1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arif Anis Malik/
  4. Mein Bhi Theek Hoon, Tum Bhi Theek Ho (1)

Mein Bhi Theek Hoon, Tum Bhi Theek Ho (1)

میں بھی ٹھیک ہوں، تم بھی ٹھیک ہو (1)

(آج کی کتاب دنیا کو دیکھنے کے زاویے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ ایک پیچیدہ تصور ہے جسے میں نے کوشش کی ہے کہ آسان فہم بنایا جاسکے، میں نے پاکستانی ثقافتی حساب سے اس میں بہت سی مثالیں واضح کر دی ہیں تاکہ آپ اسے عملا استعمال کر سکیں)

"I'm OK - You're OK"

تھامس انتھونی ہیرس کی لکھی ہوئی ایک مشہور سیلف ہیلپ کتاب ہے جو کروڑوں کی تعداد میں پڑھی جا چکی ہے۔ یہ کتاب نفسیات کے ایک نظریے جسے ٹرانزیکشنل اینالیسس (TA) کہا جاتا ہے، پر مبنی ہے۔ یہ نظریہ ڈاکٹر ایرک برن کی جانب سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں مصنف نے عام لوگوں کی سمجھ کے لیے سادہ زبان میں، ٹرانزیکشنل اینالیسس سے متعلق اہم تصورات کی وضاحت کی۔ مصنف کے نزدیک، ہم تین بنیادی ذہنی حالتوں میں کام کرتے ہیں: والد، بالغ، اور بچہ۔ ہمارے اپنے والدین اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ ہمارے بچپن کے تجربات ان ذہنی حالتوں کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ وہ منفی رویے یا احساسات جو بالغ ذہنی حالت میں سامنے آتے ہیں، دراصل وہ ہمارے خراب بچپن کے تجربات یا منفی پیغامات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کتاب میں، ہیرس اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہم اپنی ذہنی حالتوں میں ضروری تبدیلیاں لا کر اپنی زندگی کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں

تھامس انتھونی ہیرس امریکہ میں ایک ماہر نفسیات اور مصنف تھے۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا اور پرل ہاربر اٹیک میں بال بال بچ گئے۔ انہوں نے ٹرانزیکشنل اینالیسس کے ماڈل کو عام کرنے اور ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں"Staying OK" اور "A Window to Ourselves" شامل ہیں۔

کتاب لکھنے کا سبب

ہیرس کا مقصد نفسیاتی اصولوں کو عام لوگوں تک سادہ اور سمجھنے میں آسان انداز میں پہنچانا تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ٹرانزیکشنل اینالیسس کے بنیادی تصورات کو سمجھنے سے، لوگ اپنے رویوں اور تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

7 اہم اسباق اور ان کا اطلاق

میں ٹھیک ہوں - آپ ٹھیک ہیں کا فلسفہ: لوگوں کو یہ احساس کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سب لوگ اپنی فطرت میں اہم ہیں اور اپنی انفرادیت کے مستحق ہیں۔ معاشرے کے غلط اثرات کی وجہ سے کچھ لوگ یہ احساس کھو دیتے ہیں کہ صرف وہی صحیح ہیں اور دوسرے غلط ہیں۔ اس ذہنیت کو درست رکھنا ضروری ہے۔ اس فلسفہ پر عمل کرکے ہم دوسروں کے لیے ہمدردی اور گنجائش پیدا کر سکتے ہیں۔

ذہنی حالتیں: (والد، بچہ، بالغ): یہ تین ذہنی حالتیں ہماری شخصیت کی بنیاد بنتی ہیں۔ والد کی ذہنی حالت ہمارے والدین کے رویوں، اقدار، اور نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ بچہ کی ذہنی حالت ہمارے بچپن کے تجربات، جذبات، اور خواہشات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور بالغ کی ذہنی حالت ہمارے ذہن کا وہ تعقلی اور منطقی حصہ ہے جو اس وقت کے حالات کا معائنہ کرنے اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی مختلف ذہنی حالتوں کے بارے میں آگاہی سے ہم اپنی ذہنی کیفیات اور رویوں کو سمجھنے لگتے ہیں، جس کی مدد سے ہم اپنے مسائل کی جڑ تک پہنچ کر ان کو حل کر سکتے ہیں۔

زندگی کے اسباق: ہمارا رویہ اور طرز عمل خاص طور پر ہمارے بچپن کے تجربات سے متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے زیر شعور میں کچھ ایسے اثرات یا پیغامات موجود ہوتے ہیں جن کو زندگی کے اسباق کہا جاتا ہے۔ یہ سبق منفی رویوں یا احساس کمتری کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کے اسباق کو سمجھ کر، ہم اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

ٹرانزیکشنز: ٹرانزیکشنز سے مراد کسی بھی قسم کا تبادلہ ہوتا ہے جو دو یا زیادہ افراد کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ زبانی بھی ہو سکتا ہے اور غیر زبانی بھی جیسے کہ چہرے کے تاثرات یا باڈی لینگویج کی شکل میں۔ ٹرانزیکشنل اینالیسس میں اس تبادلے کا جائزہ لے کر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ ہمارے تعلقات کیسے بنتے یا بگڑتے ہیں۔ اس سے ہم اپنے تبادلے کے انداز کو سمجھ کر، ان کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

کھیل (Games): ہیرس نے انسانی رویوں کے کچھ ایسے پیٹرنس کا ذکر کیا ہے جن کو انہوں نے "کھیل" کا نام دیا۔ ان کھیلوں میں دھوکہ دہی اور نفسیاتی حربوں سے دوسروں پر غالب آنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کھیلوں کی نشاندہی کرنے سے ہم ایسی صورتحال سے بچ سکتے ہیں جہاں ہم ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

زندگی کی اسکرپٹ: بچپن میں ہم کچھ ایسے طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو بظاہر ہماری بقا اور ترقی کے لیے ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن بڑے ہو کر یہ طرز عمل ہماری زندگی میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی صورتحال کو زندگی کی اسکرپٹ کہا جاتا ہے۔ اپنی زندگی کے اسکرپٹ کا جائزہ لے کر ہم اپنی زندگی میں درست تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

کایا پلٹ: ہیرس یہ زور دیتے ہیں کہ لوگوں میں اپنے حالات کو بدلنے، بہتر بننے، اور ترقی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اپنی ذہنی حالتوں، زندگی کے اسباق، اور منفی طرز عمل کے بارے میں شعور پیدا کرکے، ہم اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔

انسانی رویوں میں دہرانے جانے والے نمونے

ہیرس یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم سب خفیہ مقاصد کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور پھر غیر موثر بندھن میں پھنس جاتے ہیں، انہوں نے انہیں ان کا نام "گیمز" دیا ہے۔ ہم لاعلمی میں، یہ نفسیاتی کھیل جاری رکھتے ہیں، جن کا اختتام اکثر تکلیف، مایوسی اور ناقص رشتوں پر ہوتا ہے۔ ہیرس یہ سمجھنے کا موقع فراہم کرکے ہماری ان الجھنوں کو سلجھانے میں مدد کرتے ہیں کہ یہ رویے ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں۔

کتاب لکھنے کا مقصد

ہیرس بنیادی طور پر، لوگوں میں خود شناسی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسروں کے ان پیچیدہ نفسیاتی کھیلوں کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں۔ اس بصیرت کے ساتھ، افراد ان منفی رویوں کو روک سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں زیادہ مثبت، بامعنی اور مثبت تعلقات استوار کر سکتے ہیں۔

ٹرانزیکشنل تجزیہ (Transaction Analysis) ایک دلچسپ نفسیاتی نظریہ ہے جو یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیسے بات چیت کرتے ہیں اور یہ بات چیت ہمارے تعلقات کو کیسے متاثر کرتی ہے۔ آسان الفاظ میں، یہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم تین مختلف "کرداروں" میں سے ایک کو استعمال کرکے بات چیت کر رہے ہوتے ہیں، اور یہ کردار ہماری بات چیت کا انداز اور اس کا نتیجہ دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔

یہ تین کردار کچھ اس طرح ہیں:

والد: یہ وہ کردار ہے جو حکم دیتا ہے، نصیحت کرتا ہے یا تنقید کرتا ہے۔ جیسے کوئی بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو یہ کہہ رہا ہو، "پہلے اپنا ہوم ورک کرو پھر ٹی وی دیکھو! "

بالغ: یہ وہ کردار ہے جو منطقی، غیر جذباتی انداز میں بات چیت کرتا ہے۔ جیسے دو دوست امتحان کے بارے میں بات کر رہے ہوں اور یہ کہہ رہے ہوں، "لگتا ہے ریاضی مشکل تھی، لیکن مجھے امید ہے کہ ہم نے اچھا کیا ہے۔ "

بچہ: یہ وہ کردار ہے جو جذباتی، متقلّد یا ہٹ دھرمی پر مبنی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ جیسے کوئی بچہ اپنی ماں سے یہ کہہ رہا ہو، "میں یہ سبزی نہیں کھاؤں گا! " چاہے اس نے اسے کبھی کھایا بھی نہ ہو۔

ٹرانزیکشنل تجزیہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کس کردار میں بات چیت کر رہے ہیں اور دوسرا شخص کس کردار میں ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ مثلاً، اگر آپ ایک والد کی طرح بات کر رہے ہیں ("اپنے کمرے کو صاف کرو! ")، تو دوسرا بچے کی طرح (بہانے بازی یا جھگڑا) ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس سے بات چیت بے نتیجہ ہو جاتی ہے۔

لیکن، اگر آپ بالغ کی طرح بات چیت کرتے ہیں ("کیا ہم مل کر کمرے کی صفائی کر سکتے ہیں؟") تو دوسرا شخص بھی بالغ کے طور پر ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے اور مسئلہ کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس نظریے کو سمجھنے سے آپ اپنی اور دوسروں کی بات چیت کو بہتر انداز میں سن اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہ آپ کو زیادہ موثر اور خوشگوار تعلقات بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

ایک مثال

کوئی شخص "کیوں آپ ہمیشہ دیر سے آتے ہیں؟" جیسا جملہ کہتے ہوئے ایک طاقت کے کھیل کا آغاز کر سکتا ہے۔ یہ والد کی سی تنقیدی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے اور بچے جیسے معذرت خواہانہ یا دفاعی ردعمل کو ہوا دیتا ہے۔ اس طرح کے ٹرانزیکشن بار بار ہو سکتے ہیں، جو کسی گیم کی طرف لے جاتے ہیں جیسے "آپ مجھے پسند نہیں کرتے"۔

"میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Okay، You're Okay) کی زندگی کے منظرنامے: حقیقی زندگی کی مثالیں کے ساتھ وضاحت

ہیرس کے ٹرانزیکشنل تجزیہ (TA) میں ایک اہم تصور "لائف پوزیشن" (Life Positions) ہے۔ یہ وہ بنیادی تصورات یا عقائد ہیں جو ہم اپنے بارے میں، دوسروں کے بارے میں اور دنیا کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کلیدی پوزیشن "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Okay، You're Okay) ہے۔ آئیے اسے حقیقی زندگی کے چند مثالیوں کے ذریعے سمجھتے ہیں۔

مثال 1: اعتماد اور تعاون کا ماحول

ماں اور بیٹی

ایک ماں اپنی بیٹی کو اسکول کے بعد گھر آتے دیکھ کر پوچھتی ہے، "آج کا دن کیسا تھا؟" بیٹی جواب دیتی ہے، "کچھ خاص نہیں، ریاضی کا ٹیسٹ تھا اور مجھے لگتا ہے کہ مجھے اچھا نہیں گیا"۔ ماں اسے تسلی دیتے ہوئے کہتی ہے، "کوئی بات نہیں، ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے۔ ہم کل پڑھائی کریں گے اور تم اگلی بار اس میں بہتر کر سکو گی۔ "

تجزیہ: اس مکالمے میں، ماں اور بیٹی دونوں"میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" کی پوزیشن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ماں بیٹی کی پریشانی کو تسلیم کرتی ہے اور اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے، جبکہ بیٹی اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے اور یہ جانتی ہے کہ وہ اسے درست کر سکتی ہے۔ اس سے اعتماد اور تعاون کا ماحول بنتا ہے جو مسائل کو حل کرنے اور آگے بڑھنے میں مددگار ہے۔

مثال 2: مضبوط اور پراعتماد رشتہ

علی اور بلال لمبی دوری کے بعد ملتے ہیں۔ علی تھوڑا سا پریشان نظر آتا ہے اور بلال اسے پوچھتا ہے، "کیا سب ٹھیک ہے؟" علی بتاتا ہے، "میں اپنی نئی نوکری سے کچھ پریشان ہوں، کام کا بوجھ زیادہ ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں اسے سنبھال نہیں سکتا"۔ بلال اس کا کندھا تھپتھپاتا ہے اور کہتا ہے، "مجھے سمجھتے ہوں، نئی جگہ ایڈجسٹ ہونا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن تم ایک ذہین اور ہونہار لڑکے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم اسے سنبھال لو گے۔ اگر ضرورت ہو تو مدد کے لیے مجھ سے ضرور کہنا"۔

تجزیہ: یہاں بھی دونوں دوست "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" کی پوزیشن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ علی اپنی کمزوری کا اظہار کرتے ہوئے مدد مانگنے میں جھجکتا نہیں، جبکہ بلال اس کی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے اور مدد کی پیشکش کرتا ہے۔ اس سے ان کے درمیان ایک مضبوط اور پراعتماد رشتہ بنتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

مثال 3: مسائل کو حل کرنے اور آگے بڑھنے کا رویہ

ایک دفتر میں، مینا اور حارث ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ کام کی ایک خاص بات پر ان کی رائے مختلف ہو جاتی ہے۔ مینا اپنی بات رکھتی ہے اور حارث غور سے سنتا ہے۔ پھر وہ اپنا نقطہ نظر بیان کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ اس کا خیال کیوں ہے۔ آخر میں وہ کہتے ہیں، "شاید ہم دونوں کے خیالات میں کچھ فائدہ ہو، آئیے مل کر ایک ایسا حل تلاش کریں جو دونوں پہلوؤں کو پورا کرے"۔ مینا اس سے اتفاق کرتی ہے اور وہ مل کر مسئلے کا حل نکالتے ہیں۔

تجزیہ: اس صورت حال میں مینا اور حارث ایک دوسرے کے نظریات کو سننے اور ان کا احترام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اب ہم "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Okay، You're Okay) کے برعکس پہلو کو دیکھتے ہیں۔ یہ وہ "لائف پوزیشنز" ہیں جو منفی سوچ کو جنم دے سکتی ہیں اور تعلقات میں تنازع پیدا کر سکتی ہیں۔

"میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Not Okay، You're Okay)

یہ ایک ایسی پوزیشن ہے جہاں ہم اپنے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں لیکن دوسرے شخص کو "ٹھیک" سمجھتے ہیں۔ اس سے خود اعتمادی کی کمی، دوسروں پر انحصار اور قربت پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مثال: ایک طالب علم ہمیشہ اساتذہ سے یہ کہتا ہے کہ "مجھے سمجھ نہیں آیا"، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ دوسرے طلباء کی طرح ذہین نہیں ہے۔

"میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" (I'm Okay، You're Not Okay)

اس پوزیشن میں ہم خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں اور ان پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ تکبر، دوسروں سے فاصلہ اور تلخی پیدا کر سکتا ہے۔

مثال: ایک گھریلو خاتون ہمیشہ اپنے شوہر کی صلاحیتوں پر شک کرتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ "تم کبھی یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتے"۔

"میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" (I'm Not Okay، You're Not Okay)

یہ سب سے منفی پوزیشن ہے۔ اس میں ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں مایوس ہو جاتے ہیں اور رشتوں میں مسلسل لڑائی جھگڑے کا امکان ہوتا ہے۔

مثال: ایک رشتے دار کی ملاقات پر وہ دوسرے رشتے دار سے یہ کہتا ہے، "میری زندگی تو خراب ہے ہی، لیکن تمہاری تو اور بھی بری گزر رہی ہے"۔

یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ "میں ٹھیک ہوں، تم ٹھیک ہو" کے برعکس پوزیشنز کس طرح منفی سوچ اور تعلقات میں مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔ ہیرس کا ٹرانزیکشنل تجزیہ ہمیں اپنی اور دوسروں کی "لائف پوزیشنز" کو سمجھنے اور انہیں مثبت انداز میں تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے تاکہ ہم زیادہ خوشگوار اور بامقصد رشتے بنا سکیں۔

منفی "لائف پوزیشنز" اور ان کے اثرات: حقیقی زندگی کی تفصیلی مثالیں

جب ہم کتاب کے منظرنامے میں داخل ہوتے ہیں، تو اکثر ہم خود کو منفی "لائف پوزیشنز" (Life Positions) میں پھنساتے ہیں۔ آئیے ان دو عام پوزیشنوں، "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو" (I'm Not Okay، You're Not Okay) اور "میں ٹھیک نہیں ہوں، تم ٹھیک ہو" (I'm Not Okay، You're Okay) کو مزید تفصیل سے حقیقی زندگی کی مثالیوں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal