75 Saal Aur 75 Ka Note
75 سال اور 75 کا نوٹ
بطور معاشرہ اب تو ہم روز روز نئے قسم کے دھوکوں اورfraudsکے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم بے اعتباری کی اس حد تک جا چکے ہیں کہ اب اصل مستحق بھی ہمارے سامنے آکر اپنی مجبوری اور بے بسی بیان کرے تو ہم اسے بھی اتنا ہی ہلکا لیتے ہیں جتنا بھاری ہم سرکاری وعدوں کو لیتے ہیں۔
اب تو ہم private sector یا government sector کی طرف نت نئے "packages" کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جس دن ہمارے ساتھ اس طرح کا کوئی prank نہ ہو ہمیں اپنے پیارے وطن میں رہنے کی نہ تو feeling آتی ہے نہ ہی یہاں رہنے کا کچھ مقصد سمجھ آتا ہے۔
گزشتہ سال سٹیٹ بنک کا نہایت احسن اقدام دیکھنے کو ملا، وہ شخصیات جو آج تک صرف مطالعہ پاکستان کی کتاب سے باہر نہ نکل سکیں بنک دولتِ پاکستان سے اسے public figure بنا کر75 روپے کی شکل میں عوام کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ جمہوریت کی یہی خاصیت ہے عوام کی طاقت سے لے کر عوام کے نمائندوں تک سب کو وقت بوقت استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار موجودہ سیاستدان یا "کوئی اور" تو ہو سکتا ہے مگر موجودہ پاکستان کے ذمہ دار نوٹ پر موجود ہیروز قطعی نہیں ہیں۔
تاریخ گواہ ہے جو قوم اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہے رفتہ رفتہ دنیا بھی اس قوم کو بھولنا شروع کر دیتی ہے۔ سر سید احمد خان کا مشہورِ زمانہ، دو قومی نظریہ، آج بھی اپنی آب و تاب سے موجود ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی شکل میں نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر ہر طاقتور کا اپنا بنایا ہوا پاکستان موجود ہے۔ علامہ اقبال کی خودی تو ہم نے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دی تھی جس دن ہم نے پہلی بار قرض لیا، جس دن ہم نے پہلی بار انگریزی کو قومی زبان کی درجہ دیا، جس دن ہم نے پہلی بارشاہین کو رسی سے باندھ کر گھر میں قید کر لیا تھا۔
فاطمہ جناح جنکا انتخابی نشان لالٹیں تھا، وہ لالٹین بجلی جیسی ترقی ملنے پر ہم نے خود ہی بجھا دی۔ جس دن ہم نے آمریت کا پھندا پہننے کو ترجیح دی، اسی روز جمہوریت کو بھی پھانسی دی تھی اور بات رہ گئی بابائے قوم کی، تو انکا وقار، انکی شخصیت کا نقشہ، انکا رعب و دبدبہ کا گواہ نوٹ پہ چھپی تصویر ہے۔
ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود بھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ 75 کا یہ نوٹ چلے بھی، سٹیٹ بنک کا حاملِ ھذا کو ادا کرنے والا وعدہ اپنی جگہ اور حکومتِ پاکستان کی guarantee بھی اپنی جگہ ثبت ہے۔ یہ بات اہسے ہی ہے جیسے بیوی کا شوہر کو بار بار یادہانی کروانا کہ "مجھے آپکے علاوہ کچھ نہیں چاہئے" اس بات کو practical prank کی شکل تب ملتی ہے جب ہم ڈالر کی رنگت کا یہ نوٹ لے کر خریداری کی غرض سے کسی دکان والے کو چپکاتے ہیں، تو وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے اس پرینک کو سمجھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نوٹ نہیں چلتا، اب کہتا تو وہ بھی ٹھیک ہی ہے، جب 75 سالوں سے ہماری نہیں چلی، جب 75 سالوں سے نوٹ پہ چھپے بابوں کی نہیں چلی، جب 75 سالوں سے کوئی حکومت انسانوں کی طرح نہیں چلی تو یہ 75 کا نوٹ کیوں چلے؟ بھئی نوٹ تو تب چلا کرتے ہیں جب economy چلا کرتی ہے۔
دکھ اس بات کا بھی ہیں ہے، ہمارا غم یہ بھی نہیں ہے! ہم صبر کر چکے ہیں اور نوٹ کو چپ کرکے موبائل کے پیچھے چپکا دیا۔ اصل مرثیہ تو یہ ہے کہ، جو practical prank حکومتِ وقت نے غریب عوام کیساتھ کیا یعنی اربوں روپے لوگوں کی جیبوں سے ٹرانسفر کرکے انہیں زبردستی 75 سالہ تقریب کی خوشی میں بن بلائے مہمان کی طرح مدعو کر لیا۔