Brahui Zaban CSS Nisab Mein
براہوی زبان سی ایس ایس کے نصاب میں
ایک اندازے (ایتھنولوگ رپورٹ) کے مطابق پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد افرادبراہوی بولتے ہیں اور ان میں سے نصف اسے اپنی پہلی زبان کے طور پر بولتے ہیں۔ یہ تعداد ملک میں فارسی بولنے والے (10 لاکھ) لوگوں کی تعداد سے دوگنی ہے۔ جبکہ عملی طور پر پاکستان میں عربی بطورِ مادری زبان بولنے والے بالکل نہیں ہیں۔ پھر بھی، پاکستان میں سنٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کے امتحانات میں فارسی اور عربی اختیاری مضامین کا حصہ ہیں جبکہ براہوی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق براہوی دنیا کی اُن 27 زبانوں میں سے ایک ہے جنہیں ناپید ہونے یا معدومیت کا خطرہ ہے۔ لہٰذا، یہ تحریر اس بات پر زور دیتی ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس خطے کی ہزاروں سال پرانی زبان معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، اور اس زبان کو زندہ رکھنے کے لیئے اسے دیگر تدبیروں کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس کے نصاب میں شامل کرنا ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
ایک تحقیق، "براہوی زبان پر عالمگیریت کے اثرات" کے مطابق براہوی برصغیر کے خطے کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ تحقیق ایک ایم فل اسکالر، بلوچستان یونیورسٹی کے براہوی ڈیپارٹمنٹ کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور بلوچستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر، تینوں نے مل کر کی ہے۔ مصنفین کے مطابق، براہوی بولنے والے لوگ پاکستان کے بلوچستان اور سندھ جبکہ ایران، افغانستان اور یہاں تک کہ ترکمانستان میں بھی آباد ہیں۔
ان کی تحقیق اس دعوے کی تائید کرتی ہے کہ براہوی زبان دراوڑی نژاد ہے اور یہ برصغیر پاک و ہند اور سری لنکا میں مہر گڑھ تہذیب (7000 قبل مسیح) سے بولی جاتی رہی ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو تقریباً 4500 سے 9000 سال پرانی ہے۔ یہ تحقیق اس بات پہ زور دیتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ عالمگیریت کے تیز رفتار عمل نے اس زبان پر حملہ کر دیا ہے۔ " جیسے کچھ الفاظ اور لڑکے، لڑکیوں کے نام، دنوں کے نام، رشتوں کے نام، دیگر اصطلاحات اور کھانے پینے کی اشیاء کےکئی براہوی ناموں کی جگہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر غالب زبانوں نےلے لی ہیں"۔
یونیسکو کے ایک پروجیکٹ میں ناپید ہونیوالے زبانوں پہ بحث کی گئی ہے اس رپورٹ میں بجا طور پر کہا گیا ہے کہ زبانوں کو اس وجہ سے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ " زبانیں ہماری ثقافتوں، اجتماعی یادوں اور اقدار کی گاڑیاں ہیں۔ وہ ہماری شناخت کا ایک لازمی جزو ہیں، اور ہمارے تنوع اور زندہ ورثے کا ایک بنیادی حصہ ہیں"۔ اور بہت سے فوائد کے ساتھ گلوبلائزیشن کے کچھ نقصانات بھی ہیں، خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے۔
تیزی سے عالمگیریت کی وجہ سے ان اقوام میں مادری زبانیں، مقامی ثقافتیں اور تعلقات کا روایتی سماجی ڈھانچہ خطرے میں ہے۔ عالمگیریت کا عمل مغربی نظریات اور مغربی طرزِ زندگی کو اپنانے میں زیادہ مُؤثِر ہے اور یہ مقامی ثقافتوں اور انکے اقدار اور ان ثقافتوں کی زبانوں کے لیے خطرہ ہے۔ بلاشبہ ارتقاء کے عمل کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن مقامی زبانوں کی قدر میں کمی اسکی کوئی قیمت نہیں۔
یہ بات قابل تعریف ہے کہ ملک میں براہوی زبان میں روزانہ، ہفتہ وار، دو ہفتہ وار، ماہانہ اور سہ ماہی رسائل اور جرائد چھپتے ہیں۔ قبائلی رہنماؤں، جیسے حاجی لشکری رئیسانی، کا براہوی ادیبوں اور دانشوروں کو حمایت کا یقین دلانا بھی حوصلہ افزا ہے۔ پی ٹی وی بولان پر چند گھنٹوں کی نشریات اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کی براہوی زبان میں خبرنامے بھی قابل تعریف ہیں، تاہم، یہ کوششیں کافی ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ انگریزی زبان اپنی وسعت کی وجہ سے دنیا کی کئی زبانوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے اور براہوی ان میں سے ایک ہے۔
دوسری طرف براہوی بولنے والوں کی اکثریت بھی صرف گھروں میں اپنی مادری زبان بولتے ہیں، وہ نا تو براہوی میں لکھا کچھ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثر براہوی ادب سے بالکل ناواقف ہیں۔ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو اس کے صوبائی سول سروس (پی سی ایس) کے امتحانات کے نصاب میں"جنرل پیپر بشمول اردو/بلوچی/پشتو/سندھی/پنجابی اور براہوی" کے لازمی مضمون کو شامل کرنے کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ یہ کسی حد تک زبان کی قوت اور وسعت کو بڑھاتا ہے۔ اگرچہ پی سی ایس کے خواہشمندوں کی تعداد تقریباً چند ہزار بتائی جاتی ہے، جو براہوی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے کم ہے۔ جبکہ پی سی ایس کے اختیاری مضامین میں فرانسیسی، سنسکرت، لاطینی اور جرمن زبانوں کو شامل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، جو کہ ایک الگ موضوع ہے۔
پی سی ایس کے برعکس، براہوی زبان ملک کے سی ایس ایس امتحانات کے نصاب میں شامل نہیں ہے جس سے اس تاریخی زبان کی وسعت و اہمیت کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔ براہوی بولنے والے سی ایس ایس کے خواہشمند اکثر مجبوری سے نصاب سے متبادل دستیاب زبانوں یا مضامین کا انتخاب کرتے ہیں اور عموماً اس میں ناکام رہتے ہیں۔ متبادل مضمون پاس کرنے والوں کو بھی شاید ہی کبھی اس مضمون کی افادیت اور وسعت کا علم ہوگا کیونکہ انہوں نے مجبوری سے اس مضمون کا انتخاب کیا ہوتا ہے اور اس زبان کو محض پاس ہونے کی خاطر سر سری پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں۔ براہوی بولنے والے اکثر امیدوار براہوی مضمون نہ ہونے کی وجہ سے کم نمبر حاصل کرپاتے ہیں جو انکی تعیناتی میں مسئلے پیدا کرتی ہے۔
لہٰذا، یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ دیگر کوششوں کے ساتھ ساتھ براہوی زبان کو سی ایس ایس کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ اسکی اہمیت بڑھے اور یہ تاریخی زبان ناپید ہونے سے بچ جائے۔ براہوی کو سی ایس ایس میں شامل کرنے سے براہوی میں مہارت رکھنے والے افراد کو سی ایس ایس امتحانات میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملے گا اور ایسا کرنا سول سروسز میں زیادہ نمائندگی کا باعث بھی بنے گا۔ ایسا کرنے سے عام عوام کو یہ پیغام بھی ملے گا کہ ریاست اپنی مقامی زبانوں کی قدر کرتی ہے اور انہیں فروغ دیتی ہے۔
مزید یہ کہ ایسا کرنے سے نچلی سطح پر گورننس کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جس سے سرکاری ملازمین مختلف علاقوں کی زبانوں میں مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں جہاں وہ بخوبی خدمات سرانجام دےسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بلوچستان کے علاقائی ثقافتی ورثے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس طرح کی شمولیت کو ثقافتی حساسیت اور اقلیتی زبانوں کے احترام کے اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سی ایس ایس کے امتحانات میں براہوی کی شمولیت زیادہ زبانوں اور ثقافتوں کی پہچان کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتی ہے۔
براہوی کو اُن علاقوں کے اسکولوں کے نصابی کتابوں میں بھی شامل کیا جانا چاہیے جہاں براہوی بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان بچوں کو کم از کم براہوی میں لکھنا پڑھنا آنا اور دوسرے مضامین کے ساتھ ساتھ براہوی زبان کے ادب سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے بلوچستان کے نمائندوں کو بھی اس قدیم زبان کے تحفظ کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ انہیں زبان کے دانشوروں، ادیبوں اور محققین کا ساتھ دینا چاہیے۔
انہیں زبان، اس کی تاریخ اور ادب کو فروغ دینے کے لیے جہاں ضرورت ہو وہاں مزید براہوی اکیڈمیز قائم کرنی چاہئیں۔ یہاں تک کہ براہوی جیسی مقامی زبانوں کو بلوچستان میں بی ایس پروگرامز میں بطورِ اختیاری مضمون شامل کیا جانا چاہیے۔ طلبا آٹھ سمسٹروں میں سےکم از کم کسی ایک سمسٹر میں ان زبانوں میں سے کسی ایک مقامی زبان کو ضرور پڑھیں۔ چونکہ پاکستان ایک کثیر النسل اور کثیر لسانی ملک ہے اس لیے پاکستان کو اپنی خوبصورتی کے ایک نمایاں زیور، براہوی زبان کو، کھو جانے سے بچانا چاہیے۔