Teen Haseen Ittefaq (1)
تین حسین اتفاق (1)
آج اس واقعے کی وجہ سے ناران میں کروڑوں کا نقصان ہوگیا ہے۔ صاحب، یہاں آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں، جب اُن کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں مقامی لوگوں اور انتظامیہ کے درمیان ناجائز تجاوزات کے معاملے پر فائرنگ ہوئی اور ڈی ایس پی کو گولی بھی لگی تو ان حالات میں یہاں کون آئے گا؟
میں اُس کی باتیں غور سے سُن رہا تھا۔ "صابر لالہ" بولا، ناران میں ہزاروں کی تعداد میں جیپیں ہیں جو سیاحوں کو اُن سیاحتی مقامات پر لے کر جاتی ہیں جہاں کوئی اور گاڑی نہیں جا سکتی اور آج کے دن ان جیپ والوں کا لاکھوں کا نقصان ہوگیا۔ صابر لالہ ناران کی جیپ ایسوسی ایشن کا صدر تھا اور اس فائرنگ کے واقعے کی وجہ سے پریشان تھا۔
جونہی ہم بالاکوٹ سے نکلے تو اشفاق نے مجھے بتایا کہ ملک عبدالرؤف بھی آج کل اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے ناران میں ہی ہیں۔ فون پر اُن سے رابطہ ہوا، انہوں نے مجھے ناران میں ہونے والے آج کے واقعے کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ لوگوں نے کہیں اور نہیں جانا میرے پاس ہی آنا ہے۔ ملک صاحب کا حکم تھا اس لیے ہم شام سات بجے اُن کی بتائی ہوئی مقررہ جگہ پر پہنچے جہاں وہ پہلے سے ہی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
برسوں بعد ملک صاحب سے یوں اچانک ملاقات اس سفر کا پہلا حسین اتفاق تھا۔ ملک صاحب اور میں صرف کلاس فیلو ہی نہیں بلکہ ٹاٹ فیلو بھی تھے۔ چھٹی جماعت سے ایف ایس سی تک ہم اکھٹے پڑھے اور کھیلے۔ کلاس فیلو کا رشتہ دنیا کے باقی تمام رشتوں سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ اور اگر کلاس فیلوز محلہ فیلوز بھی ہوں تو یہ سونے پہ سوہاگہ والی بات ہوتی ہے۔
ملک صاحب آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ صابر لالہ سے بھی میری ملاقات، ملک صاحب کے ساتھ ہی رات کے کھانے پر ہی ہوئی تھی۔ ہمارا ارادہ تو یہ تھا کہ تھوڑی دیر ان کے پاس رکیں گے اور پھر اپنے پروگرام کے مطابق ناران سے آگے نکلیں گے۔ لیکن اُن کے اصرار اور محبت نے ہمیں کہیں اور نہ جانے دیا۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد ہم ناران سے بابو سرٹاپ کی طرف چل دیئے۔ پچھلے سال میں چترال اور وادی کالاش گیا تھا لیکن "اپر دِیر" سے آگے سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی لیکن ناران کی طرف جاتے ہوئے اسلام آباد سے ہزارہ موٹروے، مانسہرہ، بالاکوٹ، ناران اور آگے بابو سرٹاپ تک انتہائی بہترین سڑک تھی۔ جونہی ہم ناران سے بابو سرٹاپ کی طرف نکلے تو یوں لگا کہ جیسے ہم سویٹزرلینڈ میں ہوں۔ دائیں اور بائیں بلند و بالا سرسبز و شاداب بلند پہاڑ ان پہاڑوں کے ساتھ ساتھ خوبصورت سڑک اور سڑک کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کے دامن میں خوبصورت دریا، یہ نظارہ انتہائی دلکش تھا۔
میں نے پاکستان اور بیرون ملک جن جن جگہوں کو بھی دیکھا ان میں کہیں بھی اتنا خوبصورت علاقہ نہیں تھا۔ ویسے تو ہر حسین منظر آگے بڑھنے سے روکتا رہا لیکن جونہی ہم "لولو سر جھیل" کے قریب پہنچے تو اُس جھیل کے حُسن نے ہمارے پاؤں میں جیسے بیڑیاں سی ڈال دیں۔ ہم نے گاڑی کو جھیل کے قریب روکا اور خوبصورت جھیل کے نیلے اور شفاف پانی کو دیکھنے لگے اور زبان سے صرف ایک لفظ ہی نکلا سبحان اللہ!
اتنی خوبصورت جھیل دیکھ کر میں نے اشفاق اور جمشید کو کہا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جھیل سیف الملوک پر پریاں آتی ہیں یا نہیں لیکن یقین جانو اس خوبصورت جھیل پر ضرور آتی ہوں گی۔ میں تھوڑی دیر کے لیے جھیل کے کنارے بیٹھ گیا جہاں ہر طرف خاموشی تھی۔ پہاڑوں کے درمیان اس خوبصورت جھیل کے نیلے پانی پر سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے پانی میں تارے ٹمٹما رہے ہوں۔ میں اس منظر کے سحر میں گم ہوگیا۔
آج کے دن ہماری منزل چونکہ "بابو سرٹاپ" تھی۔ لہٰذا ہم تھوڑی دیر رکنے کے بعد آگے چل پڑے۔ بابو سرٹاپ کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 13700 فٹ ہے۔ دن ایک بجے ہم جونہی بابو سرٹاپ پہنچے تو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ 9 جولائی کو چونکہ جمعہ کا دن تھا اس لیے ہم تینوں نماز جمعہ کے لیے پہاڑ کی چوٹی پر بنی چھوٹی سی مسجد کی طرف چل پڑے۔ ایک بڑے کنٹینر میں وضو کے لیے پانی موجود تھا۔
اُس ٹھنڈے یخ پانی سے کانپتے جسم کے ساتھ وضو کرنا بھی یادگار لمحہ تھا۔ 13700 فٹ بلند پہاڑ پر جمعہ کی نماز ادا کی اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہاں اتنی بلندی پر آ کر نماز پڑھنے کی توفیق دی۔ نماز پڑھنے کے بعد ہم پہاڑ پر مزید بلندی پر چلے گئے۔ اس ٹھنڈی ہوا میں آکسیجن کی کمی تھی اور سانس بار بار پھول رہا تھا لیکن ہم بابو سرٹاپ کے ٹاپ پر جانا چاہتے تھے۔ لیکن ایک خاص بلندی تک پہنچ کر ہم تینوں کی ہمت جواب دے گئی۔
اس بلند مقام پر ہم نے ارد گرد کے پہاڑوں کے مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا اور کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد ہم ایک چائے خانہ میں آ گئے۔ ایک دوست نے سگریٹ کے لیے اپنے لائٹر سے آگ جلانے کی بہت کوشش کی لیکن آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اُس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ریفریشمنٹ کے بعد ہم تینوں بابو سرٹاپ سے واپس ناران کی طرف چل نکلے۔ واپسی کے سفر میں بھی "لولو سر جھیل" نے ہمیں آگے نہ بڑھنے دیا۔ کچھ دیر ہم جھیل کے کنارے رُکے۔
ناران اور بابو سرٹاپ کے درمیان مختلف جگہوں پر جہاں دریا کا پانی چھوٹے چھوٹے پتھروں سے گزرتا ہے وہاں چھوٹے چھوٹے ریسٹورینٹ اور چائے خانے بنے ہیں اور اس بہتے پانی کے اوپر چارپائیاں رکھی گئی ہیں۔ ایک ریسٹورنٹ میں ہم نے دن کا کھانا اُن چارپائیوں پر بیٹھ کر ہی کھایا۔ ناران سے تقریباً دس کلومیٹر کی دوری پر راستے میں سیاح "رافٹنگ" کر رہے تھے۔ جمشید اور اشفاق نے مجھے رافٹنگ کے لیے کہا لیکن مجھ میں"رافٹنگ" کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔
"رافٹنگ" کے لیے ایک کشتی میں کم از کم چھ بندوں کا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اُن بے چاروں کو بھی اپنے ساتھ اور چار بندے نہ مل سکے کیونکہ یہاں اکثر سیاح اپنے اپنے گروپ کے ساتھ رافٹنگ کر رہے تھے۔ تیس منٹ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم ناران اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ جمعہ کی رات تھی، اکثر "ویک اینڈ" پر ناران میں سیاحوں کا کافی رش ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ روز فائرنگ کے واقعے کی وجہ سے بازار میں رش معمول سے انتہائی کم تھا۔
اگلی صبح جونہی ہم ناشتے کے بعد ہوٹل سے نکلنے لگے تو میں نے اشفاق صاحب کے ساتھ اُن کے بھائی وقاص کو دیکھا جو اسلام آباد میں کام کرتے ہیں۔ اشفاق صاحب نے بتایا کہ وقاص نے مجھے ابھی فون کیا کہ میں ناران آیا ہوا ہوں۔ جس پر اشفاق نے اُسے بتایا کہ میں بھی ناران ہی ہوں۔ جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اتفاقاً اُسی ہوٹل کے سامنے وقاص بھی کھڑا تھا۔ یوں وقاص سے ہماری ناران میں یہ ملاقات بھی محض ایک اتفاق تھا۔ ملک صاحب سے ہم نے اجازت لی اور سنہری یادوں کے ساتھ ہم ناران سے "شوگراں" کی طرف چل دیئے۔ بالاکوٹ سے 29 کلومیٹر دور "کیوائی" ایک خوبصورت مقام ہے یہاں اکثر سیاح کچھ دیر کے لیے رُکتے ہیں۔
جاری۔۔