Teen Haseen Ittefaq (2)
تین حسین اتفاق (2)
کیوائی کے بالکل ساتھ پہاڑ پر تقریباً 5 کلومیٹر اوپر "شوگراں" ہے۔ ہم شوگراں تقریباً 3 بجے پہنچ گئے۔ شوگراں سطح سمندر سے 7749 فٹ بلندی پر انتہائی دلفریب اور پُر فضا مقام ہے۔ شوگراں میں سیاحوں کے لیے کافی تعداد میں ہوٹلز موجود ہیں۔ اس مقام پر سیاح عام طور پر مئی سے اکتوبر کے درمیان آتے ہیں باقی چھ ماہ برف باری کی وجہ سے اکثر راستے بند رہتے ہیں۔ رات ہم نے شوگراں ہی رکنا تھا اور اگلی صبح ہمارا پروگرام "سری پائے" دیکھنے کا تھا۔
شوگراں کے فاریسٹ ایریا میں ہم نے تین گھنٹے گزارے۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھ کر وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب میدان میں بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو اس موسم اور نظاروں سے لطف اندوز ہوتے دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا حسین مقام ہے جہاں ہر چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی ہے۔ ہر بندہ اپنی تمام پریشانیاں، اپنے تمام مسائل یہاں آ کر بھول جاتا ہے۔ صحت، محبت، سکون، خوشی، تازگی اور خوبصورتی اس جگہ یہی سب کچھ تھا۔ دکھ، غم، پریشانیاں اور مسائل کس بلا کا نام ہے، یہاں ان پہاڑوں پر ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی شاید۔
جب مغرب کی اذان ہوئی اور وسیع میدان میں ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا تو پرندوں کی طرح تمام لوگ بھی اپنے اپنے گھروں یعنی ہوٹلوں کی طرف چل دیئے۔ ہم دوست بھی رات کا کھانا کھانے کے لیے ہوٹل آ گئے۔ ہوٹل میں زیادہ تر سیاح کھلی جگہ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور گپ شپ کرنے لگے۔ چند منٹوں بعد ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے ٹیبل کے قریب ہی ایک لڑکا جس کی عمر 25 سال کے قریب ہوگی گُم سُم تمام لوگوں سے بے خبر اُداس بیٹھا تھا۔ لڑکا پڑھا لکھا اور ماڈرن لگ رہا تھا۔
ہم نے کھانا شروع کیا تو جمشید نے اُسے کھانے کی آفر کی لیکن اُس نے کہا میں کھانا کھا چکا ہوں۔ ہم نے اُس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اُس نے کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا۔ ہم اُس کی مدد کرنا چاہتے تھے لیکن وہ خاموشی سے اُٹھا اور چلا گیا اور ہم اُس کی پریشانی کے بارے میں اپنے اپنے اندازے لگا کر سونے کے لیے ہوٹل آ گئے۔ اگلی صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد "شوگراں" سے "سری پائے" جانے کے لیے ہوٹل سے باہر آئے، جہاں اشفاق نے پہلے ہی جیپ کا اہتمام کر رکھا تھا۔
شوگراں سے اوپر پہاڑ پر 5 کلومیٹر آپ اپنی گاڑی نہیں لے جا سکتے۔ پتھریلا راستہ ہونے کی وجہ سے صرف جیپیں ہی "سری" اور "پائے" تک جاتی ہیں۔ پنجاب میں تو ہم سری پائے کھاتے ہیں لیکن یہ سری اور پائے کھانے والے نہیں بلکہ جگہوں کے نام ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق سری نام کی ایک ہندو لڑکی جو بالکل پریوں جیسی تھی، اُسے ایک ہندو لڑکے "پایہ" سے محبت ہوگئی۔ اُن کی محبت کا کیا بنا، شادی ہوئی یا نہیں؟ یہ تو نہیں معلوم لیکن اُن کے ناموں کی مناسبت سے یہ علاقے "سری" اور "پائے" کے نام سے مشہور ہو گئے۔
لیکن مصدقہ روایت کے مطابق پنجابی، ہندکو اور سرائیکی زبان میں"سر" سے مراد "جھیل" ہے اور "سری" سے مراد "چھوٹی جھیل"۔ "پائے" سے مراد وسیع و عریض سرسبز و شاداب میدان۔ لہٰذا یہ علاقہ چھوٹی جھیل اور سرسبز و شاداب وسیع میدان کی بدولت "سری پائے" کہلاتا ہے۔ جیپ کے ڈرائیور سجاد نے ہمیں بتایا کہ پہاڑ کے اوپر "سیری" نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ وہ سیری لفظ بگڑ کر اب سری بن چکا ہے۔ ان علاقوں کے نام کچھ بھی ہوتے لیکن یہ خوبصورتی تو ایسے ہی ہونی تھی جیسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
شوگراں سے 3 کلومیٹر اوپر پہاڑ پر پہلے سری نام کا مقام آتا ہے۔ جہاں چھوٹی سی جھیل موجود ہے اور سری سے اوپر 2 کلومیٹر پہاڑ کی چوٹی پر پائے نام کا مقام ہے۔ اس جگہ کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ایک پل کے لیے بادل آ جائیں تو کچھ نظر نہیں آتا اور اگلے لمحے دھوپ نکل آئے تو دور تک وسیع و عریض سبزہ اور نیچے بلند و بالا درخت اور اُن درختوں کے اوپر بادل دکھائی دیتے ہیں۔
اس خوبصورت نظارے کو دیکھ کر زبان سے سبحان اللہ نکلا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ جس نے مجھے اپنی خوبصورت زمین سے اتنی خوبصورت جگہ دیکھنا نصیب کیا۔ اُس لمحے میں نے اشفاق کو کہا کہ آج سے سو سال پہلے جب ان علاقوں تک پہنچنے کے لیے یہ رستے نہیں بنے ہوں گے تو لوگوں کی ان علاقوں تک رسائی بھی ممکن نہیں تھی۔
اور یہاں کے لوگوں نے یہاں سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہوگی اور نہ باہر کے لوگ یہاں تک پہنچ پاتے ہوں گے۔ لیکن ہم کتنے خوش نصیب کہ ہم اس دور میں زندہ ہیں جب ہم اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کو بہت دور دور جا کر گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اُن مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں جہاں آج سے 45 یا 50 سال پہلے لوگوں کے لیے پہنچنا ممکن ہی نہ تھا۔
شکر گزاری کے احساس کے ساتھ ہم نیچے شوگراں کی طرف چل دیئے۔ یہ پتھریلا راستہ اتنا دشوار گزار ہے کہ پہاڑ پر جاتے ہوئے جسم کی جو ہڈیوں اور پسلیوں میں جوڑ ہلنا بچ گئے تھے وہ کسر واپسی پر پوری ہوگئی۔ اس یادگار سفر کے بعد ہم شوگراں سے واپس گھر کے لیے تقریباً 1 بجے نکلے اور شام سات بجے بلکسر انٹر چینج سے اتر کر شہریار ریسٹورنٹ پر رات کا کھانا کھانے کے لیے رُکے۔ وہاں بھی شام کے وقت موسم انتہائی خوشگوار اور کھانا بھی اچھا تھا۔
جونہی ہم کھانا کھانے کے بعد ہوٹل سے نکلنے لگے تو سامنے ہمیں وہی لڑکا نظر آیا جو گزشتہ رات شوگراں کے ہوٹل میں ہمارے ٹیبل کے ساتھ اُداس بیٹھا تھا۔ یہ حسین اتفاق تھا کہ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں کوئی اجنبی آپ کو ایک شام شوگراں کے ہوٹل میں ملے جسے آپ جانتے تک نہ ہوں کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔ اور اگلی شام اُسی بندے سے آپ کی ملاقات کسی دوسرے صوبے میں بہت دور کسی ہوٹل میں ہو جائے۔
خیر اس بار اُس نے مسکراہٹ اور حیرت کے ساتھ ہمارے ساتھ ہاتھ ملایا اور بتایا کہ ہم 50 لوگ ایک ہی کمپنی میں لاہور کام کرتے ہیں۔ اور میں ان 50 لوگوں کے ساتھ ناران اور شوگراں کی سیاحت کے لیے آیا ہوا تھا۔ ہم لوگ واپس لاہور جا رہے ہیں اور یہاں شام کے کھانے کے لیے رُکے ہیں۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ شب میری پریشانی کی وجہ میرے پاس پیسوں کا نہ ہونا تھا جبکہ شوگراں میں کوئی اے ٹی ایم مشین بھی نہ تھی۔ خیر وجہ کوئی بھی تھی ہم نے اُس کی اس بات پر یقین کر لیا۔
اُس لڑکے کا نام احسن تھا اور احسن کا ہمیں یوں دو علاقوں میں لگاتار دو شاموں میں ملنا بھی محض ایک اتفاق تھا۔ 9 بجے ہم اس ہوٹل سے واپس گھر کے لیے نکلے اور ہم تین دوست ان تین دنوں میں ان تین حسین اتفاقات کے بارے میں بات کرنے لگے۔ ناران میں اپنے بچپن کے دوست کا یوں اچانک ملنا، دوسرے دن اشفاق صاحب کے بھائی کا ناران ہوٹل کے قریب فون کر کے اچانک ملنا اور تیسرا احسن سے یوں دو شاموں میں دو لگاتار ملاقاتیں۔ تین دنوں کے ان تین حسین اتفاقات اور بہت سی حسین یادوں کے ساتھ ہم رات 11 بجے اپنے اپنے گھر تھے۔
ختم شد۔