Sultan Suleiman Ke Maqbare Se Masjid Al Fateh Tak (1)
سلطان سلیمان کے مقبرے سے مسجد الفاتح تک (1)
جب مسجد کا بڑا حال تعمیر ہو رہا تھا تو اس مسجد کو تعمیر کرنے والا ٹھیکیدار جس کا نام "سنن" تھا وہ اپنا حقہ اٹھا کر لے آتا اور ہال کے عین درمیان میں بیٹھ کر پینے لگتا۔ مزدوروں میں سے کسی نے جرات کر کے یہ بات سلطان تک پہنچائی کہ "سنن" مسجد کے ہال میں بیٹھ کر حقہ گڑ گڑاتا ہے۔ سلطان نے اس ٹھیکیدار کو طلب کر لیا اور اس سے پوچھا کہ کیا تم نے واقعی ایسا کیا؟ وہ گھبرا گیا۔
اب اس کے پاس اور کوئی بہانہ تو تھا نہیں، بولا کہ اے سلطان میں حقہ دراصل اس لیے گڑگڑاتا ہوں، تاکہ مجھے معلوم ہو سکے کہ اتنی کم آواز بھی مسجد کے ہر کونے تک پہنچ سکے گی۔ سلطان مسکرایا اور اسے آئندہ کے لئے منع کر دیا اور کہا کہ بے شک ابھی مسجد مکمل تعمیر نہیں ہوئی لیکن تم پھر بھی آئندہ مسجد کے ہال میں بیٹھ کر حقہ نہیں پیو گے۔
اس مسجد کے بارے میں یہ روایت مجھے محسود نے اس وقت سنائی جب ہم ترکی کی ایک انتہائی شاندار مسجد "سلیمانیہ" جو سلطان سلیمان نے بنوائی تھی، کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ محسود ترک تھا جو پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر تھا۔ ہمارے ایک دوست سرفراز جو اشفاق صاحب کے بھائی ہیں، کچھ عرصہ یہاں ترکی میں رہے۔ محسود سے ان کی دوستی ہو گئی۔
سرفراز کا حکم تھا کہ آپ نے استنبول میں محسود سے ضرور ملاقات کرنی ہے، یہ استنبول میں ہمارا تیسرا دن تھا جب ہمارا محسود سے رابطہ ہوا، اگلے دن گیارہ بجے محسود اپنی گاڑی لے کر "سلطان احمد" پہنچ گیا، جہاں ہم نے ہوٹل کرائے پر لے رکھا تھا۔ محسود انتہائی خوش اخلاق شخص تھا، اس سے مل کر یوں لگا جیسے ہم بہت عرصہ سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
عام ترکوں کے برعکس محسود اچھی انگریزی جانتا تھا، اشفاق اور مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ کم از کم دو تین دن کے بعد ہمیں کوئی ایسا بندہ تو ملا جو انگریزی جانتا تھا۔ محسود نے سامان گاڑی میں رکھا اور ہم وہاں سے نکل پڑے، محسود بولا کہ میں آج کا سارا دن آپ لوگوں کے لیے فری ہوں، آپ بتائیں آپ استنبول میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟
پہلے تین دنوں میں ہم استنبول کے تقریباََ تمام اہم مقامات آیا صوفیہ، نیلی مسجد، سلطان محمد فاتح کا مقبرہ، پرنسز آئی لینڈ اور گلاٹا ٹاور دیکھ چکے تھے اور کروز ڈنر بھی کر چکے تھے، اس لئے ہم نے محسود کو کہا کہ آپ ہمیں ان مقامات کے بجائے کچھ اور تاریخی جگہ دکھائیں، ہماری بات مکمل ہوئی تو محسود نے اپنی گاڑی "مسجد سلیمانیہ" کی طرف موڑ دی۔ مسجد سلیمانیہ ترکی کی 7 بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے، جو سلطان سلیمان نے بنوائی تھی۔
یہ مسجد 63 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے اور اس کی تعمیر تقریباََ سات سال میں مکمل ہوئی، اس مسجد کے گنبد کا قطر 27 سے 25 میٹر ہے اور اس کی بلندی 48 سے 5 میٹر ہے۔ اس وقت اس مسجد کی تعمیر پر سات لاکھ سکے خرچ ہوئے۔ "سلطان سلیمان" اپنے عدل کی وجہ سے تاریخ میں القانونی کے نام سے مشہور ہوا، سلطان سلیمان کے بارے میں بھی شاید ہم اتنا نہ جان پاتے اگر ترک ڈرامہ "حورم سلطان" پاکستان میں اردو ڈبنگ کے ساتھ نہ دیکھایا جاتا۔
اس ڈرامہ کی وجہ سے سلطان سلیمان کے نام سے یقیناََ ہم اکثر پاکستانی واقف ہیں، وہ الگ بات ہے کہ اس ڈرامے میں سلطان سلیمان کے کردار کو جس طرح دکھایا گیا ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، کیونکہ سلطان سلیمان تو وہ سلطان تھا جس کا زیادہ تر وقت گھوڑے کی پیٹھ پر گزرا۔ جس کی بدولت سلطنت عثمانیہ دور دراز کے علاقوں تک پھیل گئی، لیکن اس ڈرامہ میں سلطان سلیمان کو زیادہ تر حرم کی سازشوں کا شکار ہی دکھایا گیا۔
مسجد سلیمانیہ کا اندرونی حال "آیاصوفیہ" مسجد سے ملتا جلتا ہے، مسجد کے ہال میں ایک بہت بڑا فانوس لٹک رہا تھا، اس فانوس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بہت سارے شتر مرغ کے انڈے بڑی خوبصورتی سے رکھے گئے ہیں، جو چھوٹے چھوٹے گلوپ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں موجود گائیڈ نے بتایا یہ شتر مرغ کے انڈے فانوس میں اس لیے رکھے جاتے تھے کہ ان کی خوشبو سے کوئی مکڑی مسجد میں داخل ہو کر جالا نہیں بناتی تھی اور ان انڈوں کے لیکوڈ کو دیواریں بنانے کے لئے مصالے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
مسجد سلیمانیہ میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم مسجد سے ملحقہ احاطے میں آ گئے، جہاں سے گہرا نیلا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ مسجد کے بالکل ساتھ ہی سلطان سلیمان کا مقبرہ ہے، محسود ہمیں مقبرہ پر لے آیا، سلطان سلیمان نے جس شان و شوکت سے حکمرانی کی اس کا مقبرہ بھی اتنا ہی شاندار بنایا گیا ہے۔ سلطان سلیمان نے 46 سال "سلطنت عثمانیہ" کے سلطان کی حیثیت سے حکمرانی کی اور چھ ستمبر 1566ء کو وفات پائی۔
حورم سلطان اور سلطان سلیمان کی محبت کو ترک ڈرامہ "میرا سلطان"میں تو بڑی خوبصورتی سے دکھایا ہی گیا ہے لیکن مرنے کے بعد بھی حورم سلطان نے سلطان سلیمان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ سلطان سلیمان کی وفات کے صرف دو سال بعد ہی حورم سلطان بھی 1558ء میں فوت ہو گئ اور اس کا مقبرہ بھی سلطان سلیمان کے مقبرے کے ساتھ دائیں جانب بنایا گیا۔ ان دونوں مقبروں کے ارد گرد قبرستان ہے، یہ قبرستان کم، پارک زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
ہر قبر سفید سنگ مرمر سے بنی ہے اور ان قبروں کے لمبے لمبے کتبوں پر قرآنی آیات خوبصورتی سے لکھی گئی ہیں اور رنگ برنگے پھول ہر طرف قبرستان میں کھلے ہوئے ہیں۔ ان تاریخی مقامات کو دیکھنے کے بعد محسود ہمیں مسجد الفاتح کے قریب سڑک کنارے ایک کافی شاپ پر لے آیا، اس نے کافی کا آرڈر دیا اور اس دوران ہم نے اناطولیہ جانے کے لئے آن لائن بس ٹکٹس کی بکنگ بھی کروا لی، کیونکہ رات ہم نے استنبول سے اناطولیہ کے لیے نکلنا تھا۔
ترک ویٹرس جس کی عمر 20، 21 سال کے لگ بھگ ہو گی، ٹرے میں کافی لائی اور ہمارے سامنے میز پر رکھ دی۔ میں نے محسود سے پوچھا کہ مارکیٹ میں، میں نے زیادہ تر دکانوں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی کام کرتے دیکھے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ محسود بولا ترکی میں جب کسی لڑکے یا لڑکی کی عمر اٹھارہ سال ہو جائے، تو وہ گھر میں فارغ نہیں بیٹھتا، وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی کام ضرور کرتا ہے، اس طرح معاشی اعتبار سے ہماری زندگیوں میں بھی آسانی آتی ہے اور ہمارے ملک کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
میں نے کافی کا لمبا گھونٹ لیا اور محسود کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں تو گھر میں سے کوئی ایک بندہ یورپ، امریکا یا کہیں بھی بیرون ملک ہونا کافی ہوتا ہے، باقی آرام فرماتے ہیں۔ باقی گھر والوں سے پوچھا جاۓ کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ ان کا جواب ہوتا ہے کہ میرا والد یا بھائی بیرون ملک ہوتا ہے، مجھے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
ایک ترقی یافتہ اور ہم جیسے ترقی پذیر ملک میں بس یہی فرق ہے، وہاں سب کماتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اکثر گھر کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر ہی ہوتی ہے۔ ہم لوگوں اور ان میں بس یہی فرق ہے، سوچ اور عمل کا فرق۔ خیر ہم نے کافی پی اور مسجد الفاتح کی طرف چل دیے۔ مسجد کافی بلندی پر بنائی گئی ہے۔ وضو خانہ بیسمنٹ میں تھا، وضو کرنے کے بعد ہم جوں جوں ایلیویٹر کے ذریعے اوپر آ رہے تھے، خوبصورت الفاتح مسجد اور اس کے میناروں کے اوپر ہلکے ہلکے نیلے آسمان کے نیچے، سفید بادل ہوا کے ساتھ ساتھ چلتے دکھائی دے رہے تھے۔
جون کا مہینہ تھا لیکن اس کے باوجود ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے دھوپ کی حدت نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپ ﷺ نے بشارت فرمائی تھی کہ "جو امیر قسطنطنیہ کو فتح کرے گا وہ بہترین امیر ہو گا اور وہ لشکر عظیم لشکر ہو گا" یہ مسجد الفاتح اسی عظیم انسان "سلطان محمد فاتح" نے بنوائی تھی، جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا۔
یہ مسجد 1463ء میں بننا شروع ہوئی اور سات سال کے عرصہ میں 1470ء میں مکمل ہوئی۔ اس مسجد کے ساتھ اس وقت ایک بڑا مدرسہ، ہسپتال اور ایک مہمان خانہ بھی بنوایا گیا تھا۔ جونہی ہم مسجد میں اندر داخل ہونے لگے تو محسود نے میرا ہاتھ پکڑا اور دروازے کے ساتھ، بیرونی دیوار پر بنے نقشے کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ (جاری ہے)