Balochistan Ke Baare Mein Ghalat Fehmiyan
بلوچستان کے بارے میں غلط فہمیاں
میں نے تین سال سے زیادہ عرصہ پنجاب کے مختلف حصوں میں خاص طور پر ملتان میں پڑھائی کے لیے گزارا ہے۔ ملتان کے علاوہ میں لاہور، فیصل آباد، بہاولپور، بہاولنگر، خانیوال، ڈیرہ غازی خان اور پنڈوں میں، منڈی صادق گنج، ڈیرہ بکھر والا اور قاسم والا میں وقت گزار چکا ہوں۔ میں جہاں بھی گیا وہاں بلوچستان اور بلوچستان کے رہنے والے لوگوں کے بارے میں چند غلط فہمیاں عام تھیں۔ اس کالم کا مقصد ان غلط فہمیوں کی اصلاح کرنا ہے۔
غلط فہمی نمبر 1: بلوچستان میں صرف بلوچ رہتے ہیں
پنجاب میں اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ بلوچستان میں صرف بلوچ رہتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت بلوچ ہے، لیکن بلوچستان ایک کثیر النسل و کثیرالثقافتی صوبہ ہے۔ جس میں پشتون، سندھی، ہزارہ، سرائیکی، پنجابی، ہندکو، کشمیری، گلگتی، اردو اور فارسی بولنے والے، یہاں تک کہ تاجک اور ازبک بھی شامل ہیں۔ پنجاب میں رہنے والوں کی اکثریت کو نہیں پتا کہ جنوبی پنجاب میں رہنے والے بلوچوں کی تعداد بلوچستان کی کل بلوچ آبادی سے زیادہ ہے۔ مختصراً، بلوچستان متعدد نسلوں، ثقافتوں اور متعدد مذاہب کا گھر ہے۔ یہ بات بھی آپکے علم میں ہو کہ ہندو، عیسائی اور زرتشتیوں کی بھی بڑی تعداد بلوچستان کے مختلف حصوں میں آباد ہے۔
غلط فہمی نمبر 2: بلوچستان کے لوگ ریاست مخالف ہیں
یہ محض جھوٹ ہوگا اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ بلوچستان میں رہنے والا ہر شخص اِس ملک سے گہری عقیدت رکھتا ہے۔ تاہم یہ ماننا بھی مبالغہ آرائی ہے کہ بلوچستان کے لوگ ریاست مخالف ہیں۔ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں، خاص طور پر بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو ریاست کے مختلف پالیسیوں اور عہدیداروں سے شکایات ضرور ہیں لیکن وہ کسی بھی جواز سے انہیں ریاست مخالف نہیں بناتی۔ ان میں سے زیادہ تر اختلاف رائے رکھنے والے شہری کسی بھی عام پاکستانی کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ ملک صحیح راستے پر نہیں چل رہا۔ فرق یہ ہے کہ یہ قوم پرست لوگِ اُن پالیسیوں کے خلاف کافی کھل کر آواز اٹھاتے ہیں جو ان کے خیال میں پاکستان کی قومی یکجہتی کے خلاف ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ ریاست کے خلاف نہیں بلکہ بعض ریاستی پالیسیوں اور رویوں کے خلاف ہیں۔
غلط فہمی نمبر 3: بلوچستان کے لوگ ضدی اور جارح ہیں
یہ دعویٰ کرنا ایک سفید جھوٹ ہوگا کہ بلوچستان کے لوگ بالکل ضدی نہیں ہیں۔ پر یہ کہنا کہ بلوچستان کے لوگ جارح ہیں، یہ زیادتی ہوگی۔ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کے نقطہ نظر میں سختی کی ایک بڑی وجہ یہاں کا قبائلی نظام ہے، جہاں مضبوط دعوے اور اعتماد کو مضبوط کردار اور بہادری کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جسے بلوچوں کے ضابطہ اخلاق بلوچ میار اور پشتونوں کے ضابطہ اخلاق پشتونولی کا مطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سختی کو بھی ان لوگوں کو پیار اور محبت دکھا کر پگھلایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ایک مشہور بلوچی کہاوت ہے، " محبت سے میں جہنم چلا جاؤں تمہارے ساتھ لیکن زبردستی کی جنت سے بھی انکار ہے مجھے۔ "
غلط فہمی نمبر4: بلوچستان کے لوگ لاقانونیت کی زندگی گزارتے ہیں
1980کی دہائی کے وسط سے پنجاب میں 12ویں جماعت کی سوشیالوجی کی کتاب میں بلوچوں کو "قتل اور لوٹ مار میں مصروف غیر مہذب لوگ" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اسے 2016 میں درست کیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ کچھ تیس سالوں سے پنجاب میں لوگوں کو سکھایا گیا کہ بلوچ لاقانونیت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب بھی اسی بات پر یقین رکھتی ہے۔ یہ سچ نہیں ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے کم آبادی والا صوبہ ہونے کے باوجود اعلیٰ تعلیم اور کتابوں کے قارئین کا گھر ہے۔ جہاں لوگ جنون کی حد تک کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سہ روزہ کوئٹہ لٹریری فیسٹیول 2022 میں تقریباً 70 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت کی گئیں۔
اکیلے کوئٹہ میں سینکڑوں سنگل روم لائبریریاں ہیں جہاں لوگوں نے اپنے ڈرائنگ رومز کو لائبریریوں میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ شہر کی لائبریریوں میں اکثر جگہ نہیں بچتی پڑھنے کے لیے اور بلوچستان میں تقریباً ہر جگہ ٹیوشن سینٹرز، انگلش لینگویج اکیڈمیز، اور فری لانسنگ ٹریننگ سینٹرز کی ایک اچھی تعداد موجود ہے۔ یہاں کئی ایسے لوگ ہیں۔ جو لائبریریوں کو معمول کی بنیاد پر کتابیں عطیہ کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے لوگ نہ صرف مختلف اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں بلکہ سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ بلوچستان میں جرائم کا تناسب ملک کے جرائم کے اوسط سے بھی کم ہے اور بلوچستان کے لوگ مختلف شعبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
غلط فہمی نمبر5: بلوچستان رہنے کے قابل نہیں
یہ سچ ہے کہ متعدد عوامل کی وجہ سے بلوچستان اتنا محفوظ نہیں جتنا کبھی ہوا کرتا تھا۔ تاہم، حیرت ظاہر کرنا کہ لوگ اب بھی بلوچستان میں کیسے رہ رہے ہیں، بھیانک تصورات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس طرح کے خوفناک تخیلات کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے، جیسا کہ 2013 میں بی بی سی نے کوئٹہ کو، 'روحِ زمین پر جہنم' قرار دیا تھا جو کہ اب بہت پرانی بات ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ مختلف وجوہات کی وجہ سے سیاحوں کے لیے محفوظ نہ ہو، تاہم یہ رہنے کے قابل ہے۔ بلوچستان میں رہنے والے لوگ بھی باقی ہومو سیپینز کی طرح انسان ہیں اور وہ وتمام تر مشکلات کے باوجود روزی کماتے ہیں، پکنک پر جاتے ہیں، مختلف کھیل کھیلتے ہیں، اور تفریح کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ بلوچستان رہنے کے قابل ہے۔
غلط فہمی نمبر6: بلوچستان کے لوگ پنجابیوں کے خلاف ہیں
یہ دعویٰ کرنا سراسر رومانوی ہوگا کہ بلوچستان میں پنجابیوں کا کھلے عام استقبال کیا جاتا ہے۔ 26 اگست 2006 کو نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد پنجابیوں کے قتل کے واقعات نے خاصی رفتار پکڑی تھی۔ تاہم ان کے قتل کا ذمہ دار پورے بلوچستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیونکہ بلوچستان میں پنجابیوں کی ایک خاصی تعداد آباد ہے اور یہاں کام کرتی ہے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنے اسکول کے ایک استاد کی بات یاد آتی ہے، جن سے ہم نے پوچھا تھا، "آپ کیوں نہیں بلوچستان چھوڑ کر جا رہے؟ (جیسا کہ کئی پنجابی اساتذہ بلوچستان چھوڑ کر جا چکے تھے) " انہوں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا، " کیا کوئی اپنی ماں (زمین) کو بھی چھوڑ سکتا ہے؟" مختصراً یہ کہ ماضی قریب میں صوبے میں پنجابیوں پر برا وقت آیا جو کہ قابلِ مذمت ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلوچستان کے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان کے خلاف ہیں۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے والے لوگوں کی اکثریت پنجابیوں کی ہے اور اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی اس اکثریت کے خلاف خدشات موجود ہیں۔
غلط فہمی نمبر7: بلوچستان میں سرداروں کا راج ہے
درحقیقت، بلوچستان میں بہت سے بزرگ خود اپنی نسلوں کے ضابطہ اخلاق کی پابندی نہیں کرتے اور ان کے اپنے قبائلیوں پر تشدد کرنے کی کہانیاں موجود ہیں، لیکن پورے بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں قبائلی نظام ماضی کی طرح برقرار نہیں ہے، بلوچستان کا قبائلی نظام سندھ اور جنوبی پنجاب کے قبائلی نظام سے مختلف ہے۔ ایک سردار کو اپنے اختیار کو جائز قرار دینے کے لیے اپنے قبائلیوں سے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر وہ بلوچستان کے حاکم ہوتے تو عوام سے ووٹ کی درخواست نہ کرتے۔ یہاں تک کہ بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بہت سے سردار جو اس نشست کے مستحق نہیں ہیں انہیں اپنے کنٹرول کو جائز بنانے کے لیے بیرونی دھکے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مختصراً یہ کہ بلوچستان پر وہی لوگ حکومت کرتے ہیں جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر، بلوچستان اور اس کے لوگوں کے بارے میں مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، خاص طور پر پنجاب میں۔ اگرچہ ان خیالات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بڑی حد تک غلط ہیں۔ بلوچستان کی منفی تصویر کی وجہ میڈیا، غیر تصدیق شدہ معلومات اور بلوچستان اور پنجاب کے لوگوں کے درمیان محدود رابطے ہیں۔ لہٰذا میڈیا میں بلوچستان کی حقیقی تصویر کی تصویر کشی کی اشد ضرورت ہے اور حکومتی سطح پر پنجاب میں بلوچ کلچر اور بلوچستان میں پنجابی اور سرائیکی کلچر کو منانے جیسے مختلف ثقافتی تبادلے کے پروگراموں کے ذریعے بلوچستان اور پنجاب کے لوگوں کے درمیان روابط میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔