Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Shahzad Tanveer Jaise Dost

Shahzad Tanveer Jaise Dost

شہزاد تنویر جیسے دوست

کچھ عرصہ قبل میرے ایک کلاس فیلو شہزاد تنویر نے (جو آج کل کینیڈا میں سیٹل ہے) ایک واٹس ایپ گروپ بنایا، جس میں اس نے چند ان دوستوں کو شامل کیا جو مڈل سے ہائی سکول تک اکٹھے پڑھتے رہے اور 1992ء میں میٹرک کیا۔ ویسے تو ہر سال جب بھی وہ کینیڈا سے کچھ دنوں کے لیے پاکستان آتا تو اپنے چند دوستوں کو ضرور اکٹھا کرتا لیکن اس واٹس ایپ گروپ کی وجہ سے بہت سے پرانے دوست بھی ایک دوسرے کے رابطے میں آ گئے۔

اس گروپ کی وجہ سے کئی دوستوں سے میری ملاقات تیس سال بعد ہوئی۔ ان دوستوں میں کوئی بیرون ملک سیٹل ہو گئے، تو کچھ گورنمنٹ کے شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز۔ کچھ دوست تو گورنمنٹ کی نوکری کر کے ریٹائرڈ بھی ہو گئے اور کئی مختلف قسم کے کاروبار سے وابستہ ہیں لیکن جونہی ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ ہوا تو یوں لگا جیسے ہم واپس تیس، بتیس سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ بظاہر تو وہ سارے دوست اب 40، 45 سال کے لگ بھگ تھے لیکن پتہ نہیں کیوں میری آنکھوں کے سامنے بار بار ان کا وہی چہرہ دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ ساتویں، آٹھویں یا نویں، دسویں جماعت میں تھے۔

مجھے وہ دوست کبھی کلاس میں اپنے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھے دکھائی دیتے تو کبھی گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے، کبھی تمام ٹیچرز کے پڑھانے کے انداز ذہن میں آ رہے تھے تو کبھی اسکول بریک میں اکٹھے ظہر کی باجماعت نماز پڑھتے، کبھی ایک دوسرے سے خوشخط تختی لکھنے کا مقابلہ ذہن میں آ جاتا تو کبھی صبح کی اسمبلی میں"لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" دعا پڑھنا اور کبھی اپنے استادوں سے مولا بخش (چھڑی) سے تو تواضع کروانے کا سارا منظر۔

جو لوگ 45، 50 سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں انہیں خوب اندازہ ہوگا کہ بچپن کے دوست اور کلاس فیلوز جب اتنے عرصے بعد ملیں تو خوشی کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ میں بھی دیر تک اسی کیفیت سے سرشار رہا اور سوچنے لگا کہ آخر اس خوشی کی اصل وجہ کیا ہوتی ہے؟ ہماری زندگی کے تین حصے ہوتے ہیں اور ہم عمر بھر انہیں تین حصوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔

پہلا حصہ ہماری پیشہ وارانہ زندگی (Professional life) پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ہم رسمی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تعلیم بھی ایسی کہ جس میں ہمیں دلچسبی ہو یا نہ ہو وہ لینا ہی پڑتی ہے اور پھر ہم جو تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کے مطابق ہمیں نوکری نہیں ملتی اور ہم کسی ایسے شعبے میں چلے جاتے ہیں جس میں ہمیں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہوتی، پھر ہم نوکری میں ترقی کرنے کے لئے مختلف سکلز سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی سفارشی ہم پر افسر لگ جاتا ہے اور پوری زندگی اچھی سے اچھی نوکری کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔

ہماری زندگی کا دوسرا حصہ ہماری فیملی لائف (Family life) ہوتی ہے، پہلے شادی پھر بچے پھر بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے لیے اچھے سے اچھے اسکول اور کالج کا انتخاب کیا جائے، پھر ہم دن رات اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے دوسروں سے نمایاں ہوں اور آنے والی زندگی میں کامیاب انسان بنیں، یقیناََ یہ ضروری بھی ہے اور فطری خواہش بھی۔ اس کے بعد ہماری خواہش ہوتی ہے ہمارے پاس اچھا سا گھر ہو، گاڑی ہو، آسائش کی ہر چیز ہو، پھر بچوں کی شادیاں وغیرہ۔

جبکہ زندگی کا تیسرا حصہ پرسنل لائف (Personal life) پر مشتمل ہوتا ہے، درحقیقت یہی ہماری اصل زندگی ہوتی ہے، ہم جب 50، 60 سال کی عمر تک پہنچتے ہیں تو سوچتے ہیں ہم نے اپنی ذات کے لیےکیا کیا؟ کیا ہم نے اپنی صحت کا خیال رکھا؟ 40، 45 سال کی عمر تک پہنچنے تک کئی لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں سب سے اہم تو یہ تھا ہم اپنی صحت کا خیال رکھتے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہیں۔

زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے ہم اپنی صحت کا خیال تک نہیں رکھتے، اس وقت خیال آتا ہے کہ میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا صحت ہے تو زندگی ہے، صحت ہے تو تب ہی میں اپنی اور اپنے بچوں کی کامیابیوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔ انسان جب زندگی کے اس تیسرے حصے میں پہنچتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ میں نے اپنا بہت سارا وقت پہلے دو حصوں پر ضائع کر دیا، میں تو بہت ساری کتابیں پڑھنا چاہتا تھا، دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا، سفر کرنا چاہتا تھا کسی اچھے تعلیمی ادارے سے وہ ڈگری لینا چاہتا تھا جو زندگی میں میرے کام بھی آتی۔

بعض اوقات یہ ساری باتیں سوچ کر انسان ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اس ڈپریشن کا علاج آپ کے وہ بچپن کے دوست اور ان سے جڑی یادیں ہی ہوتی ہیں۔ جس طرح ہماری زندگی تین حصوں پر مشتمل ہوتی ہے اسی طرح ہماری عمر بھی تین اقسام کی ہوتی ہیں۔ پہلی قسم کرونولوجیکل ایج (Chronological age) ہے جو نمبر کے حساب سے ہوتی ہے، یعنی ہماری پیدائش سے لے کر موت کی مدت تک کرونولوجیکل ایج کہلاتی ہے۔

دوسری ہماری فزیکل ایج (Physical Age) ہوتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق اگر انسان کے تمام اعضاء ٹھیک کام کرتے رہیں تو وہ 145 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ جیسے ہماری آنکھ، بال، گردے، دل وغیرہ۔ یہ سب اعضاء 145 سال تک ٹھیک کام کرتے رہتے ہیں۔ سری لنکا میں اکثر لوگ مرنے سے پہلے اپنی آنکھیں عطیہ کر دیتے ہیں، اس لئے کہ یہ مرنے کے بعد بھی بالکل ٹھیک کام کرتی رہتی ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق انسانی دانت دو کروڑ سال تک ٹھیک رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی سے پرانی کھوپڑیوں میں بھی دانت بالکل ٹھیک نظر آتے ہیں۔

ہماری عمر کی تیسری قسم سائیکالوجیکل ایج (Physiological age) ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگ بوڑھے ہو بھی جائیں ان کا رویہ بوڑھوں جیسا نہیں ہوتا، وہ جوانوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ہر اس ایکٹیویٹی سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس سے اس عمر کے لوگ پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو بوڑھا محسوس ہی نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح کچھ بچے نوجوانی کی عمر میں ہی بڑی عمر لوگوں کی طرح سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔

دراصل ہم عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، ہم جب نفسیاتی طور پر خود کو کسی خاص عمر پر فکس لیں تو پھر ہم اسی عمر کے حساب سے زندگی گزارتے ہیں۔ اگر ایک 70 سالہ شخص اپنے آپ کو چالیس سال کا محسوس کرتا ہے تو اس کی ساری ایکٹیویٹیز چالیس سال کے مطابق ہوں گی۔ انسان جب اپنی پیشہ وارانہ اور خاندانی زندگی سے آگے بڑھ کر پرسنل لائف پر آتا ہے تو پھر وہ اپنی خوشی کو ڈھونڈتا ہے اور اس خوشی کی جڑیں کہیں نہ کہیں اس کے ماضی کی یادوں، اس کے بچپن کے دوستوں اور ان رشتوں سے جڑی ہوتی ہیں جن کا اس کی زندگی میں اہم کردار ہوتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہوتی ہے کہ ہم 30، 40 سال گزر جانے کے بعد بھی بچپن کے دوستوں اور کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر بے انتہا خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کے 45، 50 سال کی عمر تک پہنچ کر بھی بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی ذات کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے ورنہ زیادہ تر لوگ تو اس وقت بھی کولہو کے بیل کی طرح بڑھاپے میں بھی پیسہ کمانے میں لگے رہتے ہیں اور کبھی اس چکر سے نہیں نکل پاتے۔

گزشتہ ہفتے ہم چند دوست اپنے ایک کلاس فیلو عاطف بٹ کی دعوت پر ان کے گھر گئے، تو وہاں ہمارے ایک مشترکہ دوست ملک اصغر نے کہا کہ ہم کئی دوست ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی اتنے عرصے تک ایک دوسرے کو نہ مل سکے، بھلا ہو شہزاد تنویر کا جس نے ہم سب کو اکٹھا کر دیا، اس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ یقیناََ دوستوں کے ہر گروپ میں کوئی نہ کوئی ایک شہزاد تنویر ضرور ہونا چاہیے، جو سب کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ ہم جب اپنے پرانے دوستوں اور کلاس فیلوز سے ملتے ہیں تو پھر ہم میں کوئی "صاحب" نہیں ہوتا، ہم وہی بچپن کے طیفے، ماجھے اور گامے ہوتے ہیں۔

ہم زندگی میں جب ترقی کر جاتے ہیں تو ہماری زندگیوں میں کہیں نہ کہیں مصنوعی پن آ جاتا ہے۔ ہم ہر کسی سے ایک رکھ، رکھاؤ کے ساتھ ملتے ہیں لیکن جب ہمیں کوئی پرانا دوست اچانک سالوں بعد مل جائے تو ہم میں وہی بے تکلفی لوٹ آتی ہے جو کبھی بچپن میں تھی۔ شاید ہم سب اسی بے تکلفی اور اپنائیت کو ترسے ہوئے ہوتے ہیں اسی لیے جب بھی ہمیں کوئی بچپن کا لنگوٹیا یار(دوست) مل جائے تو ساری ٹینشن، ڈیپریشن اور اینگزائٹی دور ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا شہزاد تنویر جیسے لوگ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ ویلڈن شہزاد تنویر۔

Check Also

Tareeki Mein Doobti Dunya

By Khalid Zahid