Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Qasim Ali Shah Se Aik Mulaqat

Qasim Ali Shah Se Aik Mulaqat

قاسم علی شاہ سےایک ملاقات

شاہ صاحب کہنے لگے، کہ چند دن پہلے میں ایک جگہ لیکچر دے رہا تھا تو وہاں ہر عمر کے لوگ موجود تھے ،میں نے انہیں ایک ایکٹیویٹی کرنے کو کہا ،کہ آپ تمام لوگ خیالاتی طور پر اپنے ہاتھوں میں گاڑی کا سٹیرنگ پکڑیں اور گاڑی چلانا شروع کریں ،جیسے ہم سب بچپن میں گھیں گھیں کرکے بھاگتے ہوئے گاڑی چلاتے تھے ۔شروع میں سب کو ایسا کرنے میں بڑی مشکل محسوس ہوئی لیکن میرے کرنے کے ساتھ سب نے اپنی اپنی گاڑی چلانا شروع کر دی ،میں ساتھ ساتھ انہیں کہہ رہا تھا کہ گاڑی اور تیز چلائیں وہ تمام اب مسکراتے جاتے اور ساتھ زیادہ اونچی آواز میں گھیں گھیں کرتے جا رہے تھے، پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ اتنی تیز گاڑی چلائیں کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیں اور خود سب سے آگے نکل جائیں۔

اب ہر ایک کی یہ کوشش تھی کہ وہ اس خیالاتی ریس میں سب سے آگے ہو۔ میں نے تمام لوگوں کو روک دیا اور ان سے سوال کیا ،کہ آپ میں سے سب سے آگے کون تھا؟ یہ ریس کس نے جیتی؟ تو تمام لوگوں کے ہاتھ کھڑے تھے کہ میں جیتا میں جیتا، پھر میں نے انہیں بتایا کہ آپ میں سے تو کوئی بھی نہیں جیتا ،آپ سارے کے سارے تو یہاں بیٹھے ہیں ،بالکل اسی طرح ہم سب نے حقیقی زندگی میں بھی آگے بڑھنے کی ایک فضول ان دیکھی ریس لگائی ہوئی ہے۔ جس کی کوئی منزل نہیں۔ ہمیں اپنی زندگی میں لاحاصل چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگنا، بامقصد زندگی گزارنی ہے ،ایسی بامقصد زندگی جس سے ہماری دنیاوی زندگی بھی سنور جائے اور اخروی زندگی بھی۔

میں چائے پی رہا تھا اور شاہ صاحب کی باتوں کو بڑی عقیدت سے سن رہا تھا، شاہ جی کہنے لگے کہ میں نے زندگی میں بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کو اللہ تعالی نے ہر طرح کی آسائشوں سے نوازا، وہ کہیں بھی گئے تو بڑے بڑے لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور انتہائی عاجزی اپناتے، لیکن وہ اپنی کامیابیوں کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہوگئے اور وقت نے ان لوگوں کے نام و نشان تک مٹا کر رکھ دیے، شاہ جی نے کہا اللہ جب کسی کو عزت دے تو اسے عاجزی اختیار کرنی چاہیے اور لوگوں کے لیے خیر کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا چاہئے۔

29 اکتوبرکو میں لاہور آیا لیکن اس دن شاہ صاحب کی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے میری ان سے ملاقات نہ ہو سکی، ایک ہفتہ قبل جب شاہ جی نے مجھے لاہور آنے اور ملاقات کرنے کے لیے میسج کیاتو میں 27 دسمبر کو لاہور شاہ صاحب کے پاس حاضر ہو گیا، ہمیشہ کی طرح شاہ صاحب بڑی محبت سے ملے۔ طارق بلوچ صحرائی صاحب ہمارے ملک کے نامور افسانہ نگار ہیں جنہوں نے "سوال کی موت"، "لمس کی چپ" اور "گونگے کا خواب" جیسی شاندار کتابیں لکھی ہیں، شاہ صاحب کی گفتگو جاری تھی کہ طارق بلوچ صحرائی بھی شاہ جی سے ملاقات کرنے فاؤنڈیشن آگئے۔ نوجوان شاعر "دانی جی" بھی شاعری کی اپنی نئی کتاب لے کر صحرائی صاحب کے ساتھ آئے اور اپنی کتاب شاہ صاحب کو پیش کی، طارق بلوچ صحرائی چونکہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے خاص شاگردوں میں شامل ہیں ،اس لیے ان کی تحریریں تصوف سے بھرپور ہوتی ہیں۔

اس ملاقات میں شاہ صاحب انسانی رویوں کے بارے میں بات کررہے تھے کہنے لگے ،کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی خوشی کے لمحات سے بھی ٹھیک طرح سے لطف اندوز نہیں ہوتے، اور ان باتوں میں پڑے رہتے ہیں جن کی اس خوشی کے موقع پر ضرورت ہی نہیں ہوتی۔شاہ جی نے بتایا کہ میں چند دن قبل ایک شادی کی تقریب میں شریک تھا ،تو وہاں ایک صاحب بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ نے فلسفے کی فلاں کتاب پڑھی ہے، آپ نے فلاں شخصیت کا انٹرویو سنا ہے، آپ کی فلاں شخصیت کے بارے میں کیا رائے ہے وغیرہ، چاہیے تو یہ تھا کہ ہم جس دوست کی خوشی میں شریک ہوئے اس سے باتیں کرتے، لیکن وہ صاحب یہ بات نہیں سمجھ پا رہے تھے۔

اس پر صحرائی صاحب نے مزاح کے انداز میں ایک خوبصورت بات بتائی کہ کوئی شخص امریکہ میں رہتا تھا ،اسے عجیب قسم کا وہم ہو گیا کہ میں جب چارپائی کے اوپر لیٹتا ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ چارپائی کے نیچے کوئی ہے ،اور اگر میں چارپائی کے نیچے لیٹو ں ،تو لگتا ہے کہ چارپائی کے اوپر کوئی ہے، اب وہ ایک امر یکی ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے کہا ،آپ کو تو بڑی خوفناک بیماری ہے، آپ کو یہ دوا لینی چاہیے اور اچھی طرح آرام کرنا چاہیے، ہسپتال سے واپسی پر اس بندے کو ایک پاکستانی مل گیا، اس نے اپنا مسئلہ اس پاکستانی کو بتایا تو اس نے کہا یار آپ کی بیماری کا تو بہت آسان حل ہے۔

آپ اپنی چارپائی کےچارپائے کاٹ دو تو تمہاری ساری بیماری ختم ہو جائے گی، اس نے ایسا ہی کیا اور وہ بالکل ٹھیک ہوگیا، صحرائی صاحب کا کہنا تھا کہ اس وہمی شخص کی طرح ہم سب کی زندگیوں میں بھی کچھ فضول سوچو کے چارپائے ہوتے ہیں، جن کو ہمیں کاٹ دینا چاہیے تاکہ زندگی خوبصورت ہو جائے۔اس یادگار ملاقات کے آخر میں شاہ جی نے مجھے ایک خوبصورت مفلر اور اپنی کتاب "ابر مسلسل" تحفے میں دی۔ قاسم علی شاہ فاونڈیشن میں، میں نے اپنے دوسرے سفر نامے "اہرام مصر سے کوہ طور تک" کے حوالے سے ایک انٹرویو بھی ریکارڈ کروایا۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ میری درخواست پر شاہ صاحب نے ملک وال آنے کا وعدہ کر لیا اور انشاءاللہ بہت جلد ملک وال تشریف لائیں گے۔

دنیا جانتی ہے کہ قاسم علی شاہ جو خیر کا کام کر رہے ہیں، لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور یقینا ََخیر کے اس کام کو صدیوں یاد رکھا جائے گا،میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے شاہ صاحب کے ساتھ رہنے کا موقع ملا اور زندگی کے بے شمار اسباق سیکھنے کو ملے ،جو کسی کتاب کالج یا یونیورسٹی نے نہ سکھائے اور اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود وہ مجھے جب بھی ملے ،ایک بھائی کی طرح محبت سے پیش آئے۔ شاہ صاحب واقعی ایک درویش صفت انسان ہیں کیوں کہ "قیمتی ہو کر مفت ہو جانا اصل درویشی ہے"۔ اللہ کریم شاہ صاحب کو ہمیشہ آباد، شاد اور سلامت رکھے آمین۔

Check Also

Asma Jahangir Conference Mein German Safeer Ka Rawaiya, Chand Sawalaat

By Asif Mehmood