Rehmat e Insaniat Foundation
رحمت انسانیت فاؤنڈیشن
یہ 1996 کی بات ہے جن دنوں میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی۔ ایس۔ سی کر رہا تھا، میرے ہی علاقے ملکوال کا ایک لڑکا جو فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، ان دنوں میرا روم میٹ تھا، ایک صبح میں جب جاگا تو خلاف معمول وہ کمرے میں نہیں تھا، میں نے سوچا چونکہ آجکل بورڈ کے پیپرز ہو رہے ہیں، اس لئے وہ آج جلدی جاگ گیا ہوگا اور وہ باہر بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کر رہا ہوں گا، لیکن دو گھنٹے بعد جب وہ کمرے میں آیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم صبح صبح کہاں چلے گئے تھے، تو اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ بھائی، صبح سیکنڈ ایئر کے دو لڑکے آئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں او پازیٹو بلڈ کی اشد ضرورت ہے، میرا بلڈ گروپ بھی او پازیٹو تھا، لہذا میں ان کے ساتھ بلڈ دینے چلا گیا، جب کہ ان دنوں اس کے فسٹ ائیر کے سالانہ امتحانات بھی ہو رہے تھے۔
اس لڑکے کا نام غلام عباس تھا، جو آج کل ملکوال ڈگری کالج میں اردو کے پروفیسر ہیں، اور "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" کے روح رواں ہیں۔ یہ نظام قدرت ہے کہ ایک ہی مزاج اور فطرت کے لوگ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کسی نہ کسی طرح ایک جگہ اکٹھے ہو ہی جاتے ہیں۔ منفی سوچ کے حامل لوگوں کو اپنے جیسے منفی اور مثبت سوچ رکھنے والوں کو اپنے جیسے مثبت لوگ مل ہی جاتے ہیں۔
میں ایسی ہی مثبت سوچ رکھنے والے چار جوانوں ڈاکٹر غلام عباس، سید جواد حیدر، راجا عطا کیانی اور محمد اویس انجم کو جانتا ہوں، جنہوں نے اپنی مثبت سوچ سے ایک چھوٹے سے گاؤں سے آغاز کرنے والی چھوٹی سی تنظیم کو علاقے کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" بنا دیا۔ ڈاکٹر غلام عباس کو میں زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں، وہ بچپن سے ہی فلاحی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، کسی غریب طالب علم کی فیس کا انتظام کرنا ہوتا یا کسی بیمار کے علاج کا بندوبست، وہ ہمیشہ ایسے نیکی کے کاموں میں کوشش کرتے نظر آئے۔
گزشتہ روز "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" نے ملکوال میں "وکیلاں بی بی ڈائلیسس سنٹر" کا آغاز کیا، جس کی دعائیہ تقریب میں مجھے بھی جانے کا اتفاق ہوا، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس فاؤنڈیشن کا آغاز سید جواد حیدر نے ملکوال کے نواحی گاوں چوٹ دھیراں سے 2014 میں کیا، شروع میں شاہ صاحب اکیلے غریبوں اور نادار لوگوں کے لئے کے لئے راشن اور یتیم بچیوں کی شادی کے لیے مخیر حضرات کی مدد سے جہیز کا انتظام کرتے رہے، اپنے علاقے میں صاف پانی کے لیے لوگوں کی مدد سے فلٹریشن پلانٹ لگوایا۔
چوٹ دھیراں چونکہ دہی علاقہ تھا اس لیے امرجنسی کی صورت میں کسی مریض کو بڑے شہر لے جانے کے لیے وہاں مناسب بندوبست نہ تھا، سید جواد حیدر نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مخیر حضرات کی مدد سے وہاں ایک ایمبولینس کا انتظام بھی کر لیا، جس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ مارچ 2020 میں کرو نا کی وبا نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، انہی دنوں پاکستان میں بھی اس وبا کے اثرات کی وجہ سے لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔
اس لاک ڈاؤن میں سید جواد حیدر کا رابطہ ڈاکٹر غلام عباس سے ہوا اور انہوں نے مزید چند دوستوں کے ساتھ مل کر کرونا کے دنوں میں ملکوال میں دو ماہ تک غریب لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچانے کا بیڑا اُٹھا لیا۔ ان جوانوں نے دن دیکھا نہ رات، کرونا کی وبا کا خوف کیے بغیر محنت سے یہ فلاحی کام جاری رکھا۔ لوگوں کے اعتماد کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجئے کہ کرونا کے دنوں میں صرف ایک ماہ میں مخیر حضرات نے اس فاؤنڈیشن کو 80 لاکھ روپے ڈونیشن دیا۔ جب آپ اس طرح کے نیکی کے کام کرتے ہیں تو اللہ تعالی خود مدد فرماتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد ان جوانوں نے اس خیر کے کام کو پھیلایا اور مزید دو، تین ایمبولینسز کا انتظام بھی کر لیا۔ آج اس فاؤنڈیشن کے پاس چار ایمبولینسز ہیں۔ گاہے بگاہے اس فاؤنڈیشن کی پوسٹ نظر سے گزرتی رہیں، جن میں یہ فاؤنڈیشن طالب علموں کی یونیورسٹی کی فیس، کسی لا وارث کے علاج، کسی غریب بچی کی شادی اور کسی ضرورت مند کی جائز ضرورت پوری کرتی نظر آئی۔
ہمارے ہاں دیہاتوں میں جہاں عورتیں کھیتوں میں کام کاج کرتی نظر آتی ہیں وہیں چند خواتین مجبوری میں اپنے گھر میں ہی چھوٹی سی دکان بنا لیتی ہیں، گزشتہ ماہ میں نے "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" کی ایک ایسی ہی پوسٹ دیکھی، جس میں انہوں نے ایک بیوہ خاتون کو دوکان کا ڈھیر سارا سامان لے کر دیا جو ایک چھوٹی سی دکان چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ اس دنیا میں اپنے لئے تو سارے ہی جیتے ہیں لیکن جو لوگ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں وہ عبدالستار ایدھی، مدر ٹریسا، ڈاکٹر رتھ فاؤ اور بل گیٹس بن جاتے ہیں۔
اس دنیا میں لاکھوں ارب پتی آئے اور چلے گئے، کوئی انہیں جانتا تک نہیں۔ لیکن جو لوگ انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر گئے، وہ چاہے مسلم تھے یا غیر مسلم، ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ پچھلی صدی میں لاہور میں بے شمار امیر لوگ ہوں گے، لیکن لوگ آج سرگنگارام کو ہی کیوں یاد کرتے ہیں؟ نواب تو بے شمار آئے اور چلے گئے، لیکن لوگ دعائیں "نواب صادق پنجم" آف بہاولپور کو ہی کیوں دیتے ہیں؟ کھلاڑی تو اور بھی بے شمار آئے اور چلے گئے لیکن عمران خان نے شوکت خانم میموریل ہسپتال بنا کر ایک عظیم کام کر دیا۔
اسی طرح بیوروکریٹس بھی بے شمار آئے اور چلے گئے لیکن ان میں ڈاکٹر امجد ثاقب ایک ہی تھا، جس نے "اخوت" جیسا ادارہ بنا کر بے شمار لوگوں کو باعزت روزگار بنانے کا موقع دیا۔ ایک سروے کے مطابق انسان زندگی میں جتنا کماتا ہے، اس میں سے صرف 25 فیصد اپنے اور اپنے پیاروں پر خرچ کرتا ہے، باقی دولت ایسے ہی چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ انسان مزید 25 فیصد اپنی زندگی میں ہی فلاحی کاموں پر خرچ کر جائے، جو ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔
بہت ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ والدین، جن کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کی اولاد کوئی ایسا کام کرے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث ہو۔ چک نمبر۹ کے رانا برادران کی والدہ وکیلاں بی بی گردوں کے مرض میں مبتلا تھی اور انہیں ڈائلیسس کے تکلیف دے عمل سے گزرنا پڑا، رانا برادران صاحب حیثیت تھے، انہوں نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی اور اچھے سے اچھا علاج کروایا، مگر ان کی والدہ انتقال کر گئیں، "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" کا کام ان کے سامنے تھا لہذا انہوں نے والدہ کے ایصال ثواب کے لئے فاؤنڈیشن کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا، تاکہ ملکوال اور گردونواح کے لوگوں کے لئے ایک ڈائیلیسز سینٹر بنایا جا سکے، مگر فاؤنڈیشن کے ممبران نے رانا برادران کو کہا، کہ ہمیں پیسے نہیں ڈائیلائسس والی مشینیں چاہیں، لہذا انہوں نے ڈائیلیسز کی 4 جدید مشینیں فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیں، فاؤنڈیشن نے کل سے رانا برادران کی والدہ کے نام "وکیلاں بی بی" کے نام پر "وکیلاں بی بی ڈائلاسس سینٹر" کا آغاز کر دیا، جس سے وہ مجبور اور غریب لوگ جو گردوں کی موذی بیماری میں مبتلا ہیں وہ اپنا علاج کروا سکیں گے۔
ڈاکٹر غلام عباس اور ان کے ساتھی، اس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے مزید بے شمار خیر کے کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اللہ کریم ان کو اس نیک مقصد میں کامیابی دے، اس فاؤنڈیشن کی طرح اگر پاکستان کی ہر تحصیل میں ایسے فلاحی ادارے بن جائیں، تو یقین جانیے یہ ملک حقیقی معنوں میں بدل جائے گا۔
میری ضلع منڈی بہاؤالدین کے مخیر حضرات سے درخواست ہے کہ وہ خیر کے کاموں میں "رحمت انسانیت فاؤنڈیشن" کا بھرپورساتھ دیں، تاکہ خیر کے ان کاموں کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہے۔