Kamyab Logon Ki Kaamyab Kahaniyan
کم یاب لوگوں کی کامیاب کہانیاں
سپیشل بچوں کی بات کریں تو میں نے سوچا کہ ان لوگوں سے آپکی بھی ملاقات کرواؤں جو لوگ میرے ساتھ کام کر چکے ہیں یا جن کیساتھ میں کام کر چکا ہوں اور جن کیساتھ عرصہ دراز تک میں رہ چکا ہوں میرا میل ملاپ رہا ہے جنہیں میں اچھے سے جانتا ہوں۔
ان سے ملئیے۔ یہ عبدالصالح ہیں۔ قوت گویائی اور سماعت سے محروم ہیں۔ انھوں نے ایم ایس سی شماریات کر رکھا ہے۔ آٹھ برس قبل میں نے انسانی حقوق کی ایک این جی او میں ٹریننگ کروائی یہ وہاں شماریات اسپیشلسٹ کے عہدے پر کام کرتے ہیں اس سے پہلے کمپیوٹر آپریٹر رہ چکے ہیں۔ ہمیں تمام ڈیٹا عبدالصالح ہی مہیا کرتا تھا۔ اپنے کام میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ایم ایس ورڈ اور ایم ایس ایکسل پر بھرپور کمانڈ رکھتے ہیں۔ آجکل امید ہے کہ کسی بڑی این جی او میں کسی بڑے عہدے پر تعینات ہوں گے۔
چلیں آپ کو فیصل کمال حیدری سے ملواتا ہوں۔ بینائی سے محروم ہیں۔ ہمارے ایف سی کالج کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم تھے۔ کمال کے مقرر تھے۔ بہت سے تقریری مقابلوں میں گولڈ میڈل اپنے نام کر چکے ہیں۔ تقریر کرتے تھے سماں باندھ دیتے تھے۔ کئی تقریری مقابلہ جات کے جج بھی رہے۔ ایف سی کالج کے دوست جانتے ہیں کہ بہت سے طلباء کو تقریر لکھ کر بھی دیتے تھے اور تقریر کی ٹریننگ بھی کرواتے تھے۔ انکے دور کے تمام تقریری مقابلے ایف سی کالج نے اپنے نام کئے۔ آج کل پروفیسر فیصل کمال حیدری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کے استاد ہیں۔
یہ پروفیسر کمال احمد ہیں۔ یہ بھی بصارت سے محروم ہیں اور زندگی کے رنگوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ لاہور کے دوسرے بڑے کالج گورنمنٹ ایف سی کالج کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر رہ چکے ہیں۔ تیس سال سے زائد عرصہ تک گریجویشن اور ماسٹرز کے بچوں کو انگریزی پڑھاتے رہے ہیں۔ انگریزی پڑھانے اور انگریزی سمجھانے میں اسم بامسمہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر طارق عزیز جیسی عظیم شخصیت سے ملنا چاہیں گے؟ شعبہ تعلیم تو کیا شوبز انڈسٹری میں بھی انکے نام کا ڈنکا ایک عرصے تک بجتا رہا۔ ایف سی کالج کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر رہ چکے ہیں۔ پی ٹی وی کے بہت سے سپرہٹ ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ دونوں ٹانگوں سے پیدائشی محروم ہیں لیکن اپنی معذوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ اپنی گاڑی آٹو کروا رکھی تھی خود ڈرائیو کرکے ایف سی کالج آتے اور ایک ملازم انھیں اٹھا کر کلاس روم تک چھوڑ کر آتے۔ اردو بولتے تو انکے منہ سے گویا پھول جھڑتے تھے۔
یہ محمد آصف ہے۔ اس کا تعلق میرے گاؤں سے ہے۔ یہ پیدائشی طور پر قوت گویائی اور سماعت سے محروم ہے۔ گاؤں کا بہت اچھا ٹیلر ہے اور بہترین باعزت روزی کما رہا ہے۔ اشاروں کنایوں میں اسکی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہ آ رہی ہو تو لکھ کر بتا دیتا ہے۔ اردو لکھ لیتا ہے حساب کتاب کر لیتا ہے سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے مریم نواز کا بہت بڑا فین ہے۔
یہ حافظ اکرام ہیں۔ تین سال تک میرے محلے دار رہے ہیں اور میرے کزن کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود قرآن پاک حفظ کرکے لاکھوں آنکھوں والوں زیر کر چکے ہیں۔ قاری القرآن ہیں۔ بات یہیں پر ہی نہیں رک جاتی۔ انھوں نے ایم اے اسلامیات کیا۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان نمایاں نمبرز سے پاس کرنے کے بعد اپنی قابلیت کے بل بوتے پر اسلامیات کے لیکچرار بھرتی ہوئے۔ بینائی کو اپنی معذوری نہیں بنایا اور زندگی کے ہر چیلنج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے زیر کیا۔ آج تک ناقابل شکست رہے ہیں۔
یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین نے انھیں تھوڑا سا سپورٹ کیا آگے اپنی ترقی کی راہیں انھوں نے خود کھوج لیں۔ ایسی بےشمار کہانیاں اسی معاشرے میں موجود ہیں۔ انھیں لوگ نامکمل سمجھتے ہیں مگر اپنی قابلیت سے ان نامکمل لوگوں نے خود کو مکمل سمجھنے کے زعم میں مبتلا بڑے بڑے لوگوں کو بچھاڑ کر رکھ دیا اور آج ترقیوں کی معراج پر بیٹھے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں کوئی سپیشل بچہ ہے آپ اسے اپنی تحصیل میں موجود سپیشل ایجوکیشن سکول میں ضرور داخل کروائیں تاکہ وہ اس معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں۔ ان سکولوں میں تعلیم بالکل مفت ہے۔ ادھورے وہ بچے نہیں، ادھوری آپکی سوچ ہے ورنہ وہ آپ سے زیادہ پورے ہیں بس آپکی معمولی سی توجہ کے منتظر ہیں۔