1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asad Ali/
  4. Traffic Aur Ikhlaqiat

Traffic Aur Ikhlaqiat

ٹریفک اور اخلاقیات

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کسی ملک کے معاشرتی اطوار اور اخلاق کو سمجھنا ہو تو اس ملک کی سڑکوں اور چوراہوں پر چلتی پھرتی ٹریفک کا جائزہ لے لیں۔ آپ کو اس ملک اور معاشرے کی ذہنی سطع کا علم بخوبی ہو جائے گا۔

اسی کلیے کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنے پیارے وطن کی سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں بشمول موٹرویز تک کا جائزہ لیں، ایک چیز جو سب میں نمایاں ہے وہ ہے"قانون شکنی"۔ یہ ہمارا عام سا رویہ ہے کہ خاص و عام قانون پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک کا قانون لاگو کرنے کا مقصد دم توڑ چکا ہے۔ اسکی زندہ مثال دیکھنے کو تب ملتی ہے جب ایمبولینس رش میں پھنسی رہتی ہے اور موٹر سایئکل سوار لال بتی پر بھی یہ جا اور وہ جا۔ یہاں یہ بھی دیکھنے کو عام ملتا ہے کہ کچھ گاڑیوں کو قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ سڑک پر ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم، رکشہ، ٹرک، سایئکل، موٹرسایئکل، گاڑی ایک ہی رفتار اور ایک ہی لین میں سفر کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔

یہاں ساٹھ، ستر سال پرانی گاڑی بھی ملے گی اورapplied for۔ بھی اسی روڈ پر بھاگتی ملے گی۔ یہ بھی ہماری روایت کا حصہ ہے کہ ہم نے overhead bridgesکے ہوتے ہوئے بھی سڑک کو بھاگتے دوڑتے چلتی ٹریفک کے بیچ سے پار کرنا ہے۔ جہاں دل کیا گاڑی پارک کر دیں گے، رات کو گاڑی یا موٹر سایئکل چلانا کسی موت کے کھیل سے کم نہیں۔ رات کے وقت عموماَ ہمارا رویہ تشدد امیز ہوتا ہے، ہم نے HD Lights کا بھی استعمال کرنا ہے۔

ہم نےpapers glossy wrapping بھی لائٹ پر چپکانے ہیں، رفتار بھی عام حالات سے زیادہ رکھنی ہے، کیوں؟ کیونکہ رات کا وقت ہے سڑکیں خالی ہوتی ہیں۔ کوئی بائک والا، کوئی راہگیر اگر انHD Lightsکے سامنے بے بس ہو کر اندھا ہو جائےتو کیا ہوا، یہی حال موٹر سایئکلوں کا بھی ہے انہوں نے بھی بائک کو تیزگام سمجھ کر چلاتے ہیں اپنی بھی اور دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔

کچھ عادات روایات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک بارش میں تیز رفتاری دکھانا اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے جانا بھی ہماری فنکاریوں میں سے ایک ہے۔ روایت کی بات چل پڑی ہے تو کچھ اور بھی عرض کرتا چلوں جیسا کہ، چلتی گاڑی سے باہر تھوکنا، چلتی گاڑی سے کچرا باہر پھینکنا، اوسان خطا کر دینے والے ہارن بار بار بجانا (خاص طور پر گھر والوں کو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے بھی ہارن بجانا اور بار بار بجانا) اونچی آواز میں میوزک سننا، سڑک پر لین کی پابندی نہ کرنا، موبائل کا استعمال کرنا، جگہ جگہ جہاں دل کیا گاڑی پارک کر دی وغیرہ۔ یہ سب ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اب جسے ہم قانون شکنی کے ضمرے میں لانا بھی پسند نہیں کرتے۔

دوستو ایسا باشعور معاشرے اور پڑھے لکھے ملکوں میں نہیں ہوتا۔ آخر کیوں؟ اسکی وجہ جانتے ہیں؟ دنیا کی بہترین سفری سہولیات اور اعلی درجے کی سلجھی ٹریفک میں سرفہرست ملکوں میں، ناروے، آیس لینڈ، جاپان، ہنگری، اسرایئل، سویڈن اور سویٹزرلینڈ ہیں۔ آخر وہ لوگ ایسا کیا کرتے ہیں جو ہم سے نہیں ہو پاتا۔ تو اسکا جواب ہے وہ بچوں کو شروع ہی سے road sense اور civic sense بار بار پڑھاتے ہیں۔ بچوں کو ٹریفک سائن اور سگنل کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ لین کی پابندی بچوں کو سکھائی جاتی ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ سڑک پہ چلتے ہوئے ہا گاڑی چلاتے ہوئے اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ قانون سب کے لیئے برابر ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ چالان ہونے کی صورت میں اپنی غلطی ماننا قانون کی جیت ہے، نہ کے شیشہ نیچے کرکے یہ کہنا کہ، تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں جو بھی ہوں قانون سے بڑا ہوں، تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

ہمارے ہاں تو سکول میں داخلے کا پہلا اور آخری مصرف انگریزی بولنا ہوتا ہے، (جو کہ سولہ سال بعد بھی نہیں بول سکتے) civic sense اور اخلاقیات نام کا کچھ سکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ یاد رکھیں تبدیلی نسلوں کی قربانی یا ہوں کہیں نسلوں کی محنت مانگتی ہے اور اسکا آغاز ہم جیسے معاشرے میں ابھی ہوا ہی نہیں ہے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم لوگ صرف driving license کے ٹیسٹ دینے سے ایک دن پہلے یہ سب باتیں چھوٹی سی کتاب میں پڑھتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں"یہ والا سائن تو ہم نے یہاں کبھی دیکھا ہی نہیں" سونے پہ سہاگا سننے والا کہتا ہے "یہ سب formalityہے بس! گاڑی چلانی آنی چاہیے"۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ہاں ٹریفک کے قوانین تو موجود ہیں مگر وہ چنگیز یا ہلاکو خان موجود نہیں جو ان پر عمل کروا سکے۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman