Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ali
  4. Hamara Farsuda Taleemi Nizam

Hamara Farsuda Taleemi Nizam

ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام

سب سے بڑی غلطی جو ہم نے تعلیمی نظام کے سمجھنے میں کی وہ تعلیم اور معلومات کا بنیادی فرق ہے۔ جس کو ہم education سمجھ کر لاکھوں لٹا رہے ہیں، وہ ارسطو اور افلاطون کے دور کا بنایا گیا وہ نظام ہے جس میں افلاطون بتاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد ہرگز علم کو روح تک اتارنا نہیں بلکہ خود کو ہر ظاہری چیز سے آگاہ رکھنے کا نام ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہم اسکو information کا نام دے سکتے ہیں۔

اس فرق کو یوں سمجھیں کہ جب کوئی دوسرا آپکو کسی بھی ظاہری چیز کی معلومات دے تو وہ انفارمیشن ہوتی ہے یا to educate کرنا کہہ سکتے ہیں اور اسکے برعکس جب آپ خود کسی چیز کی تحقیق یا کھوج کرنے نکلتے ہیں تو وہ knowledge حاصل کرنا ہے جو کہ اصل بقول افلاطون "روشنی کی تلاش" ہے۔ جو کہ ہمارا موجودہ نظام deliver کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بہت سے نشیب و فراز سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ اس پر سب سے بڑا داغ colonial education system British ہے۔

اس نظام کا مقصد انگریزوں کے کاروبار کو چلانا تھا جسکے لئے انہیں کلرکوں کی اشد ضرورت تھی۔ جو انگریزی بھی جانتے ہوں اور دماغی طور پر بھی انگریزی روایات کے حامی بھی ہوں۔ لارڈ میکالے جو کہ عہدِ برطانیہ میں وزیرِ تعلیم رہ چکا ہے، کا ماننا تھا کہ اس نظام کے launch ہونے کے بعد ہمیں ہندوستانیوں سے کسی بھی طرح کی بغاوت کا خوف ختم ہو جائے گا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں اسی نظام سے نکلنے والے پڑھے لکھے بابو کو coconut جیسے طنزیہ title سے بھی نوازا جاتا تھا، یعنی تم باہر سے تو ناریل کی طرح کالے ہو مگر اندر سے دودھ کی طرح گورے ہو۔

اب موجودہ دور کا موازنہ اپنے تعلیمی نظام سے بھی کرکے دیکھ لیں یہ نظام آج کے تقاضوں کو مکمل کرنے میں ناکام ہے۔ ریسرچ نہ کرنے کی وجہ سے ہم آج بھی وہی گھسی پٹی ڈگریاں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ جیسا کہ آج کے دور کی ڈیمانڈ ڈگری میں ریسرچ، نرسنگ، ہاسپیٹیلٹی، فارمہ، ڈیٹا انیلسٹ، ڈیٹا سائنس، کنسٹرکشن مینجمنٹ، گیمنگ سافٹ ویئر ڈیزائنگ، بائیومیڈیکل انجینئرنگ، genetics، marine engineering، establishment of financial institution، Applied Mathematics، management I۔ S، space science and research، meteorology، material sciences، chemicals۔

مگر ہمارے ادارے ابھی تک وہی روائتی طرز پر مبنی تعلیم اپنائے ہوئے ہیں۔ وہی بی کام، وہی انجینئرنگ، وہی ڈاکٹر، وہی سی ایس ایس، مندرجہ بالا تعلیم کو اپنائیں اور ملک کی ترقی میں حصہ لیں مستقبل میں وہی کامیاب ہوگا جس کے ہاتھ میں talent اور ہنر ہوگا آنے والا دور بہت practical ہے صرف تھیوری اور رٹہ بیروزگار قوم کو جنم دے گا۔ یاد رکھیں بل گیٹس کو کیا پڑی تھی مائکروسافٹ بنانے کی، جف بساس کو کیا ضرورت تھی ایمازون بنانے کی، وہ بھی کسی سرکاری ادارے میں کلرک بھرتی ہو سکتے تھے مگر نہیں وہ اپنی قوم کو لیڈر دینا جانتے ہیں اور ہمارا نظام ابھی تک ہمیں ٹھیک سے انگریز بھی نہیں بنا پایا۔

اب یہ step ہم نے ہی اٹھانا ہے اپنے ملک کا education نظام change کرنا ہے۔ یہ بھی یاد رکھے جانے والی بات ہے کہ دنیا میں انہی قوموں کا وقار بلند ہوا جنہوں نے اپنا تعلیمی نظام کو بنیاد بنا کر دنیا فتح کی، بندوق اور تلوار (آج کے اور مستقبل کے دور میں خصوصاََ) دنیا کو فتح تو دور معیشت کی بربادی کا سبب بن گئے ہیں۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza