Mein Bhi Theek Hoon, Tum Bhi Theek Ho (2)
میں بھی ٹھیک ہوں، تم بھی ٹھیک ہو (2)
1۔ "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" (I'm Not Okay، You're Not Okay)
یہ ایک ایسی تباہ کن "لائف پوزیشن" ہے جو ہمیں اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں مایوس کر دیتی ہے۔ اس منظرنامے میں، ہم خود کو اور دوسروں کو کم تر اور ناکام سمجھتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ دنیا ایک منصفانہ جگہ نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں تعلقات میں مسلسل لڑائی جھگڑے، تلخی اور فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔
مثال 1: خاندانی تنازع
رفیق اور اس کی بہن، نسرین، ایک دوسرے سے برسوں سے لڑ رہے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین نے ان پر توجہ نہیں دی اور ان کی ضروریات کو نظر انداز کیا۔ اب وہ ہر بات پر ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کی زندگیاں خراب ہیں۔ وہ خاندانی تقریبات میں بھی اکثر جھگڑ پڑتے ہیں، جس سے پورا ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے۔
تجزیہ: رفیق اور نسرین کی "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" کی پوزیشن انہیں آگے بڑھنے نہیں دے رہی ہے۔ وہ ماضی کے غصے میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اس منفی سوچ کی وجہ سے وہ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع کھو دیتے ہیں۔
مثال 2: کام کی جگہ کی سیاست
ایک آفس میں، سمیرا اور علیم ایک ہی پروجیکٹ پر کام کرنے والی دو ٹیموں کی قیادت کر رہے ہیں۔ دونوں ٹیمیں یہ سمجھتی ہیں کہ دوسری ٹیم ان پر کام کا بوجھ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ میٹنگز میں اکثر ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور منفی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے کام کی رفتار متاثر ہوتی ہے اور کام کا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔
تجزیہ: سمیرا اور علیم کی ٹیموں کے درمیان "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" کی پوزیشن تعاون کو روک رہی ہے۔ وہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے اور مل کر کام کرنے کے بجائے لڑائی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس منفی ماحول کی وجہ سے نہ صرف پروجیکٹ متاثر ہو رہا ہے بلکہ ملازمین کا مورال بھی کم ہو رہا ہے۔
2۔ "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Not Okay، You're Okay)
یہ "لائف پوزیشن" خود کو کم تر اور دوسروں کو برتر سمجھنے کا باعث بنتی ہے۔ اس صورت حال میں، ہم اپنے آپ کو ناکام اور کمزور سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کو باصلاحیت اور کامیاب تصور کرتے ہیں۔ یہ احساس خود اعتمادی کی کمی، دوسروں پر انحصار اور قربت پیدا کرنے میں مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
"میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Not Okay، You're Okay) ٹرانزیکشنل تجزیہ (TA) میں ایک عام منفی "لائف پوزیشن" (Life Position) ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جہاں ہم اپنے بارے میں منفی نظریہ رکھتے ہیں اور دوسروں کو اپنی سے بہتر اور زیادہ کامیاب سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ خود اعتمادی کی کمی، دوسروں پر انحصار اور رشتوں میں فاصلہ پیدا کر سکتا ہے۔
آئیے اس منفی سوچ کو مزید تفصیل سے حقیقی زندگی کی مثالیوں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
مثال 1: کام کا ماحول
علی ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتا ہے۔ وہ ایک ذہین اور ہنر مند پروگرامر ہے لیکن اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے پروگرامروں جیسا اچھا نہیں ہے۔ وہ اکثر اپنے کام کی تعریف سننے کے بجائے، تنقید کا انتظار کرتا ہے۔ وہ نئے پروگرام لکھنے سے گھبراتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ وہ ناکام ہو جائے گا۔
تجزیہ: علی کی "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" کی سوچ اسے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے روک رہی ہے۔ وہ دوسروں کا مقابلہ کرنے کے بجائے، اپنے آپ پر توجہ دے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کرے۔
مثال 2: دوستوں کا گروپ
نمرہ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے ہوئے اکثر یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ ان جیسا مزہ نہیں کر پا رہی ہے۔ وہ ان کی باتوں میں حصہ لینے سے کتراتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس ان جیسا کچھ بھی شیئر کرنے کے لیے نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی زندگیوں کو بہتر اور زیادہ پُر رونق سمجھتی ہے۔
تجزیہ: نمبرہ کی سوچ اسے گروپ سے الگ کر رہی ہے۔ اسے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص الگ ہے اور اس کی اپنی خاص خوبیاں ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھل کر بات کرے اور ان کی طرح اپنی زندگی کے تجربات شیئر کرے۔
مثال 3: خاندانی تعلقات
آصفہ اپنی والدہ کی تمام باتوں پر اتفاق کرتی ہے۔ وہ اپنی ماں کو ہمیشہ سچا اور خود کو غلط سمجھتی ہے۔ وہ اپنی ماں سے یہ کہنے میں جھجھکتی ہے کہ وہ کسی بات سے خوش نہیں ہے یا اس کی اپنی رائے ہے۔
تجزیہ: آصفہ کی منفی سوچ اسے اپنی آزادی اور خود اعتمادی سے دور کر رہی ہے۔ اپنی والدہ کا احترام کرنا اچھی بات ہے لیکن ساتھ ہی اپنی رائے کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک صحت مند رشتے میں بات چیت اور آراء کا احترام ہوتا ہے۔
اس سوچ کے منفی اثرات:
خود اعتمادی کی کمی: جب ہم خود کو دوسروں سے کم تر سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں آتا اور ہم نئے مواقع حاصل کرنے سے کتراتے ہیں۔
دوسروں پر انحصار: اس سوچ کی وجہ سے ہم اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کی بجائے، دوسروں پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
رشتوں میں فاصلہ: جب ہم دوسروں کو اپنی سے بہتر سمجھتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھل کر بات چیت نہیں کر پاتے اور رشتوں میں فاصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس سوچ کو کیسے تبدیل کریں؟
اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کریں: اپنی مثبت خصوصیات اور کامیابیوں پر غور کریں۔ اپنے آپ کو حوصلہ دیں اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں۔
دوسروں سے مقابلہ نہ کریں: ہر شخص الگ ہے اور اپنی رفتار سے بڑھتا ہے۔ اپنی توجہ اپنے آپ پر دیں۔ صحت مند غذا کا استعمال کر ورزش کریں اور رات کو اچھی نیند لیں۔ جسمانی اور ذہنی صحت خود اعتمادی بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔
مثبت سوچ کا انتخاب کریں: منفی باتوں کو دہرانے کے بجائے، اپنے بارے میں مثبت الفاظ کا استعمال کریں۔
پیشہ ور افراد کی مدد لیں: اگر آپ اپنی منفی سوچ کو تبدیل کرنے میں مشکالت کا سامنا کر رہے ہیں تو کسی ماہر نفسیات سے مدد لیں۔
یاد رکھیں: منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرنے میں وقت اور مسلسل کوشش لگتی ہے۔ مگر یہ ممکن ہے۔
آئیے اب ہم باقی "لائف پوزیشنز" (Life Positions) پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور انہیں حقیقی زندگی کی مثالیوں کے ساتھ سمجھتے ہیں۔
3۔ "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" (I'm Okay، You're Not Okay)
یہ ایک ایسی پوزیشن ہے جو تکبر، دوسروں پر تنقید اور غرور کا باعث بنتی ہے۔ اس منظرنامے میں، ہم خود کو دوسروں سے برتر اور زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔ ہم دوسروں کی صلاحیتوں کو کم کرتے ہیں اور ان پر costntly تنقید کرتے ہیں۔ یہ رویہ تعلقات میں تلخی، فاصلہ اور نفرت پیدا کر سکتا ہے۔
مثال 1: باس اور ملازم
عدنان ایک سخت اور منفی رویہ رکھنے والا باس ہے۔ وہ اپنے ملازمین کو مسلسل یہ بتاتا ہے کہ وہ کام ٹھیک سے نہیں کر رہے اور ان کی غلطیاں نکالتا رہتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کمپنی کی کامیابی کا واحد ذریعہ سمجھتا ہے اور دوسروں کی کوششوں کو تسلیم نہیں کرتا۔
تجزیہ: عدنان کی "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" کی پوزیشن کام کے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ ملازمین خود کو کم تر اور بے قدری محسوس کرتے ہیں، جو کام کی کارکردگی اور ملازمین کے مورال کو متاثر کرتا ہے۔
مثال 2: خاندانی تعلقات
فائزہ اپنی بہو، ثانیہ، کی پکائی ہوئی ہر چیز پر تنقید کرتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہے کہ ثانیہ گھر سنبھالنا نہیں جانتی اور اس کے طرز زندگی میں بہت سی غلطیاں ہیں۔ یہ تنقید مسلسل جھگڑوں کا باعث بنتی ہے اور خاندانی سکون ختم ہو جاتا ہے۔
تجزیہ: فائزہ کی پوزیشن کی وجہ سے خاندان میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ ثانیہ کی صلاحیتوں پر یقین کرنے اور اسے سیکھنے کا موقع دینے کے بجائے، اسے کم تر سمجھتی ہے۔ یہ منفی رویہ خاندانی رشتے کو کمزور کر دیتا ہے۔
4۔ "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Not Okay، You're Okay)
اس پوزیشن میں، ہم خود کو کم تر اور دوسروں کو زیادہ قابل سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسروں کی کامیابیوں سے ہم جلتے ہیں اور ان کی تعریف کرنے میں جھجکتے ہیں۔ یہ رویہ خود اعتمادی کی کمی، دوسروں پر انحصار اور رشتوں میں فاصلہ پیدا کر سکتا ہے۔
مثال 1: ہم جماعت دوست
مریم ایک ذہین طالبہ ہے، لیکن وہ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں پر شک کرتی ہے۔ جب اس کی کلاس فیلو اچھا اسکور کرتی ہے، تو وہ اس کی تعریف کرنے کے بجائے اپنے نمبروں پر مایوسی کا اظہار کرتی ہے۔ وہ اپنی دوست کی کامیابی کو اپنی ناکامی سے جوڑ کر دیکھتی ہے۔
تجزیہ: مریم کی "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" کی پوزیشن اسے اپنی پوری صلاحیت سے آگے بڑھنے نہیں دے رہی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی مثبت خصوصیات پر توجہ دے اور دوسروں کی کامیابیوں سے سیکھنے کی کوشش کرے۔
مثال 2: شوہر اور بیوی کا رشتہ
علی ایک کامیاب بزنس مین ہے لیکن اس کی بیوی، زبیدہ، ہمیشہ اس کی عزت و احترام کا مظاہرہ تو کرتی ہے، لیکن یہ بھی کہتی ہے کہ "تم بغیر میرے یہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے"۔ اس بات سے علی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی محنت کو کم تر سمجھا جا رہا ہے۔
تجزیہ: زبیدہ علی کی کامیابیوں کو تو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی پوزیشن علی کو حقیر سمجھنے کا تاثر دیتی ہے۔ اس کی تعریف کے انداز میں بھی اس کا اپنا کم تر ہونا جھلکتا ہے۔ اس طرح کامیابیوں کا مزہ اور آگے بڑھنے کی تحریک کم ہو جاتی ہے۔
اہم نتیجہ:
یہ تمام "لائف پوزیشنز" (Life Positions) انسانی تعلقات میں تنازعات، مایوسی اور ناکامی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ ہیرس کا ٹرانزیکشنل اینالسس کا مقصد ہمیں اپنی اور دوسروں کی ان پوزیشنز کو سمجھنے کے قابل بنانا ہے تاکہ ہم منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کر سکیں اور صحت مند رشتے بنا سکیں۔
صحت مند تعلقات کا کلید "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" کی پوزیشن ہے۔ اس میں ہم اپنے اور دوسروں کا احترام کرتے ہیں، مسئلے مل کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑے ہوتے جاتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ:
ہم اپنی پوزیشنز میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔
اپنی اور دوسروں کی منفی سوچ کی نشاندہی کریں۔
شعوری طور پر مثبت "لائف پوزیشنز"کو منتخب کرتے جائیں۔
منفی "لائف پوزیشنز" کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہے لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ ایرک برن کے ٹرانزیکشنل تجزیہ (TA) میں کچھ تجاویز موجود ہیں جن کی مدد سے ہم ہلاپنی اور دوسروں کی سوچ کو مثبت سمت لے جا سکتے 1۔ خود شناسی (Self-Awareness)
پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی "لائف پوزیشن" کو پہچانیں۔ غور کریں کہ آپ اکثر اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ کیا آپ خود کو کم تر سمجھتے ہیں یا دوسروں پر تنقید کرتے ہیں؟ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کن منفی "گیمز" میں پھنسے ہوئے ہیں، جیسے "میں جیتا نہیں سکتا" یا "تم مجھے مجبور کر رہے ہو"۔
2۔ ذمہ داری لیں (Take Responsibility):
اپنی سوچ اور ردعمل کے لیے ذمہ داری لینا ضروری ہے۔ یہ دوسروں کو الزام دینے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنی منفی سوچ کو تبدیل کرنے کا موقع ہے۔
3۔ مثبت الفاظ (Positive Self-Talk):
اپنے بارے میں مثبت الفاظ کا استعمال کریں۔ اپنے آپ کو حوصلہ دیں اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں۔ منفی باتوں کو دہرانے کے بجائے، اپنی مثبت خصوصیات اور کامیابیوں پر توجہ دیں۔
4۔ دوسروں کی تعریف کریں (Appreciate Others):
دوسروں کی کامیابیوں کا جشن منائیں اور ان کی تعریف کریں۔ دوسروں سے جلتے رہنے کے بجائے، ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔
5۔ کھلے ذہن سے بات چیت کریں (Open Communication):
دوسروں کے ساتھ کھلے ذہن سے بات چیت کریں۔ اپنے احساسات کا اظہار کریں اور ان کی بات توجہ سے سنیں۔ غلط فہمیوں کو دور کریں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔
6۔ پیشہ ور افراد کی مدد لیں (Professional Help):
اگر آپ خود اپنی منفی سوچ کو تبدیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، تو کسی ماہر نفسیات (Psychologist) یا تھیرپسٹ (Therapist) سے مدد لیں۔ وہ آپ کو اپنی سوچ کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے میں رہنمائی کر سکتے ہیں۔
مثال: "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" سے "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" کی تبدیلی
فرض کریں، ایک طالبہ ہمیشہ سوچتی ہے کہ "میں کبھی اچھا اسکور نہیں کر سکتی، دوسرے مجھ سے زیادہ ذہین ہیں"۔ وہ اس منفی سوچ کو کیسے تبدیل کر سکتی ہے؟
خود شناسی: وہ پہلے یہ تسلیم کرے گی کہ وہ خود کو کم تر سمجھ رہی ہے۔
ذمہ داری لیں: وہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کے بجائے، پڑھائی کے اپنے طریقوں پر غور کرے گی۔
مثبت الفاظ: وہ اپنے آپ سے یہ کہے گی، "میں محنت کرکے اچھا اسکور کر سکتی ہوں"۔
دوسروں کی تعریف: وہ دوسرے طلبہ کی کامیابیوں کا جشن منائے گی اور ان سے مشورہ کرے گی کہ وہ کیسے اچھا اسکور کرتی ہیں۔
کھلی ذہن سے بات چیت: وہ اپنے والدین یا اساتذہ سے بات کرے گی اور ان سے پڑھائی میں مدد مانگے گی۔
اس طرح وہ اپنی منفی سوچ کو چیلنج کرکے، مثبت سوچ اپنا سکتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔
یاد رکھیں، یہ تبدیلی ایک لمحے میں نہیں آتی۔ اس میں وقت اور مسلسل کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ٹرانزیکشنل تجزیہ کی مدد سے، ہم اپنی منفی سوچ کو چیلنج کر سکتے ہیں، مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور زیادہ خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔