Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Pakistan ka Dale Steyn

Pakistan ka Dale Steyn

پاکستان کا ڈیل اسٹین

میں نے پوچھا کہ جب تم نے کراچی کنگز کے ٹام لمبے (Tom Lammonby) کو بولڈ کیا۔ تو اس وقت آسمان کی طرف دیکھ کر کیا اشارہ کیا تھا؟ کہنے لگا میں نے پہلے دونوں ہاتھوں سے اپنی ذات کی نفی کی اور پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہا کہ یہ میرا کمال نہیں، یہ تو بس اللہ کا کرم ہے۔ جب بھی کوئی بولر کسی بیٹسمین کو آؤٹ کرتا ہے تو اس کا کوئی مخصوص اسٹائل ہوتا ہے مگر میرا نہیں۔ میں خرم کی اس عاجزی سے بہت متاثر ہوا۔ ان دنوں پی، ایس، ایل کی وجہ سے کرکٹ کا بخار عروج پر ہے۔

حال ہی میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی طرف سے پی، ایس، ایل کھیلنے کے بعد خرم شہزاد اپنے آبائی شہر ملکوال آیا تو میں نے مظہر کو کال کر کے خرم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مظہر، خرم کا قریبی دوست ہے۔ اگلے دن اڑھائی بجے کا وقت مقرر ہوا۔ مہر مظہراقبال اور شاہد نوید رانجھا ملکوال جمخانہ کرکٹ کلب کے معروف کھلاڑی ہیں۔ وہ خرم شہزاد کو لے کر میرے پاس تشریف لائے۔ سکول کے بچوں نے خرم شہزاد کو پھول پیش کیے اور ہم لوگ آفس میں آ گئے۔ حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے کہا، خرم آپ ہمارے ہیرو ہیں اور بہت سے بچوں کے لیے انسپائریشن ہیں۔

آپ کی کامیابی میں آپ کی محنت، قسمت یا دعائیں کس چیز کا زیادہ عمل دخل ہے؟ چہرے سے اپنا ماسک اتارتے ہوئے خرم بولا کہ قسمت ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو سخت محنت کرتے ہیں۔ مجھے بچپن سے ہی کرکٹ کا جنون تھا۔ میں ایف اے کے بعد کرکٹ کھیلنے کے لیے سرگودھا جانا چاہتا تھا مگر مجھے گھر سے اجازت نہ ملی۔ میں مسلسل محنت کرتا رہا، ہر روز پریکٹس کرتا، کئی کئی کلو میٹر دوڑ لگاتا۔ خواہش یہ تھی کہ ڈسٹرکٹ لیول کی ٹیم میں اپنی جگہ بنا لوں۔ مگر مسلسل تین سال کی محنت کے باوجود ڈسٹرکٹ لیول کی ٹیم تک بھی نہ پہنچ سکا۔

زندگی میں وہ واحد لمحہ ایسا آیا کہ مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ پھر پتا نہیں میری مسلسل محنت دیکھ کر شاید گھر والوں کو مجھ پر ترس آگیا اور مجھے سرگودھا جانے کی اجازت دے دی۔ سرگودھا تقریباََ تین سال کرکٹ کھیلی۔ ان دنوں پاکستان کے سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید نے "لاہور قلندر رائزنگ سٹار" کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔ انہوں نے میری بولنگ دیکھی اور مجھے "رائزنگ اسٹار" میں سلیکٹ کر لیا۔ میں جب لاہور پہنچا تو وہاں ایک دن پریکٹس کے دوران معروف کرکٹر فخر زمان نے میری بولنگ دیکھی اور خوب سراہا۔

پھر ان کی رہنمائی کی وجہ سے میں ایچ، بی، ایل کی ٹیم کا حصہ بن گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی۔ پاکستان اے ٹیم کی طرف سے سری لنکا کے دورے کے لیے منتخب ہوا اور پھر پی، ایس، ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم کا حصہ بن گیا۔ میں نے خرم سے کہا کہ ہمارے ہاں کوئی بھی شخص کسی بھی شعبے میں جب کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی کی سفارش سے یہاں تک پہنچا ہوگا۔ کیا آپ کو بھی ایسی باتیں سننے کو ملیں؟ چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے خرم بولا کہ ہر نا لائق بندہ کسی کی کامیابی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

حسد کرتا ہے اور پھر اس طرح کی باتیں بناتا ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سخت محنت کرے اور کسی بھی شعبے میں اپنا کوئی ٹارگٹ بنا لے، تو اللہ اس بندے پر ضرور کرم کرتا ہے۔ بندے کی خواہشات تو بہت چھوٹی ہوتی ہیں اور اللہ اسے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ خرم مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں کسی کرکٹر سے نہیں بلکہ موٹیویشنل اسپیکر سےبات کر رہا ہے۔ کہنے لگا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے مثبت سوچ دی۔

میں ایف، اے کے بعد تعلیم کا سلسلہ تو جاری نہ رکھ سکا مگر آج کل "یوٹیوب" سے بڑی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ اس لیے مجھے جب بھی وقت ملتا ہے تو مختلف موٹیویشنل اسپیکرز کو سنتا رہتا ہوں۔ جن میں قاسم علی شاہ، شیخ عاطف اور چند انڈین اسپیکرز شامل ہیں۔ ان کی باتیں میری مثبت سوچ میں اضافہ کرتی ہیں۔ آپ کا کرکٹ میں آئیڈیل کون سا ہے میں نے پوچھا؟ خرم بولا کہ مجھے تو صرف کرکٹ کھیلنے کا جنون تھا۔ یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ فلاں کرکٹ جیسا بننا ہے۔ مگر 2017 میں جب میں سرگودھا کھیلتا تھا تو وہاں مجھے اکثر دوست کہتے تھے کہ تمہارا بولنگ اسٹائل جنوبی افریقہ کے فاسٹ بالر "ڈیل اسٹین" Dale Steyn جیسا ہے۔

حالانکہ میرا بولنگ کا یہ اسٹائل تو نیچرل تھا۔ ڈیل اسٹین چونکہ دنیائےکرکٹ کے عظیم بولر ہیں۔ اس لیے جب مجھے معلوم ہوا کہ میری بولنگ اسٹائل کی مشابہت ان سے ملتی ہے تو میں نے اسے ہی اپنا آئیڈیل بنا لیا۔ اس گفتگو کے دوران مجھے اپنا طالب علمی کا زمانہ یاد آگیا۔ بی، ایس، سی تک میں نے بہت کرکٹ کھیلی لیکن 1998ء میں جب ٹیچنگ کے شعبے میں آیا تو کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ ملکوال ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ خرم شہزاد کا نام تو کرکٹ کے حوالے سے میں نے چند سالوں سے سن رکھا تھا مگر میری اس سے ملاقات نہ ہو پائی۔

میری خرم سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ خرم شہزاد فرسٹ کلاس میں اب تک 29 میچز، پاکستان اے ٹیم کی طرف سے 12 اور 17 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکا ہے۔ وہ پاکستان کرکٹ کا ایک ابھرتا ستارہ تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ وہ عاجزی کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ میں نے پوچھا کہ اتنی پذیرائی کے بعد اب آپ کو کیسا لگتا ہے؟ بولا کہ یقیناََ اچھا لگتا ہے مگر مجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی میں خود کو کوئی اسٹار سمجھتا ہوں۔ مجھے اس کی یہ عاجزانہ باتیں اچھی لگیں۔ کہنے لگا کہ سر جس انسان نے کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنا ہو تو اس کے لئے یہ معنی نہیں رکھتا کہ کہ وہ کسی بڑے شہر میں رہتا ہے یا ہماری طرح کسی چھوٹے شہر میں۔

اصل بات تو آپ کی کمٹمنٹ، محنت اور سوچ پر منحصر ہے۔ میں نے ہمیشہ بڑا سوچا، مثبت سوچ اور اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ میں جب اس چھوٹے سے شہر سے پی، ایس، ایل لیول تک پہنچ گیا تو میرا یقین اس بات پر اور بھی پختہ ہوگیا کہ سفارش وغیرہ کچھ نہیں ہوتی۔ بس آپ کی لگن سچی ہونی چاہیے۔ کسی چھوٹے موٹے کام کے لئے جب مجھے یہاں کوئی کہتا ہے کہ خرم صاحب میں اس کام کے لیے آپ کی سفارش کر دیتا ہوں، یہ کام ہو جائے گا۔ تو مجھے دل ہی دل میں ہنسی آتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی محدود سوچ کے مطابق بات کر آ رہا ہوتا ہے۔

جب کہ میں اللہ پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور جسے اپنے ربّ پر یقین ہو اسے کسی کی سفارش کی کیا ضرورت؟ ملکوال کے ابھرتے ہوئے کرکٹر خرم شہزاد کے ساتھ ملاقات انتہائی شاندار رہی۔ خرم نے اپنے دوستوں کے ساتھ پریکٹس کے لیے جانا تھا اس لیے اس ملاقات کے فورا ََبعد وہ تینوں گراؤنڈ چلے گئے۔ کسی معاشرے میں، کسی بھی شعبے میں مثبت کردار ادا کرنے والے لوگ اس معاشرے کے اصل ہیرو ہوتے ہیں اور ایسے ہیروز کو ہمیں اپنی نوجوان نسل سے ضرور متعارف کروانا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے آج اس مثبت سوچ کے حامل نوجوان کرکٹر کو سکول کے بچوں سے ملوانے کے لیے مدعو کیا تھا۔

تاکہ بچوں میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مثبت صحت مندانہ کھیلوں کی طرف بھی رجحان بڑھے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ یہ سوشل میڈیا اور موبائل فونز آنے والی نوجوان نسل کی مثبت صلاحیتوں کو نگل جائیں گے۔ خرم شہزاد ملکوال کا فخر اور یہاں کی نوجوان نسل کے لئے انسپائریشن ہے۔ وہ جتنی محنت کر رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہوگا۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم اس مثبت سوچ رکھنے والے پاکستان کے "ڈیل اسٹین" کو ڈھیروں کامیابیاں دے۔ آمین

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry