Goron Ke Des Ka Bhoora Wazir e Azam
"گوروں کے دیس" کا "بھورا" وزیراعظم
برطانیہ کے پہلے "بھورے" اور پنجابی نژاد والدین کے بیٹے وزیراعظم کو مبارک باد۔ رشی سونک پہلا برطانوی ہندو وزیراعظم ہو گا۔ رشی سونک میں خاص بات یہ ہے کہ اس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں"دعویٰ" کر سکتے ہیں۔ وہ مذہبی طور پر ہندو ہے، مگر اس کے دادا، گوجرانوالہ، موجودہ پاکستان کے باسی تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ باری کسی اور کی تھی۔
میں دس سال قبل 2012 کی اس میٹنگ میں موجود تھا جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پاکستانی نژاد ساجد جاوید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا، "میں ساجد کو اگلے وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہا ہوں"۔ ساجد جاوید مالیاتی نظام کا جادوگر تھا، وہ بعد میں برطانوی وزیر خزانہ منتخب ہوا اور وزیراعظم کا امیدوار بھی بنا۔ رشی سونک اسی ساجد جاوید کا "سیکرٹری" تھا جو اپنے استاد کو پچھاڑ کر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
سیاسی غلطیوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ساجد جاوید نے جو بس مِس کی، اسے رشی سونک نے پکڑ لیا۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والوں کو مبارک ہو۔ رشی سونک کے خاندان کا تعلق گوجرانوالا سے تھا۔ گو کہ وہ پہلوانی کے حساب سے "فارغ" ہے اور اوپر سے سبزی خور ہے۔
رشی سونک 12 مئی 1980 کو ساؤتھمپٹن، یو کے میں پنجابی ہندوستانی نژاد یشویر اور اوشا سونک، ہندو والدین کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ اس کے والد کینیا میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی، جبکہ اس کی والدہ تانگانیکا میں پیدا ہوئیں جسے اب تنزانیہ کہا جاتا ہے۔ ان کے دادا برطانوی ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے اور 1930 کی دہائی میں گوجرانوالہ سے کینیا منتقل ہو گئے۔
1960 کی دہائی میں اپنے خاندانوں کے ساتھ مشرقی افریقہ سے ہجرت کر کے برطانیہ آئے۔ ان کے دادا رام داس سونک کا تعلق گوجرانوالہ (موجودہ پاکستان) سے تھا۔ ان کی بیوی اکشتا مورتی، این آر نارائن مورتی کی بیٹی ہیں جو ایک ہندوستانی ارب پتی تاجر ہیں۔ سونک اور مورتی کے مالی اثاثے 2022 تک 730£ ملین کی مشترکہ دولت کے ساتھ برطانیہ کے 222ویں امیر ترین افراد میں آتے ہیں۔
رشی سونک پہلا ہندو، پہلا ایشیائی وزیراعظم ہے۔ اسی طرح وہ برطانوی تاریخ کا امیر ترین وزیراعظم ہے۔ پہلی مرتبہ 10 ڈاؤننگ میں رہنے والے وزیراعظم کے اثاثے، برطانوی بادشاہ کے اثاثوں سے زیادہ ہیں۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے ہرکاروں پر آج سکوت کا عالم طاری ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر برطانوی معیشت بربادی کی طرف گامزن نہ ہوتی تو آج بھی رشی سونک کی باری نہیں آنی تھی۔ پچھلی بار بھی قسمت کی دیوی کا رخ آخری چکر میں لز ٹرس کی طرف ہو گیا۔
اب سب رشی سونک کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، "چڑھ جا بیٹا سولی پر، رام بھلی کرے گا"۔ رشی سونک سال سے ڈیڑھ سال برطانیہ کا وزیراعظم رہ سکتا ہے، تاہم یہ طے ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کی کہانی ختم ہوئی اور اگلی حکومت لیبر پارٹی بنائے گی۔ رشی سونک سے کئی ملاقاتیں رہیں اور عام تاثر کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان کے لیے لز ٹرس یا بورس جانسن کے مقابلے میں زیادہ بہتر وزیراعظم ثابت ہو گا۔ رشی سونک کی انہونی ہونے کے بعد مئیر آف لندن، صادق خان کے اگلے دس برس میں برطانوی وزیراعظم بننے کے امکانات کہیں بڑھ چکے ہیں۔