Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asadullah Raisani
  4. Abdullah From Balochistan

Abdullah From Balochistan

عبداللہ فرام بلوچستان

عبداللہ ایک مزدور ہے جسکی عمر 30 سال کے آس پاس ہے اور وہ روزانہ اجرت پر کام کرکے تقریباً 30 ہزار روپے ماہانہ کمالیتا ہے۔ اسے اپنے گھر کا کرایہ، اپنے چار بچوں کی پرورش اور تعلیم، اپنی بیوی اور والدین کا نان نفقہ، اور اپنے بیمار اور بوڑھے والدین کے طبی اخراجات سب کچھ ان 30 ہزار روپے میں ہی پورا کرنا ہوتاہے۔

دنیا کا کوئی ماہر معاشیات عبداللہ یا کسی بھی ایسے شخص کے لیے ماہانہ بجٹ نہیں بنا سکتا۔ مالی مسائل کے سبب عبداللہ جیسے کئی لوگ بے شمار عدم تحفظات کا شکار ہیں اور ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو محض سانس لینے کا نام ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کی خاطر زندگی گزارنے کے لیے مسلسل جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

عبداللہ کی حالت زار منفرد یا نایاب نہیں ہے، ایسے کئی نوجوان پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص بلوچستان کے علاقے دالبندین، پنجگور، نوشکی، بارکھان، چاغی، قلات اور دیگر دور دراز علاقوں میں ملیں گے جو شاید ماہانہ 30 ہزار بھی نہیں کما پاتے، جہاں معاشی مواقع بہت کم ہیں اور بقا کا انحصار معمولی اجرت پر ہے۔ ان علاقوں میں افراد شہروں میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں سے بھی کم کماتے ہیں، جس کی وجہ سے انکے خاندان غربت کے دہانے پرزندگیاں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

مجھے ایک شخص کبھی نہیں بھولتا جس سے میں دالبندین میں ایک مطالعہ کے لیے فیلڈ ورک کے دوران ملا تھا، جن کی عمر 70 سال تھی۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں کوئٹہ سے کسی کام کے سلسلے دالبندین آیا ہوں تو اُنکے آنکھوں میں ایک اُمید دکھی اور نہایت لاچارگی سے اُنہوں نے مجھے کہا، میرا نمبر لکھ لو آپ اور اپنا نمبر بھی مجھے دے دو، مجھے نوکری کی ضرورت ہے، جیسے ہی آپکو میرے لیئے کوئی نوکری/کام ملے مجھے ضرور بتانا۔

اب تصور کریں اگر کوئی شخص جسکی عمر 70سال ہے جس عمر میں اسے آرام کرنا چاہیے، تمام ذمہ داریوں سے بری لازمہ ہونا چاہیے، زندگی کے آخری ایام سکون سے گزارنےچا ہیئیں، اُس عمر میں وہ شخص کام کی تلاش کر رہا ہے تو ایسے اشخاص کی کیا حالت ہوتی ہوگی جنکی عمریں ابھی 20 سے 40 سال کے بیچ ہیں، جنکے اوپر نجانے کتنی ذمہ داریاں ہیں، جنہیں گھر چلانے ہیں، بچے پالنے ہیں اور جواپنے خاندانوں کی کفالت کے ذمہ دار ہیں اور ان کی اپنی پوری زندگیاں ابھی انکے سامنے ہیں۔ وہ اپنے اخراجات اور مناسب ملازمت کے امکانات کی کمی سے کیسے نمٹ رہے ہوں گے، وہ بھی ایک ایسے صوبے میں جہاں گھنٹوں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، کئی علاقوں میں گیس کی سہولت نہیں، آدھے سے زیادہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کی معیاری سہولت بھی موجود نہیں، آئے دن ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں بند کی جاتی ہیں، سرکاری نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اب تعلیمی اداروں میں بھی تنحواہوں کا فقدان ہے۔

مجھے حال ہی میں معلوم ہوا کہ ایک اوسط پرائیویٹ ہسپتال میں لیبر اور بچے کی پیدائش کی لاگت ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ سرکاری ہسپتالوں پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے، لوگ اکثر ایسے معاملات کے لیے پرائیویٹ ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ ان اخراجات کو برداشت کر سکتے ہیں وہ بھی فراہم کردہ اوسط سہولتوں کے مقابلے میں زیادہ اخراجات سے اکثر پریشان رہتے ہیں۔ ایسے لوگ جو مہنگائی کی وجہ سے پیسےکی بچت نہیں کر پاتے ایسے معاملات میں مجبوری میں آکر لوگوں سے قرضے مانگ کر ہسپتال کے خرچے پورے کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے معیارِ زندگی پر مزید سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ مزدور، آٹو رکشہ ڈرائیور، ٹیکسی ڈرائیور اور سڑک کے کنارے سٹال لگانے والے لوگ اور ان جیسے مزدوری پر اپنا گھر چلانے والے لوگ ایسے معاملات میں ہسپتال کا خرچہ بالکل برداشت نہیں کر سکتے اوروہ کافی حد تک ناکارہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔

بچوں کی تعلیم کی بات کی جائے تو صورتحال اتنی ہی سنگین ہے۔ سرکاری اسکولوں کی اکثریت ناقص معیار کی تعلیم فراہم کرتی ہے، جو اوسط سے کم مہارت اور علم فراہم کرتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اپنے کیریئر اور بالغ زندگی کے لیے ضروری بنیادی تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، پرائیویٹ اسکول اگرچہ مثالی نہیں پربہتر تعلیم پیش کرتے ہیں، لیکن وہ کافی موٹی فیسیں لیتے ہیں جو بہت سے خاندان برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مالی رکاوٹ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اعلیٰ معیاری تعلیم تک رسائی سے روکتی ہے۔ نتیجتاً، تعلیمی مواقع میں یہ فرق سماجی اور معاشی عدم مساوات کو برقرار رکھتے ہوئے ملک میں کلاسزم کو زندہ رکھتے ہیں۔

مزید یہ کہ چھ افراد کے خاندان کے لیے ماہانہ کھانے کا راشن تقریباً 20 ہزار روپے میں آتاہے۔ نچلے متوسط ​​اور نچلے طبقے کے شہری ان اخراجات کو برداشت نہیں کر سکتے، اس لیے وہ اپنے کھانے کی مقدار پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہیں، جو ان کے بچوں میں غذائی قلت کا باعث بنتا ہے۔ اس غذائی قلت کا نتیجہ اکثر خون کی کمی جیسی بیماریوں کا باعث بنتا ہے، خاص طور پر خواتین میں، جو ان کی صحت کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ناکافی خوراک بھی ذہنی اور جسمانی پسماندگی کا باعث بنتی ہے، جس سے ان افراد کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ مناسب غذائیت کی کمی ان کے کام کرنے اور مؤثر طریقے سے سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، اس طرح غربت اور خراب صحت ایسے خاندانوں کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی مجموعی فلاح و بہبود اور پیداواری صلاحیت کو بھی منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں، صورتحال خاص طور پر سنگین ہے جہاں جامعات اسکالرشپ اور انڈومنٹ فنڈز میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اپنے عملے اور اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے شدید مالی مسائل کا شکار ہیں۔ یہ مالی تناؤ اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے، جس سے بہت سے مستحق طلباء کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی محدود ہو جاتی ہے۔ جامعات کی تعلیم کے متحمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری مواقع سے محروم ہے۔ نتیجے کے طور پر، صوبےکو قابل پیشہ ور افراد کی کمی کا سامنا ہے، جو اس کی ترقی میں رکاوٹ ہے اور غربت کے سلسلےکو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعلیٰ تعلیم تک یہ بڑھتی ہوئی عدم رسائی بلوچستان میں بالخصوص اور بالعموم پاکستان میں موجودہ تعلیمی اور معاشی تفاوت کو مزید گہرا کرتی ہے۔

مختصراً، ملک میں بنائے گئے منصوبوں خاص طور پر بجٹ کے حوالے سے حکمران اور محکوم طبقے کے درمیان فرق واضح ہے اور رواں مالی سال کا بجٹ منفرد نہیں۔ ہمیشہ کی طرح، محکوم و جدوجہد کرنے والا طبقہ ملک کے مالیاتی مشکلات کے سبب جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ حکمران طبقہ پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں۔

ایک بہتر معاشی مستقبل کے لیےاسلامی تاریخ سے ایک آسان حل نکالا جا سکتا ہے۔ مثلاً جب حضرت ابوبکرؓ نے اپنی تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کی تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ آیا یہ تنخواہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، یہ اصول مناسب طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاست کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کمزور ترین شہری کتنے محفوظ اور آسودہ ہیں۔ تاہم، ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اور ماہرین ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بھی عام آدمی سے بہتر طور پر لیس ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکمران اور محکوم طبقات کے درمیان مکمل بے حسی اور تقسیم ہے، ایک ایسی تقسیم جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس لیئے معاشی پالیسیاں بناتے وقت ایسے طبقے کو خاص طور پر ذہن میں رکھنا چاہیے جنکے پاس روزگار کے مواقع کی کمی ہے، جنکی قوت خریدکم ہے اور مختلف عوامل کے سبب مسلسل مالی جدوجہد میں جٹے رہتے ہے۔ لٰہذا مالیاتی پالیسیاں بناتے وقت ان حقائق پر غور کرنا چاہیے۔ ایسی پالیسیوں کو ترجیح دینا بہت ضروری ہے جو کمزور شہریوں کو ہر لحاظ سے محفوظ اور بااختیار بناتی ہیں، سب کے لیے مساوی مواقع اور تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔

ہمدردی اور جوابدہی کو فروغ دے کر، ہم ایک ایسا راستہ بنا سکتے ہیں جہاں ہر شہری خواہ اس کے حالات کچھ بھی ہوں، وقار اور امید کے ساتھ اس ملک و صوبے میں زندگی گزار سکتا ہے۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin