنسنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ زوردارقہقہہے ملک کی عدلیہ کی بگڑتی ہوئی حالت پہ ہیں، جہاں ایک عام شہری انصاف کے لیے عدلیہ کی بجائے دوسرے رستے تلاش کرتا رہتا ہے۔ مثلاً، بلوچستان میں رہنے والے کئی لوگ، شاید اکثریت، انصاف کے لیے روایتی نظامِ عدل جیسے جرگہ کا انتخاب کرتی ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی رول آف لاء انڈیکس 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی حکمرانی پر عمل کرنے میں 139 ممالک میں 130 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ میں احتساب اور انصاف کا فقدان ہے۔ انصاف کی رسائی میں مشکلات اور جانبداری دیگر بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے رپورٹ میں پاکستان کو اتنا نیچے رکھا گیا ہے۔ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں متوازی و متبادل نظام عدل اپنی حوصلہ شکنی کے باوجود کام کر رہی ہیں۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں باالخصوص جنوب مشرقی بلوچستان کے سلیمانی قبائل اور صوبے کے پشتون اکثریتی دیہی علاقوں میں رہنے والے حصولِ انصاف کے لیئے جرگے کے نظام پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

تاہم، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جرگوں پر قبائلی اشرافیہ کا غلبہ ہے، جس میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہوتی، اور یہ ایسے فیصلے سنانے کے لیے جانے جاتے ہیں جو اکثر بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود قبائلی لوگ جرگے کے نظام پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے انصاف کی تیز رفتار اور سستی فراہمی کے لیے زیادہ مُؤثر سمجھتے ہیں۔ ایک اور موقع پر میں ایک پشتون َملک سے ملا جنہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ایک دن میں تین تنازعات بھی حل کیے ہیں اور جس فیصلے میں اُنہیں طویل ترین مدت لگی وہ ڈھائی ماہ کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، " اس کے برعکس ہمارا ایک دوست عدالت میں جائیداد کا تنازعہ طے کرنے گیا، اور اسے چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ "

ایک شخص، جس کی عمر 25 سال کے آس پاس ہے، نے شکوہ کیا کہ وہ اپنے دستاویزات میں اپنی تاریخِ پیدائش کو درست کرنا چاہتا تھا اور اسے تین سال سے زیادہ عرصہ لگا عدالتوں کے چکر کاٹنے اور مختلف وکلاء سے مشورہ کرنے میں اور آخر کار تنگ آکر اس نے ایک با اثر شخص سے مداخلت کرنے کی درخواست کی اور اس با اثر شخص کے مداخلت کرتے ہی یہ معاملہ مہینوں میں حل ہوگیا۔ ایک اور شخص نے کہا کہ شناختی کارڈ پر اس کا نام محمد ظہور جبکہ اس کے سرٹیفیکیٹس اور دیگر دستاویزات پر ظہور احمد تھا، اس نے عدالت میں کیس کیا کہ نادراکے رکارڈ اور اسکے قومی شناختی کارڈ پہ اس کے نام کی درستگی کی جائے۔ لیکن اس چھوٹے مسئلے پہ بھی اس کو ڈیڑھ سال تک عدالت کے چکر کاٹنے پڑے۔ اس دوران ایک وکیل سے بھی اس موضوع پہ تھوڑی بہت گفتگو ہوئی جنہوں نے غصے بھرے لہجے میں کہا کہ کچھ عرصہ قبل ایک مشہور سیاستدان کی گاڑی کے نیچے ایک پولیس اہلکار کوسرعام کچل دینا ملک کی عدلیہ کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ انہوں نے مزید کہا "اگر لوگ عدالتوں پر جرگوں کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ صحیح کر رہے ہیں کیونکہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پائے اور کوئی بھی نظام جو انصاف کی فراہمی میں ناکام رہے اس پہ یقین کرنے کی کوئی بھی تُک نہیں بنتی۔ "

مختصراً، بعض سطحوں پر حوصلہ شکنی کے باوجود، جرگہ کو بلوچستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں لوگوں میں ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد کی کمی ہے، لوگوں کی بڑی تعداد زیادہ قابل اعتماد سمجھتی ہے۔ یہاں تک کہ ماضی قریب میں پاکستان کے ایک نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی ملک میں جبری گمشدگیوں کے حق میں بات کرتے ہوئے میڈیا پہ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا کہ ملک کا نظامِ عدل کمزور ہے۔ مزید برآں، صوبے میں متوازی نظام عدل پر انحصار واضح ہے، کیونکہ جو لوگ منتخب ہو کر قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنتے ہیں وہ بھی لوگوں کو ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد کرنے کی ترغیب دینے کی بجائے، جرگوں میں سفید ریش کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود بھی کہیں نہ کہیں ملک کی عدلیہ پہ بھروسہ نہیں کرتے۔

اس لیے ملک کے عدالتی نظام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرکے مزید قابل اعتماد بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں، لوگوں کو ہر معمولی بات کے لیے کچہری آنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے، عدالتی نظام کو ورچوئلائز کیا جانا چاہئے، اور ہر قسم کا فارم، درخواست، خط، یا اسٹامپ پیپر انہیں آن لائن دستیاب ہونا چاہئے تا کہ30 روپے کے اسٹامپ پیپر کے لیئے اُنہیں 200 روپے نہ دینے پڑیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں عدالت کی ذیلی شاخیں بنائی جائیں تاکہ لوگوں کو ہر بار فیصلے کے لیے کوئٹہ آنے کا سوچنے کی ضرورت نہ پڑے۔ عدالتی نظام میں شفافیت اس نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس کا واضح فقدان ہے۔ تھانہ کلچر عام شہریوں پر مزید بوجھ ڈالتا ہے جس پر اعلٰی حکام کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ ان تجاویز پر عملدرآمد کے بعد بھی لوگوں کو عدالتی نظام پر اعتماد کرنے میں وقت لگے گا لیکن اگر اس سلسلے میں غیر سنجیدگی جاری رہی تو متوازی نظام عدل اپنی برتری برقرار رکھے گا اور صوبے کے مختلف حصوں میں مختلف قوانین ہوں گے۔ سبی میں بیٹھنے والے جرگہ کا ژوب میں بیٹھے جرگے سے انصاف کی پیمائش کرنے کا پیمانہ مختلف ہوگا، اور قلات میں بیٹھے جرگے کی نظر میں انصاف کچھ تو پشین میں بیٹھے جرگے کی نظر میں کچھ اور ہوگا۔ اس لئیےایک منصفانہ اور مستقل نظام عدل وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Check Also

Afghanistan Mein TAPI Mansooba

By Zafar Iqbal Wattoo