Ewan e Bala Ka Aham Marka
ایوان بالا کا اہم معرکہ
ایوان بالا میں چلے گا کس کا سکہ؟ کون ہوگا سینٹ کا سلطان؟ وفاقی حکومت کے امیدوار ہونگے کامیاب یا اپوزیشن ہوگی فاتح؟ فیصلہ آج ہوگا۔ حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے چیرمین سینٹ کے لیے صادق سنجرانی کو اپنا امیدوار منتخب کیا ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد کے حساب سے حکمران جماعت تحریک انصاف سینیٹ کی ستائیس نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے۔
اتحادی جماعتوں کے شامل سینیٹرز میں بلوچستان عوامی پارٹی کے12 ایم کیو ایم3 مسلم لیگ ق اور فنکشنل کے ایک ایک سینیٹرز سمیت4آزاد سینیٹرز کی حمایت بھی حاصل ہے، اس طرح حکومتی اتحاد کے مجموعی سینیٹرز کی تعداد اڑتالیس بنتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد مفرور اسحاق ڈار سمیت ویسے تو باون ہے لیکن خفیہ رائے شماری میں اکاون ہی موجود ہوں گے۔
اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں میں پیپلزپارٹی کے21، ن لیگ کے18، جے یو آئی کے5 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پختونخوامیپ کے دو، دو سینیٹرز شامل ہیں، بلوچستان نیشنل پارٹی کا ووٹ بھی اپوزیشن کیلئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔ایوان بالا میں جیت کے لیے امیدوار کو اکیاون ووٹ درکار ہونگے۔ بظاہر اپوزیشن جماعتوں کا پلا بھاری نظر آتا ہے۔
جوں جوں اس اہم معرکے کا وقت قریب آتا گیا، حکومتی جماعت نے بھی اپنے گھوڑے دوڑانے کا فیصلہ کیا۔ شاید پہلی شکست کے بعد پی ٹی آئی کا سنبھلنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز صاحب نے اس اہم انتخاب سے قبل ایک ایسا بیان دے دیا جس کے بعد نہ صرف اس نظام میں موجود اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی تنقید کرنے کا بہترین موقع مل گیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے بیان کا مفہوم یہ تھا کہ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم کتاب میں موجود ہر قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کریں اور اپوزیشن صرف جیت کی خاطر جعلسازی کے طریقے اختیار کرے اور قوانین کی خلاف ورزی کرے۔ اب ہم (حکومت) بھی تیار ہے، اس الیکشن کو جیتنے کے لیے کسی قسم کی ضرورت پیش آئی ہم وہ کمی پیشی پوری کرینگے، ہم ہر ہربہ استعمال کریں گے جس سے ہمارا امیدوار کامیاب ہو۔
اس اہم موقع پر ایک وفاقی وزیر کی جانب سے اس نوعیت کا بیان آنے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے، اراکین پی ٹی آئی اپوزیشن کی شدید تنقید کی زد میں ہیں جبکہ صحافیوں کے سخت سوالوں نے بھی ان کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ناجانے پی ٹی آئی کے نمائندگان کو اس بات کا احساس کب ہوگا کہ وہ حکومت وقت ہیں، پاکستان میں ان کی حکمرانی ہے، اقتدار ان کی جماعت کا ہے، اداروں کا تحفظ اور اس کو بہتر بنانا ان کی زمہ داری ہے۔ کیونکہ یہی جماعت تھی اور یہی عمران خان صاحب تھے جو اس قوم کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اس نواز زرداری گٹھ جوڑ نے ملک کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ انہوں نے ہر جگہ اپنے لوگ بھرتی کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک ترقی کرنے سے قاصر ہے۔ اداروں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، اصلاحات نہیں ہوتے جس کے باعث ہمارے ادارے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
حکمران جماعت اگر غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گی اور اس قسم کے رویے اختیار کرے گی تو سوالات اٹھیں گے۔ کیونکہ اس وطن عزیز کا ہر با شعور شہری جانتا ہے کہ کس طرح اپنی راہیں ہم وار کرنے کے لیے کام کروائے جاتے ہیں کس طرح اداروں کا استعمال ہوتا ہے اور معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والوں کے لیے کیا آسانیاں ہوتیں ہیں۔ لہذا سینیٹرز اپوزیشن جماعت ن لیگ سے کچھ افراد نے خفیہ طور پر رابطہ کیا ہے اور ووٹ ڈالنے کے حوالے سے بات چیت بھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مریم نواز شریف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ، ہمارے سینٹرز کو کال کر کہ کہا جا رہا ہے پی ڈی ایم کے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا۔ کچھ نے ثبوت محفوظ بھی کر لیے ہیں۔
اگر ہم ملک پاکستان کی سیاسی تاریخ میں رونما ہونے والے اہم حالات و واقعات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت جو کچھ بھی سینٹ الیکشن کی آڑ میں ہورہا ہے اس میں کچھ ایسا نہیں ہے جو اس سے قبل نہ ہوا ہو۔ عام انتخابات ہوں یا پھر ایوان بالا کا معرکہ۔ ادارے کام کرتے ہیں، اراکین اسمبلی کے ضمیر وقت کے اعتبار سے ہی صحیح لیکن جاگتے ضرور ہیں، کوئی بھی جماعت ہو چاہے وہ حکمران ہو یا اپوزیشن سب کے نزدیک نوٹوں سے لوگوں کو خریدنا معمولی بات ہے۔
ياد رہے چئیرمین سینٹ کا انتخاب بھی خفیہ بیلٹ سے ہوتا ہے، چئیرمین سینٹ کا یہ تاج کس امیدوار کے سر جاتا ہے، صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی میں سے کون ہوتا ہے اس نشست کے لیے منتخب۔۔ یہ وقت بتائے گا۔