Mujhe Khushi Chahiye
مجھے خوشی چاہیے
مہاتما بدھ سے کسی نے پوچھا کہ مجھے خوشی چاہیے، بدھ بولے! کہ تمہارے فقرے میں دو لفظ اضافی ہیں"مجھے" اور "چاہیے" یعنی انا اور خواہش، تم یہ دونوں ہٹا دو تو پیچھے خوشی رہ جائے گی۔ مہاتما بدھ کی یہ بات واقعی کمال ہے، ہماری زندگی اکثر ان دو باتوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ہم ساری زندگی اپنے آپ کو بڑے سے بڑا بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بچپن میں اپنے بہن بھائیوں سے مقابلہ، اسکول میں پہنچ کر اپنے کلاس فیلو سے ہمیشہ آگے نکلنے کی خواہش۔
میٹرک یا ایف ایس سی کے بعد ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی خواہش، اگر کوئی نوکری مل جائے تو اس میں آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش، بڑی گاڑی بڑا گھر لینے کی خواہش، معاشرے میں اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرنے کی خواہش، ہم ساری زندگی کسی نہ کسی خواہش کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہم اندر سے مطمئن نہیں ہوتے، کیونکہ ہماری ساری خواہشات مادی ہوتی ہیں۔ ہم سب کچھ حاصل کرنے کے چکر میں یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ حقیقی خوشی تو دینے میں ہے لینے میں نہیں۔
روح کی خوشی کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ ہم دوسروں سے مقابلہ کرتے رہیں، خوشی کا تعلق تو صرف صاف دلی سے ہوتا ہے، جیسا دل ہمارا بچپن میں ہوتا ہے۔ بچپن میں ہماری خواہشات بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ بچہ چاہے کسی غریب کا ہو یا امیر کا، وہ چھوٹا سا کھلونا لے کر خوش ہو جاتا ہے، ان بچوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ کھلونا مہنگا ہے یا سستا، بس انہیں کھلونا چاہیے ہوتا ہے لیکن وہی بچے جب سمجھ دار ہوتے ہیں تو ان میں اچھی سے اچھی چیز کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔
پھر وہی بچے بڑا کھلونا اور زیادہ کھلونے لینا چاہتے ہیں۔ یہ بڑے کھلونے کے حصول سے پیدا ہونے والی خواہش پھر کئی خواہشات میں بدل جاتی ہیں، زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن خواہشات نہیں۔ اسی طرح ہماری انا بھی ہمیں حقیقی خوشی سے محروم رکھتی ہے۔ ہم اپنے کئی رشتے اور تعلق اپنی انا کی تسکین کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے کئی پیارے رشتوں سے صرف اس وجہ سے دور ہو جاتے ہیں کہ اگر اس نے ہمیں نہیں بلایا تو ہم اسے کیوں بولیں۔
فلاں نے ہمارے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیا، ہم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔ اپنی گلی یا محلے میں اگر کسی بھی حوالے سے کوئی بندہ ہم سے کم تر ہو اور وہ پاس سے گزرے تو ہم سلام میں پہل کرنا بھی گوارا نہیں کرتے وہاں بھی ہماری انا آڑے آ جاتی ہے کہ میں اس سے معتبر ہوں میں اسے پہلے سلام کیوں کروں۔ اسی طرح اگر ہمارے ماتحت کچھ لوگ کام کر رہے ہوں تو وہاں بھی ہم اپنے آپ کو دوسروں سے سپیریئر سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں، ہم اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے کیا کیا نہیں کرتے۔
میں نے کئی ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ اس انتظار میں رہے کہ کوئی دوسرا انہیں سلام میں پہل کرے یا بلائے۔ جب کسی بندے کا یہ معمول ہو کے وہ کسی سے علیک سلیک نہ کرے اور نہ ہی بولے تو دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسے بھی بالکل نہ بلایا جائے لیکن کمال تو یہ ہے اس صورتحال میں بھی ہم اپنی انا کے فریب میں نہ آئیں بلکہ سلام میں پہل کریں۔ میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کئی لوگ صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ انہیں پہلے بلایا جائے۔
جونہی آپ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ مسکرا کر آپ سے بات کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر آپ پہل نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے آپ تین گھنٹے کہیں اکٹھے بیٹھے رہیں لیکن آپ کی بات ہی نہ ہو، دراصل مسئلہ انا کا ہوتا ہے۔ ہم اگر خوبصورت زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں عاجزی اختیار کرنا ہوگی اور اپنی زندگی میں تین قسم کی فیکٹریاں لگانی ہوں گی۔ یہ وہ فیکٹریاں ہیں جن کے لیے کسی سرمائے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کے پاس اگر ایک روپیہ بھی نہیں، تو بھی آپ یہ فیکٹریاں لگا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے آپ آئس فیکٹری لگائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دماغ کو ہمیشہ ٹھنڈا یعنی پرسکون رکھیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات، معاشی و ملکی حالات اور سیاست پر گفتگو کرکے ایک دوسرے پر غصہ ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ملکی حالات پر اتنا کڑہنے سے کیا حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ جو کام ہمارے اختیار میں ہے ہی نہیں، ہم اس پر بحث کیوں کریں؟ کسی بھی شخص سے ہم بنا تحقیق کیے تکرار شروع کر دیتے ہیں۔
ہم سیاسی اختلافات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے سگے بھائی ایک دوسرے کو بلانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھیں، اپنے آپ میں تھوڑی سی برداشت پیدا کریں تو زندگی اور بھی خوبصورت ہو جائے، لہٰذا اپنا دماغ ہمیشہ ٹھنڈا رکھیں۔ آپ دوسری فیکٹری شوگر کی لگائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زبان میٹھی کر لیں، ہر کسی سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ یہ ایک ایسا جادوئی فارمولا ہے کہ اس سے ہر بندہ آپ کا گرویدہ بن جائے گا۔
اس فیکٹری کو لگانے کے لئے بھی آپ کو ایک روپے کی ضرورت نہیں، بس آپ اپنا اخلاق بہتر کر لیں اور تیسری فیکٹری "لو" فیکٹری ہے، یعنی ہم ہر کسی سے محبت سے پیش آئیں، دوسروں کے بارے میں اپنے دل سے نفرت اور کدورت کو ختم کر دیں اور اپنے دل کو ہر کسی کے لئے صاف کر لیں تو یقین کیجیے خودبخود لوگ آپ کی طرف کھینچے چلے آئیں گے۔ محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے، آپ جب یہ تینوں فیکٹریاں لگا لیں گے تو پھر آپ جس حالت میں ہوں گے اسے "سیٹسفیکڑری" کہا جائے گا یعنی آپ ہر لحاظ سے مطمئن ہو جائیں گے۔
اس فارمولے کو آئی ایس ایل فارمولا کہتے ہیں۔ آئی سے مراد آئس، ایس سے مراد شوگر اور ایل سے مراد لو ہے۔ لہٰذا اپنی زندگی پر آئی ایس ایل فارمولا اپلائی کریں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوشگوار زندگی گزاریں۔ یہ ایک ایسا فارمولا ہے جس سے انا اور خواہش دونوں ختم ہو جائیں گی۔ کوئی بھی چیز جب حد سے تجاوز کر جاتی ہیں اس میں یقیناََ برائی ہے۔ ہر بات میں اعتدال ہونا چاہیے، زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش ہرگز بری نہیں لیکن زیادہ کی خواہش بری ہے، یہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش انسان کو خوشیوں اور سکون سے محروم کر دیتی ہے۔
واصف علی واصفؒ نے فرمایا تھا کہ "خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے" ورنہ یہاں بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والے لوگ، خوشحال ہونے کے باوجود اندر سے خوش نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنے نصیب سے خوش نہیں ہوتے اور اگر ایک جھونپڑی میں رہنے والا اپنے نصیب پر خوش ہے تو یقین جانیے اس نے خوشی کا راز پا لیا۔ انسان ساری زندگی خوشی کی تلاش میں رہتا ہے اور خوشی کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے لیکن پھر بھی خوشی اس سے دور رہتی ہے کیوں؟
کیونکہ وہ اپنی زندگی کے ان لمحات کو ضائع کر دیتا ہے جو اسے خوشی دے سکتے تھے۔ زندگی کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ انسان جب پیچھے مڑ کر دیکھے تو اسے کسی گزرے لمحے یا اپنے کسی عمل پر پچھتاوا نہ ہو، کاش کا لفظ زبان پر نہ ہو۔ چند دن پہلے میرا ایک دوست مجھے ملنے آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ہم دو بھائی ہیں، اللہ کا شکر ہے دونوں انگلینڈ میں سیٹل ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں لیکن، میں نے پوچھا لیکن کیا؟ کہنے لگا! یار میں اور میرا بھائی ہم دونوں اپنے اچھے مستقبل کے لئے یہاں سے چلے گئے، ہمارے بوڑھے ماں باپ یہاں تھے۔
ہم نے ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا اور باقاعدگی سے پیسے بھی بھجواتے رہے، ان کے لیے ملازم بھی رکھے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں ہماری ضرورت تھی۔ ہم ان کے پاس بیٹھے تھے، ان کی باتیں سنتے، وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتے، انہیں تو یہ چاہیے تھا نا۔ انہوں نے ہمیں کبھی نہیں بولا تھا کہ واپس آ جاؤ، کیونکہ وہ ہماری بہتری چاہتے تھے لیکن انہوں اپنا بڑھاپا مشکلات میں گزارا، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ خوش نہیں تھے اور ماں باپ سے دور ہماری حالت بھی وہاں کچھ ایسی ہی تھی لیکن اچھے مستقبل نے ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔
کچھ عرصہ قبل میرے والد کا انتقال ہوگیا اور ہم دونوں بھائی ان کے جنازے پر بھی نہ پہنچ سکے۔ یار یہ بات مجھے اذیت دیتی ہے، ہم نے اپنی خوشی اور مستقبل کی خاطر اپنے بوڑھے ماں باپ کو اس وقت اکیلا چھوڑ دیا جب ان کو ہماری ضرورت تھی۔ ہم تھوڑا کما لیتے لیکن ہم ان کے پاس تو ہوتے، یوں ہم کرب میں مبتلا تو نہ ہوتے۔ جن ماں باپ نے اپنی پوری زندگی ہماری خوشیوں کے لئے قربان کر دی، ہم ان کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ہم مزید کی خواہش کے غلام بنے رہے۔
میں اپنے دوست کی باتیں سنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ زندگی میں کچھ باتوں کی تلافی ممکن ہوتی ہے کچھ کی نہیں۔ مجھے اس بات کا احساس بھی ہوا کہ زندگی میں ہر کام کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس کام کے اختتام پر کیا ہمیں حقیقی خوشی ملے گی یا پچھتاوا۔ اگر پچھتاوے کا ذرا برابر بھی امکان ہو اسے ترک کر دینا چاہیے اور ہر اس چیز کو اپنا لینا چاہیے جو وقتی طور پر بے شک تلخ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس کا انجام اچھا ہو۔ لہٰذا مہاتما بدھ کے بقول اگر ہمیں واقعی خوشی چاہیے تو پھر زندگی کے ہر کام میں ہمیں اپنی انا اور خواہش کو ختم کرنا ہوگا تب ہی خوشی مل سکے گی۔