Wadi e Kalash Main Aik Din
وادیِ کالاش میں ایک دن
ہم چنار کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ تمہارا نام آغا خان کس نے رکھا؟ وہ چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے بولا میرے دادا نے۔ پرنس آغا خان جب وادیِ کالاش میں آئے تو اُن کا ہیلی کاپٹر میرے دادا کی زمینوں میں اُترا اور اُسی دن میں پیدا ہوا۔ لہذا میرے داد نے میرا نام بھی آغا خان رکھ دیا۔ آغا خان کالاشی تھا۔ کالاش کے باشندے اپنے آپ کو کالاشی کہلاتے ہیں۔ کالاش جس ہوٹل میں ہم لوگ ٹھہرے تھے آغا خان اس ہوٹل کے مالک کا داماد تھا۔
عثمان جو کہLeventure Tourism کا نمائندہ تھا۔ لاہور سے تقریباً 30 لوگوں کا گروپ لے کر چترال اور وادیِ کالاش دیکھنے 12 اگست کی رات لاہور سے نکلا۔ خرم اور میں بھیرہ سے اس گروپ میں شامل ہو گئے۔ 18 گھنٹے مسلسل سفر کے بعد ہم ایون پہنچے جو چترال سے تقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے۔ اپر دیر سے آگے 9 کلو میٹر اور مزید 3 تین کلو میٹر ٹنل بن جانے کے باوجود اس پہاڑی سلسلہ کی سٹرکیں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ لیکن سٹرک کی مرمت کا کام جاری تھا۔ ایون سے کالاش جانے کے لیے جیپ لینا پڑتی ہے کیونکہ وہ راستہ اتنا دشوار گزار ہے کہ اپنی گاڑی پر کالاش جانا ممکن نہیں۔ کالاش جس ہوٹل میں ہم نے ٹھہرنا تھا اُس کا مالک نور خان 5 جیپیں لیے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے خطرناک پہاڑی سفر کے بعد ہم رات ساڑھے آٹھ بجے کالاش کے گاؤں بمبوریت پہنچے۔
تین گاؤں رومبور، بریر اوربمبوریت کو ملا کر وادیِ کالاش کا نام دیا گیا ہے۔ بمبوریت اِن میں سب سے بڑا گاؤں ہے۔ کالاش پاکستان کے ضلع چترال کی وادیِ کالاش میں ایک قبیلہ ہے۔ جنہیں کالاش کافر اور اس علاقے کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد شام میں نقل مکانی کرکے چترال کے اس علاقہ میں آئے۔ کالاش کی تہذیب تقریباً 4 ہزار سال پرانی ہے۔ اس لیے یہاں کے باسیوں کے بارے کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ فاروق کے مطابق کالاش لوگوں کے بارے دو نظریات اور بھی ہیں۔ پہلا یہ کہ کالاش قبیلہ افغانستان کے راستے سکندر اعظم کے ساتھ آیا اور یہاں آباد ہو گیا۔ کیونکہ افغانستان کا بارڈر یہاں سے صرف 12 کلو میٹر دور ہے اور لوگ پیدل آتے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ کالاش قبیلہ یونانیوں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور سکندر اعظم کے اس علاقے میں آنے سے پہلے ہی کالاش لوگ یہاں موجود تھے۔ اس کے برعکس ماہرین آثار قدیمہ کی جدید تحقیق کے مطابق کالاش کے لوگ آریائی نسل سے ہیں۔
رات آرام کے بعد اگلی صبح ہم نے 14 اگست کی چھوٹی سی تقریب اُسی ہوٹل میں منائی اور اپنے ٹور گائیڈ فاروق کو لے کر وادیِ کالاش دیکھنے نکل پڑے۔ فاروق اگرچہ کالاش میں ہی پیدا ہوا۔ لیکن مسلمان تھا اور اُسے 12 زبانیں آتی تھیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح کالاش میں آتے ہیں جن کے لیے فاروق گائیڈ کے طور پر کام کرتا ہے۔ بمبوریت گاؤں میں فاروق ہمیں سب سے پہلے اُس جگہ لے گیا جہاں کسی بھی مردے کو 2 دن تک رکھا جاتا ہے۔ پورا کالاش قبیلہ وہاں اکٹھا ہوتا ہے۔ اُس میں سے کچھ روتے ہیں، کچھ ڈھول بجاتے ہیں اور کچھ رقص کرتے ہیں۔ رقص کالاش قبیلے کی عبادت کا لازمی حصہ ہے۔ کوئی بزرگ فوت ہو جائے تو اُس کا بیٹا سارے قبیلے کے لیے دعوت کا اہتمام کرتا ہے۔ جس پر چار یا پانچ لاکھ خرچ آتا ہے۔ ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جب کوئی دنیا میں آتا ہے تو اُس کی خوشی منائی جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مر جائے تو اُسے بھی دھوم دھام سے رخصت کرنا چاہیے۔ لہذا کالاشی 2 دن تک جشن مناتے ہیں۔ اور دو دن بعد مردے کو ایک لکڑی کے تابوت میں لے جا کر قبرستان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اور جس چارپائی پر مردے کو قبرستان لایا جاتا ہے اُس چارپائی کو تابوت پر اُلٹا رکھ دیتے ہیں جہاں مردے کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں اُس کے ساتھ ہی قبرستان تھا۔ قبرستان پہنچے تو ہم نے جگہ جگہ لکڑی کے تابوت دیکھے جن پر چارپائیاں الٹی رکھی ہوئی تھیں۔ ایک تابوت بالکل نیا تھا۔ 20 دن پہلے کسی کالاشی کی موت ہوئی تھی۔ لیکن اکثر تابوت بہت پرانے تھے اور اُن تابوتوں میں انسانی ہڈیاں پڑی نظر آ رہی تھیں۔
14 اگست کے حوالے سے کالاش کے اس گاؤں کے سکول میں ایک تقریب بھی ہو رہی تھی۔ کالاشی بچے اور بچیاں اپنے مخصوص لباس میں وہاں موجود تھے۔ کالاش قبیلے کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بہادر آباؤاجداد کی یاد میں لکڑی کے مجسمے بنا کر ایک تقریب کے دوران گاؤں کے داخلی دروازے پر کھڑا کرتے ہوئے اُن کی یاد مناتے ہیں۔ اس روایت کا نام "کنڈورک" ہے۔ اور کنڈ ورک صرف مرد حضرات کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ فاروق نے ہمیں بتایا کہ کالاش قبیلے کی ایک پرانی روایت آج تک چلی آ رہی ہے کہ عورتوں کو ماہانہ مخصوص ایام میں گھر میں نہیں رکھا جاتا بلکہ انہیں گاؤں میں بنائی ایک الگ عمارت میں رہنا پڑتا ہے۔ اسی طرح بچے کی پیدائش کے وقت بھی عورتوں کو اِسی عمارت میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک حیران کُن بات جو فاروق نے بتائی وہ یہ تھی کہ پیدائش کے دوران اگر کسی عورت کا انتقال ہو جائے تو کالاش قبیلے کے لوگ اُس بچے کو قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ اُن کے خیال میں وہ بچہ منحوس ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران کوئی کالاشی اگر اُس عمارت کو ہاتھ بھی لگا دے تو اُسے بکرا ذبح کرنا پڑتا ہے۔
پہلے کا تو معلوم نہیں کہ وہ بچے کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے لیکن اب کالاش میں مسلم آبادی بھی کافی زیادہ ہو چکی ہے۔ اب اُس بچے کو جس کی ماں جنم دینے کے دوران فوت ہو جاتی ہے اُسے مسلمان اپنا لیتے ہیں اور اُسے مسلمان بنا لیا جاتا ہے۔ کالاش قبیلے کی آبادی کم ہونے کی وجہ یہ روایت بھی ہو سکتی ہے۔ زچگی کے دوران جو عورت فوت ہو جائے اُس کے مرد کے ساتھ کوئی عورت مزید شادی نہیں کرتی۔ کیونکہ اُس مرد کو بھی منحوس سمجھا جاتا ہے۔ آغاخان جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اُس سے بھی میں نے کالاش قبیلے کی آبادی کم ہونے کی وجہ پوچھی تھی۔ اُس کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہم لوگوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں ماری ہیں۔ کیونکہ ہمارے کچھ رسم و رواج بہت غلط ہیں۔ 2000ء کے بعد جب سے انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کالاش میں پہنچا۔ تب سے کالاش قبیلے میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بہت سے گھروں میں بچوں کو تعلیم دلوائی جا رہی ہے۔ مجھے اُس دیہات کے چند گھروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ آج کل اُن گھروں میں بچے اور بچیاں انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ استعمال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں تعلیم عام ہونے سے ان کی رسومات میں تبدیلی آ جائے۔ یونانی چونکہ اس قبیلے کو اپنی نسل مانتے ہیں اس لیے یونانی حکومت ہر بچے کی پیدائش پر اُس کا وظیفہ مقرر کردیتی ہے۔ بلکہ اُس بچے کو تعلیم و تربیت کے لیے سالانہ خرچ بھی دیتی ہے جو 2 لاکھ سے 12 لاکھ تک ہے۔
کالاش قبیلے کی زبان کالاشہ یا کالاشوار کہلاتی ہے۔ کالاش کے لوگ دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں۔ دو بڑے تہوار چلم جوشی اور چوموس کہلاتے ہیں۔ چوموس سب سے اہم اور بڑا تہوار ہے جو 14 دن تک جاری رہتا ہے۔ یہ تہوار دسمبر میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار اُن کی عبادت بھی ہے اور ثقافت بھی۔ اس تہوار میں کالاش کے لوگ اپنے رب کے لیے، اپنے مرئے ہوئے لوگوں، رشتہ داروں اور اپنے مال مویشیوں کے لیے عبادت کرتے ہیں۔ اس تہوار پر "جیسنوک" کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس رسم میں پانچ سے سات سال کے بچوں کو نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اس تہوار کے آخری تین دن مرد اور عورتیں شراب پیتے ہیں اور تین دن کی روپوشی کے بعد یہ لوگ اپنی جگہوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ جس کے بعد یہ لوگ ساری رات ایک جگہ جمع ہو کر رقص کرتے اور گیت گاتے ہیں اور یہ اُن کے سال کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس تہوار کے آخری روز "لویک بیک" کا تہوار ہوتا ہے۔ جس میں کالاش قبیلے کے مرد، عورتیں، بزرگ اور بچے نئے کپڑے پہن کر مل کر رقص کرتے ہیں۔ عورتیں اپنا مخصوص کالاشی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ جسے سنگچ کہتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نئے سال کا آغاز ہو جاتا ہے۔
کالاش قبیلے کا دوسرا بڑا تہوار "چِلم جوشی" ہے۔ جو سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار دراصل شکرانے کی ایک رسم ہے اور عبادت بھی۔ اِن لوگوں کے مطابق جب اِرد گرد سخت سردی، برف باری اور کٹھن حالات ہوں جس میں موت بھی واقع ہو سکتی ہے اس میں جب اللہ آپ کو بہار کا موسم دیکھنے کا موقع دیتا ہے تو شکرانے کے طور پر کالاشی یہ تہوار مناتے ہیں۔ اس تہوار پر بھی تین دن تک موسیقی، رقص اور لذیذ کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسی تہوار میں "گل پاریک" کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ جس میں گاؤں کے تمام زچہ و بچہ پر نوجوان دودھ چھڑکتا ہےاور خواتین اس نوجوان کو ہار پہناتی ہیں۔ اسی تہوار میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنا جیون ساتھی چنتے ہیں۔ اس تہوار کو دیکھنے کے لیے ملک سمیت بیرونی ممالک سے بھی سیاح شرکت کرتے ہیں۔ نئے جوڑوں کا گاؤں سے بھاگ جانا دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کالاش قبیلے میں لڑکی کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔۔ ہر لڑکی خود اپنا جیون ساتھی چنتی ہے۔ ماں باپ لڑکی کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔
فاروق ہمیں 3بجے بمبوریت گاؤں میں بنے ایک خوبصورت میوزیم میں لے گیا۔ اس میوزیم کی عمارت انتہائی شاندار تھی۔ جولکڑی اور پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔ اس میوزیم کو بنانے کے لیے ساری رقم یونانی حکومت نے دی تھی۔ اس میوزیم کی تعمیر 2002ء میں شروع ہوئی اور 2 سال کے قلیل عرصہ میں 2004ء میں مکمل ہو گئی۔ اس میوزیم میں کالاش قبیلے کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کو دیکھا گیا ہے۔ کالاش قبیلے کے زیر استعمال تمام اشیاء اس میں رکھی گئی ہیں۔
کالاش کے لوگوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ انتہائی ملنسار ہیں۔ وہ اتنے پُر سکون لوگ ہیں کہ کالاش تھانے میں اس وقت ایک بھی رپورٹ درج نہ تھی اور نہ ہی کوئی قیدی۔ کالاش میں سارا دن گزارنے کے بعد ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ کسی بھی بچے یا بچی کی جب بھی کوئی سیاح تصویر بناتا تو وہ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کے چہرے کو چھپا لیتے۔ فاروق سے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ یہاں آتے تھے اور یہاں کی لڑکیوں کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر کالاش قبیلے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہتے تھے۔ پہلے تو یہ لوگ کسی سیاح کو تصویر بنانے سے منع نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب سے یہاں انٹرنیٹ کی سہولت آئی اور انہیں معلوم ہوا کہ اُن کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ وہ پیسے لے کر تصویر بنواتے ہیں یا وہاں کی لڑکیاں غلط ہیں تو کالاش قبیلے نے اب اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی تصاویر بنانے سے منع کر دیا ہے۔ کالاش قبیلے کے ہر گاؤں میں پانچ قاضی ہوتے ہیں۔ قبیلے کے تمام مسائل اور مذہبی رسومات انہیں کے زیرِ انتظام ہوتی ہیں۔
ہمارے اس گروپ میں موٹیویشنل اسپیکر، مصنف اور ٹرینر جناب علی عباس بھی شامل تھے۔ انہوں نے اس میوزیم کے سر سبز احاطے میں گروپ کے تمام شرکاء کو مراقبہ کروایا۔ یہ واقعی ایک زبردست تجربہ تھا۔ 25 منٹوں کے اس مراقبے میں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم الگ ہی دنیا میں موجود ہیں۔ علی عباس صاحب نے خود سری لنکا میں 10 دن کے مراقبے کی ٹریننگ لے رکھی تھی۔ پاکستان سے باہر میں نے مختلف ممالک کے سیاحتی دورے گروپ کی شکل میں کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں یوں ایک الگ گروپ کی صورت میں میرا پہلا ٹور تھا۔ لیونچر ٹوئرزم کمپنی کے عثمان صاحب نے کالاش کے اس دورے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ 4دن کا یہ تفریحی دورہ ہر لحاظ سے انتہائی شاندار تھا۔ لذیذ کھانے، اچھی رہائش اور سفری سہولیات واقعی زبر دست تھیں۔ جب میں بھیرہ سے اس گروپ کے ساتھ شامل ہوا تو سب میرے لیے اجنبی تھے۔ لیکن 4 دن کی رفاقت نے ہم سب شرکاء کو ایک فیملی بنا دیا۔ بہت سے قابل اور مخلص دوست ملے۔ کوئی بھی واقعہ ہمارے ذہنوں میں ایک باب بن جاتا ہے۔ وادیِ کالاش کا یہ دورہ اور تمام دوست ذہن میں ہمیشہ ایک حسین یادوں کا باب رہے گا۔