Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Rasul University, Aik Azeem Darsgah

Rasul University, Aik Azeem Darsgah

رسول یونیورسٹی، ایک عظیم درسگاہ

کٹھل بہت ہی نایاب پھل ہے۔ پاکستان میں کٹھل کے درخت نا ہونے کے برابر ہیں۔ کٹھل کے درخت زیادہ تر مشرقی افریقہ کے ممالک یوگنڈا، مریشس اور برازیل میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بنگلہ دیش کا قومی پھل بھی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں کٹھل کا ایک ہی درخت ہے اور آپ اس کے نایاب ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک چوکیدار ہر وقت اس پھل کی نگرانی کے لیے موجود رہتا ہے۔ عدیل صاحب درخت کے بارے میں یہ ساری معلومات مجھےبتا رہے تھے۔ اور اُس وقت بھی ایک چوکیدار چارپائی پر وہاں بیٹھا تھا۔ اتنا بڑا پھل وہ بھی کسی درخت کے ساتھ لٹکا ہوا میں نے پہلی بار دیکھا۔ تھوڑا تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کٹھل درخت پر لگنے والا دنیا کا دوسرا بڑا پھل ہے۔ میں پھل توڑ تو نہیں سکتا تھا بس کٹھل کے درخت اور اُس پر لگے پھل کے ساتھ ایک سیلفی پر ہی اکتفا کیا۔

عدیل نعمان میرے بہت ہی ہونہار شاگرد ہیں اور آج کل یونیورسٹی آف ٹیکنیکل رسول میں بطور پروفیسر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی کا نام میں نے بچپن سے سُن رکھا تھا لیکن منڈی بہاؤالدین سے سرائے عالمگیرجاتے ہوئے میں نے بس رسول گاؤں کا ایک بورڈ اور یونیورسٹی کے مین دروازے پر لگا بورڈ ہی پڑھ رکھا تھا۔ عدیل نعمان صاحب کی دعوت پر میں نصیر صاحب کے ساتھ 15جولائی کو اس یونیورسٹی پہنچا۔ جونہی یونیورسٹی کے مین دروازے سے اندر داخل ہوا تو یہ ایک الگ ہی دنیا تھی۔ وسیع و عریض، سر سبز و شاداب کھیل کے میدان، پرانی خوبصورت عمارتیں، پروفیسرز کے لیے رہائشی مکانات اور بے شمار درخت۔

عدیل صاحب اپنے دوست پروفیسر غلام رضا حیدر صاحب کے ساتھ یونیورسٹی میں قائم میوزیم کے درازے پر ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ بڑی محبت سے انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور میوزیم کے اندر لے گئے۔ یہ میوزیم دراصل اس تعلیمی ادارے کی سو سالہ تاریخ تھی۔ رضا صاحب نے بتایا کہ یونیورسٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزای کے بعد انگریزوں نے برصغیر میں کئی یونیو رسٹیاں بنائیں۔ لیکن وہ یونیورسٹیاں جو 1947ء کے بعد پاکستان کے حصہ میں آئیں اُن میں گورنمنٹ کالج یونیور سٹی لاہور، اور پنجاب یو نیو رسٹی نمایاں تھیں۔ یونیورسٹی آف انجینر ینگ اینڈ ٹیکنالوجی رسول ابتدائی دنوں میں ایک سکول تھا۔ جس کا نام سکول آف سرویئرنگ تھا۔ اور اس کا آغاز 1873ء میں پنجاب یونیورسٹی کے تحت ہوا۔

1912ء میں اس کا موجودہ کیمپس جو 216ایکڑ پر مشتمل ہے رسول کے مقام پر بنایا گیا۔ 1962ء میں اس کا نام گورنمنٹ سکول آف انجئیرننگ اور بعد میں اس کا نام پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ رسول رکھ دیا گیا۔ 1974ء میں مزید اپ گریڈیشن ہوئی اور اُس کا نام بدل کر گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی رسول رکھ دیا گیا۔ اپریل 2014ء میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔

انگریزوں نے برصغیر میں زرعی، تعلیمی اور معاشی اصلاحات کیں تو ان کو ان ریفامرز کے لیے افرادی قوت بھی درکار تھی۔ لہذا انہوں نے بہت کم معاوضے پر یہاں کے لوگوں سے کام لیا۔ رسول یونیورسٹی میں آج کل طلباء کے لیے جو مین ہاسٹل ہے ابتدا میں انگریز اس عمارت میں قیدیوں کو رکھا کرتے تھےجن سے وہ محنت اور مشقت کا کام لیتے تھے۔ رضا صاحب کے مطابق رسول یونیورسٹی کے سامنے جو نہر موجود ہے اُسے بھی ابتدائی طور پے اُن قیدیوں نے ہی کھوداتھا جن کو وہاں رکھا جاتا تھا۔

1912ء سے 2012ء تک اس کالج کے جو بھی پرنسپل رہے اُن کی تصاویر بھی اس میوزیم کی ایک دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف کھیلوں میں جیتنے والے کھلاڑیوں کے گروپ فوٹوز کے لیے ایک الگ گوشہ تصاویر بنایا گیا ہے۔ پرانی تصاویر میں سے ایک میں اُس وقت کے پرنسپل تمام ٹیچرز کے یونیفارم کا معائنہ کر تے دکھائی دیئے۔ جس سے اس عظیم درسگاہ کے نظم ونسق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میوزیم میں ایک کارنر میں بگل اور خراب ڈھول نما بینڈ بھی موجود تھے۔ نعمان صاحب نے بتایا کہ کسی دور میں صبح کی اسمبلی کے لیے باقائدہ بگل بجایا جاتا اور بچے اور طلباء اسمبلی کے لیے میدان میں آتے تھے۔ اس ادارہ کے ہر طالب علم کا ہاسٹل میں رہنا ضروری ہوتا تھا۔ جب عدیل صاحب مجھے بتا رہے تھے، تصوراتی طور پر میں نے اُس وقت بگل اور بینڈ کے بجنے اور طالب علموں کو اس میوزیم کے سامنے گراؤنڈ میں آتے محسوس کر رہا تھا۔

اگلے ہی لمحے انہوں نے مجھے کچھ پرانے پروجیکٹرز دیکھانا شروع کر دیئے۔ جن کے ذریعے بڑے ہال میں طلباء کو لیکچر دیا جاتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی اس کالج میں اتنے جدید آلات کی مدد سے طالب علموں کو پڑھایا جا رہا تھا جو موجودہ دور میں بھی کئی اداروں میں میسر نہیں۔ اور یہ بھی بد قسمتی ہے کہ اگر آج جدید آلات کہیں موجود بھی ہیں تو وہ لیبارٹریز میں پڑے پڑے خراب ہو جاتے ہیں مگر اُن کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ عدیل صاحب کا کہنا تھا کہ ایک پروجیکٹر 1970ء میں اس کالج کو دیا گیا تھا اور پچاس سال تک وہ ڈبے میں پیک پڑا رہا۔ اپریل2021ء میں ہم اُس پروجیکٹر کو استعمال میں لائے۔

مونگ وہ تاریخی علاقہ ہے یہاں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ یہ علاقہ رسول کالج کے بالکل قریب ہی واقع ہے۔ اس کالج کے طلباء نے 1901ء میں مونگ کے ٹیلوں کی کھدائی کے دوران پرانے برتن نکالے۔ جو قبلِ مسیح استعمال کئے جاتے تھے۔ اُس وقت کا بنا ہوا مٹی کا ایک گھڑا جو اب اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں وہ بھی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ انگریزوں کے دور حکومت کے دوران جو ٹائپ رائٹر، کیمرے، ہینڈ پمپ، موسیقی کے آلات، واٹر جیٹ آپریٹرز اور 1951ء کا ایک کیلکولیٹر بھی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

رضا صاحب نے ہمیں ایک ایسی لیب کا بھی وزٹ کروایا جہاں تعمیراتی میٹیریل مثلا اینٹیں، سریا اور گارڈرز وغیرہ کی مضبوطی کو پرکھنے کے لیے قدیم آلات نصب تھے۔ رسول کالج میں 1953ء میں 160x74فٹ کا ایک بہٹ بڑا ہال تعمیر کیا گیا جو واقعی طرز و تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس ہال کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی چھت میں ایک بھی پلر موجود نہیں۔ اور اس ہال میں تقریباً ایک ہزار طلباء بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں۔ اس ہال کے چھت کو الگ سے بنایا گیا اور پھر بھاری مشینری کے ذریعے ہال کی دیواروں پر رکھ دیا گیا۔ یہ ہال یقیناً اپنی الگ ہی انفرادیت رکھتا ہے۔ اس کالج میں 150 سٹاف ممبرز کے لیے رہائیشیں بھی موجود ہیں۔

اس کالج کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے احاطے میں دو گورنمنٹ اور ایک پرائیویٹ سکول بھی قائم ہیں۔ یہاں کے مکینوں کے لیے ایک ڈسپنسری بھی قائم کی گئی ہے۔ اس یونیورسٹی کا اوول گراؤنڈ دیکھ کر مجھے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا اوول گراؤنڈ یاد آ گیا یہاں ایم- فل کے دوران اکثر میں نے دوستوں کے ساتھ وقت گزارا۔ اس کالج میں ہاکی، فٹ بال، کرکٹ اور باسکٹ بال کے خوبصورت میدان اپنی مثال آپ ہیں۔

ایک دور تھا جب منڈی بہاؤالدین سے لیکر رسول کالج تک ریلوے کی پٹڑی بچھائی گئی تھی۔ اور اُس پر باقائدہ طلباء کو لانے اور لے جانے کے لیے ٹرین چلتی تھی۔ اُس ٹریک کا کچھ حصہ آج بھی یونیورسٹی میں موجود ہے اور خستہ حالت میں ایک ڈبہ بھی اس ٹریک پر کھڑا ہے۔ اس ریل ٹریک کے آثار آپ کو 8آر۔ ڈی پُل پر بھی ملتے ہیں۔ لوہے کو پگھلانے والی بھٹی، قدیم دور میں سڑکیں بنانے والے رولر اور بلڈوزر اور زمین سے پانی نکالنے کے لیے اُس وقت جو مشینری استعمال کی جاتی تھی وہ بھی کالج میں مختلف جگہوں پر موجود ہے۔

انگریزوں نے یہاں بجلی حاصل کرنے کے لیے آٹھ بڑے ڈی -سی جنریٹر بھی لگا رکھے تھے جو پورے کالج کو بجلی سپلائی کرتے تھے۔ بڑے ہال کے قریب ایک بس کا ڈھانچہ بھی دکھائی دیا جو ماضی قریب میں کینٹین کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ بس ایران کے آخری بادشاہ نے کالج کے طلباء کے لیے تحفے میں دی تھی۔ 2012ء میں کالج میں سو سالہ تقریبات بھی منعقد ہوئیں جس میں اس کالج کے اولڈ سٹوڈنٹس نے اندرون اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس عظیم درسگاہ کا وزٹ کرنے کے بعد جناب عدیل نعمان اور پروفیسر غلام رضا حیدر ہمیں اپنے دوست پروفیسر عامر مہدی صاحب کے پاس لے گئے۔ جنہوں نے ہمارے لیے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس عظیم درسگاہ سے ہزاروں لاکھوں لوگوں نے تعلیم حاصل کی اور پوری دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کل کی نوجوان نسل لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کرتے ہوئے اس ادارے کی قدیم شاندار روایات کو برقرار رکھتے ہوئے سخت محنت کریں اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik