Sakht Mehnat Aur Mustaqil Mizaji Ka Kamal
سخت محنت اور مستقل مزاجی کا کمال
غربت اور مشکل حالات نے مجھے سخت محنت کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ غربت اور برے حالات میں اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، کچھ ایسی ہی صورتحال میرے ساتھ بھی تھی۔ مجھے بچپن ہی سے باڈی فٹنس کا بہت شوق تھا۔ مجھے وہ تمام لوگ اچھے لگتے تھے جنہوں نے باڈی بلڈنگ سے اپنا جسم خوبصورت بنا رکھا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ یہ باڈی بلڈنگ امیروں کا شوق ہے جب کہ میرے پاس تو اسکول اور کالج کی فیس دینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔
اچانک بجلی چمکی، بادلوں کے گرجنے کی زوردار آواز آئی، موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور ساتھ ہی بجلی بھی چلی گئی۔ رات دس بجے کا وقت تھا۔ جونہی کھڑکی کھولی تو ساتھ ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اندر آیا جہاں جم میں بیٹھا میں مزمل کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ بولا مجھے بچپن ہی سے فٹنس کا شوق تھا، میں نے لوہے کے پائپ کے کناروں پر مٹی بھر کے ڈمل بنا رکھے تھے جن سے میں ایکسرسائز کرتا رہتا۔ گورنمنٹ سکول سے میٹرک کیا اور کالج میں آ گیا لیکن پڑھائی میں میرا کوئی خاص دل نہیں لگتا تھا۔
کچھ گھر کے حالات بھی ایسے ہی تھے کہ مجھے پڑھنے سے زیادہ پیسے کمانے میں دلچسپی تھی۔ ایف۔ اے کرنے کے بعد میں نے ایک ٹینٹ سروس والے کے پاس ویٹر کے طور پر مزدوری شروع کر دی۔ وہ ٹینٹ سروس کا مالک مجھے دن کے ایک فنکشن کے 600 روپے دیتا تھا اور اگر فنکشن شام کو بھی ہوتا تو اس کے 600 روپے الگ مل جاتے لیکن اس کام کے ساتھ میں نے باڈی بلڈنگ نہ چھوڑی۔ مجھے جب بھی فارغ وقت ملتا میں رننگ کرنے لگتا اور اپنے گھر میں بنائے ڈمل سے ایکسرسائز کرتا رہتا۔
میں منڈی بہاؤالدین میں جہاں ویٹر کا کام کر رہا تھا اس کے بالکل سامنے ایک جم تھا، اس فٹنس جم کے مالک سے میری اچھی ہیلو ہائے ہوگئی لہٰذا میں اپنے کام کے بعد جم چلا جاتا اور وہاں گیم لگا لیتا۔ وہ بہت اچھا لڑکا تھا اور میرے حالات سے بخوبی واقف تھا، اس لیے وہ مجھ سے پیسے نہیں لیتا تھا۔ یوں مجھے مزدوری کے ساتھ ساتھ جم کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن آپ کو اچھی باڈی بنانے کے لیے اچھی خوراک بھی چاہیے ہوتی ہے، جب کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ میں اپنی خوراک کا اچھی طرح سے خیال رکھ پاتا۔
میرے گھر کے قریب فروٹ چاٹ اور ملک شیک بنانے والے کی رہڑی تھی۔ میری اس سے بات طے ہوگئی کہ وہ روزانہ مجھے پچاس روپے کے بجائے تیس روپے میں ملک شیک کا گلاس دے گا۔ دو تین ماہ میری یہی روٹین رہی۔ مزمل بہت دھیمے لہجے میں اپنی کہانی سنا رہا تھا اور مجھے اس کی کہانی میں بہت دلچسپی تھی کیوں؟ کیونکہ مجھے ہر وہ شخص انسپائر کرتا ہے جس نے اپنی محنت اور خود داری سے معاشرے میں مقام بنایا ہو اور مزمل بھی ایسے لوگوں میں سے ایک تھا۔
میں اس کی باتیں بڑے انہماک سے سن رہا تھا وہ بولا! جہاں میں ویٹر کے طور پر کام کرتا تھا اس کے قریب ہی ایک فوٹو سٹوڈیو بھی تھا اور مجھے تھوڑا بہت ایڈیٹنگ کا کام بھی آتا تھا۔ میں نے اپنے باس سے اجازت لی کہ فارغ وقت میں میں اسٹوڈیو میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے میں اپنے باس کی اجازت سے فوٹو سٹوڈیو میں کام کرنے لگا۔ میرے پاس اس وقت ایک بٹنوں والا سادہ سا موبائل تھا جو گھر والوں نے بڑی مشکل سے مجھے لے کر دیا تھا۔
ویٹر کا کام کرکے میں نے اتنے پیسے اکٹھے کر لئے کہ جس سے میں نے ٹچ سکرین والا موبائل خرید لیا۔ اب میری روزانہ یہی روٹین ہوتی تھی کہ ویٹر کے طور پر کام کرنا، فوٹو سٹوڈیو میں ایڈیٹنگ کا کام اور شام کو جم میں ایکسرسائز۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ مجھے اپنی ویڈیوز بنانی چاہیے اور اپنا یوٹیوب چینل بنا کر اس پر اپلوڈ کرنی چاہیں۔ لہٰذا میں جم میں اور جم کے سامنے پارک میں اپنی ویڈیوز بناتا رہتا اور اپنے چینل پر اپ لوڈ کر دیتا لیکن ان ویڈیوز کو زیادہ لوگ نہ دیکھتے۔
ملکوال سے منڈی بہاؤالدین جانے کے لیے مجھے روزانہ ایک گھنٹہ لگتا تھا اس لیے جب میں نے فوٹو سٹوڈیو کا کام سیکھ لیا تو اپنے باس کی اجازت سے منڈی بہاؤالدین سے ملکوال آ گیا اور یہاں بھی ایک سٹوڈیو پر کام کرنے لگا جو انہیں کی برانچ تھی۔ ملکوال میں اس وقت صرف ایک ہی فٹنس کلب تھا جہاں میں شام کے وقت جاتا، اس دوران میں نے کچھ پیسے اپنے والد سے لئے اور کچھ اپنی سیونگ سے اکٹھے کرکے ایک کیمرہ خرید لیا۔
اب میں موبائل کے بجائے اس کیمرے سے اپنی ویڈیوز بناتا۔ ایک دن جم میں اپنی ویڈیوز بنا رہا تھا تو جم کے مالک نے مجھے ویڈیو بنانے سے منع کر دیا اور کہا کہ یہاں ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں۔ حالانکہ کسی بھی جم میں ویڈیو بنانے سے منع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اچھا سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس طرح اس جم کی پرموشن بھی ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال میں بہت دلبرداشتہ ہوا، اب میں جم میں اپنے یوٹیوب چینل "Muzamil Fitness" کے لئے ویڈیوز نہیں بنا سکتا تھا۔
میں نے اپنے تین چار دوستوں کو اکٹھا کیا اور کبھی نہر کے کنارے اور کبھی کسی گراؤنڈ میں اپنی ویڈیوز بنانے لگا۔ اس دوران مجھے خیال آیا کیوں نہ میں اپنی حقیقی کہانی کو ایک ویڈیو کی شکل میں بنا کر اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کر دوں۔ میں نے خود ہی سکرپٹ لکھا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر تقریباََ پانچ منٹ کی ایک ویڈیو بنا ڈالی۔ اس ویڈیو میں میں نے اپنے ابتدائی مشکل حالات، مستقل مزاجی اور اپنی باڈی بنانے کے لیے سخت محنت کو دکھایا۔
یہ ویڈیو اپنے چینل پر اپلوڈ کی لیکن اس ویڈیو کا رزلٹ بھی پہلی ویڈیوز سے مختلف نہیں تھا۔ کچھ دن گزرے تو ایک رات وہ ویڈیو اچانک وائرل ہوگئی اور تقریباََ ایک لاکھ لوگوں نے ایک ہی رات میں دیکھ لی۔ میں جب صبح اٹھا اور اپنی ویڈیو کے اتنے ویوز دیکھے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ میں نے اپنے جسم کو ہاتھ لگا کر دیکھا کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا لیکن وہ خواب نہیں حقیقت تھی۔ میں کافی دیر اسی حیرت اور خوشی کی کیفیت میں بیٹھا رہا۔
اگلے چند دنوں میں میری اس موٹیویشنل ویڈیو کے ویوز ملین تک پہنچ گئے اور یوں میرا یوٹیوب چینل کامیاب ہوگیا۔ اس ایک ویڈیو کے وائرل ہونے کی وجہ سے میرے چینل کی دوسری ویڈیوز بھی دیکھی جانے لگی اور یوں مجھے اپنے اس چینل سے انکم آنا شروع ہوگئی۔ مجھے اپنے چینل کی پہلی انکم چار لاکھ روپے موصول ہوئی۔ چھ سو روپے ویٹر کی نوکری کرنے والے مزدور کے لیے یہ کافی بڑی رقم تھی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پہلے سے بڑھ کر محنت کرنے لگا۔
جب میرے پاس دس لاکھ روپے جمع ہوگئے تو مزید کچھ پیسے میں نے اپنے دوستوں سے ادھار لے کر اپنا جم بنا لیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے بہتر سے بہتر کرتا گیا۔ یہ وہی فٹنس جم تھا جس میں بیٹھ کر میں مزمل کی باتیں سن رہا تھا۔ میں نے پوچھا آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کی اس کامیابی کی اصل وجہ کیا ہے؟ میرا سوال سن کر مزمل کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور بولا غربت۔ غربت اور مشکل حالات میں انسان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں ایک ہار مان لینے کا اور دوسرا کچھ کر دکھانے کا، میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔
میرا یقین ہے کہ اللہ ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو محنت کرتے ہیں اور ہمت نہیں ہارتے۔ لہٰذا میں اپنے گھر کے حالات دیکھ کر پریشان ہونے کے بجائے ہمیشہ محنت کرتا رہا۔ میں نے پوچھا "ویٹر مزمل" اور ایک "جم کے مالک مزمل" ہونے میں لوگوں کے رویوں میں آپ کو کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟ بڑے ہی عاجزانہ انداز میں مزمل نے جواب دیا کہ سر! کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں لیکن ناکامی کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ لیکن میں ہر اس بندے کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے حوصلہ دیا۔
وہ کہنے لگا کہ مجھے بچپن ہی سے فٹنس کا شوق تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ شوق ایک دن میرا پرو فیشن بھی بن جائے گا۔ غالب سے کسی نے پوچھا تھا کہ سب سے بڑی عیاشی کیا ہوتی ہے؟ اس کا کہنا تھا کہ آپ کا شوق اگر آپ کی روزی کا ذریعہ بھی بن جائے تو اس سے بڑی عیاشی کوئی نہیں ہوتی۔ مجھے آج اس بات کی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ بے شمار مثبت سوچ رکھنے والے نوجوان میرے فٹنس کلب کا رخ کرتے ہیں اور اپنی فٹنس بہتر بنانے کے لئے فکر مند نظر آتے ہیں۔ لہٰذا مجھے اچھا لگتا ہے کہ بہت سے نوجوان اس صحتمندانہ ایکٹیویٹی میں میرے ساتھ ہیں۔
بارش تھم چکی تھی اور رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ مزمل کی کہانی بہت دلچسپ تھی اس لئے مجھے وقت کے گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ ایک ایسا لڑکا جسے اسپورٹ کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا، اس نے تن تنہا محنت کی، مشکل حالات کی پروا نہ کی اور اپنے شوق میں لگا رہا اور اس کے شوق میں اتنی لگن اور جنون تھا کہ اس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جس کی اس نے خواہش کی تھی۔ آج نہ صرف وہ خود کو مزید بہتر بنا رہا ہے بلکہ اپنے جیسے کئی دوسرے نوجوانوں کو اپنے فٹنس کلب کے ذریعے مثبت سوچ رکھنے والے مفید شہری بنا رہا ہے۔