Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Shareeat Ijazat Nahi Deti

Shareeat Ijazat Nahi Deti

شریعت اجازت نہیں دیتی

مولانا وحید الدین صاحب کا ایک بیان نظر سے گزرا۔ ان سے سوال ہوا کہ اگر ایک مسلمان ملک میں شعائر اسلام کیخلاف اگر کوئی بات ہوتی ہے یا آقاؑ کیخلاف کوئی شخص بات کرتا ہے یا کوئی بھی اس طرح کا فعل انجام دیتا ہے تو اسکی سزا کیا ہوگی؟ مولانا وحید الدین نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں یہ کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے دراصل یہ مباحثہ کا مسئلہ ہے۔

ایسے شخص کو بات چیت کرکے سمجھایا جائے قائل کیا جائے، اگر کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے تو اس کتاب کی رد میں کتاب لکھی جائے، اگر کوئی تقریر کرتا ہے تو اسکی رد میں تقریر کی جائے تاکہ اگر کوئی کنفیوژن پیدا ہوئی ہے تو اسے فوری دور کر دیا جائے۔ وہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ ڈائریکٹ لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ کے نبی کے دور میں بھی ایس واقعات ہوئے تو آپ ﷺ نے ایک صحابی کو باقاعدہ منبر لگا کر بذریعہ تقریر اسکا رد کرنے کیلئے مقرر کیا۔

میرے ساتھ بہت سے اہل علم حضرات بھی موجود ہیں۔ صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں اور اپنے آپ کو کلیر کرنا چاہتا ہوں کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں کسی نے انکی توہین کی اور ایسی کوئی مثال ملتی ہے جس میں گستاخی کرنے والوں کو سزا دی گئی ہو۔ یہاں پر میں مثال کیلئے عمومی طور پر کچھ علماء کرام کی جانب سے بیان کئے جانے والے تین واقعات کو پیش کرتا ہوں ایک تو کعب بن اشرف یہودی کا ہے جسکا کام ہی اللہ کے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا تھا کہا یہ جاتا ہے کہ پھر اللہ کے رسول نے تین صحابہ کی ایک ٹیم روانہ کی اور اسکو جہنم و اصل کیا گیا۔

دوسرا فتح مکہ کے دن جن کو قتل کیا گیا ان میں ایک لونڈی بھی شامل تھی جو گستاخی کیا کرتی تھی، تیسری مثال ایک نابینا صحابی کی ہے جس نے اپنی لونڈی کو محض اس جرم میں قتل کیا کہ وہ گستاخی رسول کرتی تھی اور جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے قصاص کا حکم نہیں دیا۔ اسی طرح جب امام مالک سے پوچھا گیا تو انہوں نے جوابا عرض کیا کہ اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں کہ انکی موجودگی میں انکے رسول کی توہین کی جائے۔ مشکور رہونگا کہ اگر آپ اس میں رہنمائی فرمائیں کہ آیا یہ واقعات درست ہیں اور انکا سبب یہی تھا یعنی توہین رسالت یا کوئی اور مقصد بھی تھا۔

ایسی سزا کا چونکہ براہ راست تعلق آقاؑ کی ذات اقدس سے ہے تو اس کیلئے حدود کے اندر بھی کوئی سزا متعین نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ تو ظاہر ہے کہ بڑا حساس ہے ہمارے معاشرے میں جس قدر پولیرازیشن ہو چکی ہے اگر علماء کرام اس کی بابت کھل کر وضاحت نہیں کریں گے تو یہ بڑھتی جائے گی اور اس معاملے کو لے کر آئے روز توہین کی آڑ میں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے میں قتال اور جدال کرتے رہیں گے۔

میرا مؤقف اس سلسلے میں بالکل واضح ہے جس کا میں سالہا سال سے اظہار بھی کرتا آ رہا ہوں اور لکھتا آ رہا ہوں کہ ہر ضلع کی سطح پر علماء سکالرز کا ایک بورڈ بنایا جائے جو اسلامیات کے اساتذہ اور علماء دین پر مشتمل ہو۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تو شکایت دہندہ اپنی شکایت اس علماء بورڈ کو براہ راست بذریعہ ای میل یا دستی جمع کروائے یہ بورڈ اس معاملے کی مکمل انکوائری کرکے اپنی رپورٹ متعلقہ تھانے میں جمع کروائے کہ آیا کوئی گستاخی ہوئی ہے یا نہیں یا وہ معاملہ گستاخی کی حد تک جاتا ہے یا نہیں؟

ایک ریاست کے اندر کسی بھی شخص کو انفرادی طور پر قانون ہاتھ میں لینے کا قطعاً اختیار نہیں ہونا چاہیئے اس کی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی۔

Check Also

Be Maqsad Ehtejaj

By Saira Kanwal