Wo Aik Aansu
وہ ایک آنسو
باباجی کی عمر 70 سے 75 سال کے درمیان تھی، ان کے چہرے پر اتنی جھریاں تھیں۔ جیسے تھر کی خشک زمین دکھائی دیتی ہے، منہ میں دانت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بات کرتے ہوئے بار بار اپنی زبان تَر کرنے کے لیے اپنے ہونٹوں پرلگاتے، لیکن عمر کے اس حصے میں ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر ہمیشہ عجیب سی معصومیت تھی، وہ جب بھی بات کرتے ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ، وہ جب کبھی میرے پاس آتے تو تھوڑی ہی دیر میرے پاس بیٹھتے، میں ان کے لئے چائے کا کہتا تو مسکراتے ہوئے کہتے نہیں بیٹا میں تو صرف آپ کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنے کے لئے آیا ہوں، مجھے تمہارے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگتا ہے، میں ہمیشہ انہیں کہتا بابا جی یہ تو میری خوش نصیبی ہے آپ میرے پاس تشریف لاتے ہیں۔
ایک دن جب وہ میرے پاس آئے تو خلاف معمول ان کے چہرے پر اداسی تھی، میں نے ان کے لیے چائے منگوائی اور خود اپنے کام میں مصروف ہو گیا، تھوڑی دیر بعد میں نے پوچھا بابا جی خیریت ہے؟ آج آپ مجھے پریشان دکھائی دے رہے ہیں، میرے پوچھنے کی دیر تھی ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور ان کے چہرے کی جھریاں پر آگئے، میں اپنی کرسی سے اٹھا اور بابا جی کے پاس بیٹھ گیا، باباجی نے چائے کا گھونٹ لیا اور بولے بیٹا میں کیا بتاؤں؟ میرے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، اللہ کا کرم ہے تینوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی اور وہ اپنے اپنے گھر میں خوش ہیں۔
میرا ایک بیٹا گاؤں میں رہتا ہے اور دوسرا روزی روٹی کے لیے فرانس ہوتا ہے اور میں اس فرانس والے بیٹے کے پاس رہتا ہوں، میں نے ساری عمر دیہات میں گزاری اس لیے مجھے شہر کا یہ گھر قیدخانہ لگتا ہے، میں نے کہا بابا جی آپ اپنے گاؤں والے بیٹے کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے اگر آپ کو یہاں رہنا اچھا نہیں لگتا، کہنے لگے نہیں میں گاؤں نہیں جا سکتا ۔یہاں شہر میں رہنا میری مجبوری ہے، میں نے پوچھا کیسی مجبوری؟
باباجی کہ میرا بیٹا فرانس ہوتا ہے، اس اتنے بڑے گھر میں میری بہو اور صرف 10 سال کا ایک پوتا ہے، وہ چونکہ اکیلے ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے بیٹے کے کہنے پر ان کے پاس رہتا ہوں، مجھے ان کے پاس رہنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن بیٹا مجھے اُس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب بہو میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی، بابا جی کی باتوں میں عجیب سا کرب تھا، کہنے لگے یہ شہر والا گھر ڈبل سٹوری ہے، میں اوپر والے حصے میں رہتا ہوں، گرمی کی وجہ سے اوپر والا حصہ اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
نیچے والے حصے میں چار پانچ کمرے ہیں، اگر زیادہ گرمی کی وجہ سے میں نیچے آ جاؤں تو میری بہو مجھے نیچے نہیں رہنے دیتی، وہ کہتی ہے آپ نیچے کیوں آئے آپ کے رہنے کی جگہ تو اوپر ہے، کھانے کا حال یہ ہے کہ وہ مجھے فریج سے ٹھنڈا کھانا نکال کر ویسے ہی میرے سامنے رکھ دیتی ہے، بیٹا تم بتاؤ اس قدر ٹھنڈا کھانا میں اس عمر میں چبا بھی نہیں سکتا تو کھاؤں گا کیسے، صبح ایک چائے کا کپ میرے سامنے رکھتی ہے اور اس کے بعد وہ سارا دن مجھ سے پوچھتی تک نہیں کہ میں کس حال میں ہوں۔
میری بیوی جب تک زندہ رہی اُس کےساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا، ہم دونوں ایک دوسرے سے دکھ سکھ کی باتیں کر لیا کرتے تھے لیکن اُس کے مرنے کے بعد میں بس خاموش رہتا ہوں، میں نے پوچھا آپ کے بیٹے کا فرانس میں کام کیسا ہے، بولے کہ ماشااللہ وہ فرانس میں اچھا سیٹل ہے اور مہینے کے تین چار لاکھ روپے کما لیتا ہے، میں نے کہا بابا جی آپ یہ ساری صورتحال اپنے بیٹے کو بتائیں تاکہ وہ اپنی بیوی کو سمجھائے کہ آپ کی خدمت کیا کرے۔
بابا جی کہنے لگے نا بیٹا نا! میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا، میں نے وجہ پوچھی تو بولے میں یہ ساری باتیں اگر بیٹے کو بتاؤں گا تو وہ بہو سے لڑائی کرے گا، بہو کو بہت بُرا لگے گا کہ میں نے اس کی شکایت اپنے بیٹے سے کی، اس طرح ان کا گھر خراب ہو گا اور میں نہیں چاہتا ان کا گھر خراب ہو۔ باباجی باتیں کرتے جا رہے تھے اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بوڑھے باپ کو اتنی فکر ہے کہ میرے بیٹے اور بہو کا گھر خراب نہ ہو لیکن اِنہیں باپ کے جذبات و احساسات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں۔
ماں باپ اپنے بچوں کو کس تکلیف اور مشکلات سے پالتے ہیں، بچوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے اِنہیں اگر مزدوری بھی کرنا پڑے تو کرتے ہیں۔ لیکن وہی اولاد جوان ہو کر اپنے بوڑھے ماں باپ کو کیوں بھول جاتی ہے۔بوڑھے ماں باپ کو اپنی اولاد سے تھوڑے سے وقت اور تھوڑی سی کیئر کے علاوہ اور کیا چاہیے ہوتا ہے، کچھ بھی تو نہیں۔ میں بابا جی کی باتیں سننے کے بعد یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کتنی بدنصیب ہوتی ہے وہ اولاد جو اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائے اور پھر ان کی خدمت نہ کر سکے۔ہم ساری زندگی پیسے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اصل خوشی دولت کمانے میں نہیں بلکہ اپنے ساتھ جُڑے رشتوں کو نبھانے میں ہے۔
یہ دنیا تو مکافات عمل ہے، جو آج ہم بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے، دولت ضرور کمائیں لیکن دولت کماتے کماتے دنیا میں اتنا گم نہ ہو جائیں کہ جب واپس لوٹیں تو مٹی کی ایک ڈھیری کے سوا کچھ نہ ہو، دو دن پہلے مجھے ان بابا جی کا پوتا ملا، میں نے پوچھا کافی دن ہوگئے میں نے آپ کے دادا جی کو نہیں دیکھا، وہ ٹھیک تو ہیں؟ وہ کہنے لگا دادا جی کا تو دس دن پہلے انتقال ہو گیا تھا، جونہی میں نے ان کے انتقال کی خبر سنی تو بے اختیار میری آنکھیں نم ہوگئیں اور بابا جی کے ساتھ آخری ملاقات میں ان کی آنکھوں سے نکلے وہ آنسو میرے سامنے آگئے اور دیر تک اُن کی باتیں میرے ذہن میں گھومتی رہیں، اُس لمحے مجھے یوں لگا جیسے باباجی جسمانی طور پر اب مرے لیکن اُن تکلیف دہ رویوں نے تو اُنہیں پتا نہیں کب کا مار دیا تھا۔