Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Ab Wo Din Kahan

Ab Wo Din Kahan

اب وہ دن کہاں۔۔

زمانہ طالب علمی میں لاہور ہاسٹل سے جب بھی گاؤں آتا تو کچھ وقت دادا جی کے پاس ضرور گزارتا۔ ایک دن دوران گفتگو رشتوں میں خلوص کے خاتمے کی بات چل نکلی تو دادا جی نے بہت سادہ سی بات کی "پتر جب ہر شے میں ملاوٹ اور بناوٹ ہوگئی ہے تو رشتے بھی اسی زد میں آ گئے"۔

مزید کہنے لگے "اب تو رشتے صرف شادی غمی اور مفادات کی حد تک رہ گئے ہیں۔ ہمارے وقت میں ایک تو ہمیں اپنے رشتوں اور پیاروں کی قدر تھی خلوص تھا ہم وقت نکالا کرتے تھے مگر تم لوگوں کو تو تمہارے وافر اخراجات اور پیسے اکٹھا کرنے کی دوڑ نے غافل کر دیا ہے"۔

چھوٹے دادا جی کی شادی اندرون لاہور میں ہوئی تھی جن کے کچھ رشتے دار قصور میں بھی رہتے تھے۔ دادا جی بتاتے ہیں کہ ہمارا لاہور اور قصور والے رشتےداروں سے بہت پیار اور محبت تھا اور وہاں اپنے ہم عمر کزنوں کیساتھ سگے بھائیوں جیسی دو-طرفہ محبت تھی۔ یہ تمام رشتے ہر قسم کے تکلفات اور تصنع و بناوٹ کی بندشوں سے آزاد محض خلوص کی بنیاد پر قائم تھے۔ وہاں جانے سے ایک مہینہ پہلے ہی تیاری شروع کر دیتے تھے۔ یہ طے تھا کہ ہر سال عرس داتا صاحب یا گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور جاتے تو ایک ہفتہ آرام سے وہاں رہ کر آتے۔

پورا لاہور گھومتے آوارہ گردی کرتے ہفتہ گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا حتیٰ کہ واپسی کا وقت آ جاتا ایک رات پہلے پورے ہفتے کی کارگزاری یاد کرتے اور آئندہ جلد ملنے کے وعدے کرتے۔ اگلے دن ہمارے نم دیدہ دوست ہمیں افسردہ دل کیساتھ ٹرین پر بٹھا کر جاتے۔ اسی طرح قصور بلھے شاہ میلے پر جاتے تو چار پانچ دن وہاں بھی رہ کر آتے۔ خوب گھومتے پھرتے۔ نہ کبھی میزبان اکتایا اور نہ ہی کبھی مہمان کے دل میں ایسی بدگمانی آتی۔

دادا جی نے بتایا کہ آجکل مہمان آتے ہیں تو اکثر ایک ہی وقت میں سات آٹھ کھانے بنا کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ کھانے کے بعد میزبان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ مہمان اب چلا جائے کیونکہ پانچ دن کے کھانے کا خرچہ محض دکھاوے کیلئے اب ایک ہی دن ایک ہی کھانے پر کر دیتے ہیں۔

ہمارے وقت میں جب مہمان بالخصوص ہمارے لاہور اور قصور والے مہمان پنڈ آتے تھے تو ہفتہ دو ہفتے آرام سے ہمارے پاس رہتے تھے یا انھیں زبردستی رکھ لیا جاتا تھا۔ جس دن مہمان آتے گھر میں پھر رہا مرغا ہم خود ہی زبخ کرکے اسے پکا کر مہمانوں کے آگے رکھ دیتے۔ سارا گھر پیٹ بھر کر کھاتا۔ سارا سارا دن مہمان ڈیرہ یعنی زمینوں پر رہتے۔ ٹیوب ویل یا نہر میں نہاتے، گنے توڑ کر چوستے، تازہ شلجم زمین سے نکال کر اسے دھو کر کھاتے کیا میٹھے اور مزیدار ہوتے تھے۔

بھینسوں کے چارے میں سے مکئی کے سٹے نکال کر اسے آگ میں پھینک دیتے۔ یہ بھنی ہوئی چھلی بھی کیا چس دیتی تھی اس کا سواد تم کیا جانو۔ آم کے درختوں سے پکے ہوئے ام اور جامن توڑ کر پیٹ بھر کر کھاتے یہی کچھ کھا پی کر ہمارا لنچ ہو جاتا۔ شام کو گائے اور بھینس دھوتے ہوئے دودھ کی دھاریں لیتے تو آدھا ڈنر یہی ہو جاتا۔ گھر آتے دیسی گھی میں بنا سادہ سا کھانا تیار ہوتا مزے لے کر کھاتے۔

روزانہ صبح سویرے ہماری والدہ بھینس کا دودھ بلونے کے بعد ایک بالٹی لسی میں تازہ مکھن کے چھوٹے چھوٹے پیڑے بنا کر ڈال دیتی۔ صبح ناشتے کے ساتھ یہ لسی ہماری مرغوب ترین غذا ہوتی۔ بس اسی طرح پورے ہفتے کے شب و روز گزرتے حتیٰ کہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلتا اور مہمانوں کے جانے کا وقت ہو جاتا۔

سواری کے باوجود گاؤں سے اسٹیشن کا پانچ میل کا فاصلہ اکثر پیدل مہمانوں کو چھوڑنے جاتے تاکہ تھوڑا وقت اور مل جائے اور نم آنکھوں کیساتھ مہمانوں کو رخصت کرکے بھاری دل سے واپس آتے پھر کئی کئی دن تک انھی یادوں کو سینے سے لگائے پھرتے۔ مگر اب وہ دن کہاں۔۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari