Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Modern Darwesh

Modern Darwesh

ماڈرن دوریش

چولستان کے صحرا میں قلعہ ڈیراور کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں ڈیراور ہے۔ اُس گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر کے صحن میں ہم سب لوگ دائرہ میں بیٹھے تھے۔ 20نومبر کی یہ سرد رات تھی اور پندرہویں کا چاند یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے چودھویں کا چاند ہو اور اُس چاند کی روشنی سارے صحرا کو روشن کر رہی تھی۔ اور ہم دائرے کے درمیان خشک لکڑیوں کو آگ لگا کر "بون فائر" کا مزہ لے رہے تھے۔ ہم 35 کے قریب لوگ لاہور سے قلعہ ڈیراور اور چولستان کے صحرا میں پورے چاند کا نظارہ دیکھنے آئے تھے۔

رات دس بجے کا وقت تھا میں کبھی اپنے ہاتھوں کو گرم کرنے کے لیے آگ کے قریب کرتا تو کبھی اُن چھوٹے چھوٹے تاروں کو فضا میں اڑتے دیکھتا جو آگ لگی خشک لکڑی کے درمیان سے ٹوٹنے کی وجہ سے بنتے۔ کبھی میری نظر پورے چاند اور اُس کے گرد بنے ہالے پر پڑتی۔ میڈم سامیہ اسلم جو لاہور میں Cloud 9 wellness Studio چلا رہی ہیں۔ اُنہوں نے شیراز چشتی کو کہا کہ یہاں بیٹھے ہر شخص نے اپنا تعارف اور اپنی اُن خواہشات کا ذکر کر دیا جو زندگی میں وہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ شیراز بولا! میں میٹرک پاس ہوں اور ایک چھوٹی سے سرکاری نوکری کرتا ہوں۔ فوراً ہم میں سے دو تین دوستوں نے اکٹھے کہا نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔

ہم نے لاہور سے یہاں بہاولپور آتے ہوئے سارے رستے آپ سے دانش و حکمت بھری باتیں سنیں۔ یہ باتیں ایک میٹرک پاس نہیں کر سکتا۔ شیراز نے کہا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں میٹرک پاس ہوں اور آپ جن باتوں کو وزڈم اور تصوف کی باتیں کہہ رہے ہیں آپ یقین کریں میں نے یہ ساری باتیں آپ جیسے لوگوں سے سیکھی ہیں۔ مجھے بچپن سے سوشل سرکل بنانے کا شوق تھا۔ میں کسی بھی محفل میں ہوتا، میں ہر کسی سے بات کرتا ان کی زندگی کے تجربات سنتا رہتا اور یوں مجھے بہت سی باتوں کی سمجھ آنے لگی۔ حمزہ نے کہا لیکن پھر بھی۔۔ شیراز نے جذباتی انداز میں کہا یار اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں میڑک پاس ہوں یا پی ایچ ڈی ہوں۔

اصل بات تو یہ ہے کہ مجھے اچھا انسان ہونا چاہیے۔ میں دوسروں کی زندگی میں کتنی آسانیاں پیدا کر رہا ہوں۔ میں دوسروں کے لیے کتنا مفید ہوں۔ مجھے اللہ کی ذات پر کس قدر یقین ہے۔ کہیں میں اپنی خواہشات کا غلام تو نہیں ہو گیا۔ کہیں میں دوسروں کے لیے اذیت کا باعث تو نہیں بن رہا اصل بات تو یہ ہے۔ شیراز چشتی کی ساری باتیں درویشانہ تھیں۔ وہ اتنے خوبصورت انداز سے اپنی بات کر رہا تھا کہ سب کے دلوں پر اثر کر رہی تھیں۔

کہنے لگا ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے تو ہم صبر نہیں کرتے اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ صبر کر کے تو دیکھو پھر اللہ کیسے کیسے آپ کی مدد کرتا ہے تم خود حیران رہ جاؤ گے۔ آگ کی روشنی اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور وہ باتیں کرتا جا رہا تھا اور ہم سب اُس کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شیراز نے بتایاکہ ایک دفعہ ہم ایک ایسے ہی ایک ٹور پر کشمیر گئے۔ میری فیملی بھی میرے ساتھ تھی۔ ہم جب ہوٹل میں پہنچے تو کھانا کھاتے ہوئے میرا بیٹا جو دس سال کا ہے، مجھے کوئی بات بتا رہا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ میرا پَرس آپ نے گاڑی میں لیا تھا وہ مجھے دے دیں۔ میرا بیٹا بات کرتے کرتے رُک گیا اور پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو بولا بابا وہ تو شاید وہیں گر گیا۔ اب اُس پرس میں میرے کارڈ اور پیسے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں بیٹے کو ڈانٹتا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے اُسے کہا اچھا یار چھوڑ تم بتاؤ کیا کہ رہے تھے۔

وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے مجھ سے سوال کر رہا کہ مجھے ڈانٹا کیوں نہیں۔ میں بڑے دھیان سے اُس کی بات سنتا رہا۔ جب 20 منٹ تک اُس کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا اچھا اب بتاؤ تمہیں اُس وین کے ڈرائیور کی کوئی پہچان ہے۔ کہنے لگا بس یہی یاد ہے کہ اُس وین کے ڈرائیور کے دانت ذرا اونچے تھے۔ یہ نشانی لے کر میں اڈے پر گیا۔ وہاں ایک ڈرائیور نے اُس حلیہ کے ڈرائیور کے بارے میں بتایا اور اُس کا ٹیلی فون نمبر دیا۔ جب میں نے اُس سے فون کر کے پَرس کے بارے میں پوچھا تو ڈرائیور نے کہا میں وین سے پرس ڈھونڈتا ہوں اس نے تلاش کیا اور پرس مل گیاپھر میں اُس ڈرائیور کی بتائی جگہ پر پہنچا اور پرس مجھے مل گیا۔

شیراز اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی کی بات سنتے کم ہیں اور بولتے زیادہ ہیں۔ تم نے کبھی سوچا کہ اللہ نے ہمیں کان دو اور زبان ایک کیوں دی۔ مجھے اس میں یہ حکمت دکھائی دیتی ہے کہ کم بولو اور زیادہ سنو تو تم زیادہ سیکھو گےاور میں بس یہی کرتا ہوں۔ تھوڑے وقفے کے بعد شیراز گویا ہوا! کہ اللہ تعالی نے اس کائنات میں جو بھی چیز بنائی اس کا فائدہ اُس چیز کو خود نہیں ملتا۔ مثلاً سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، ہوا، یہ درخت، یہ پھل اور کھانے کی کوئی بھی چیز ہو ان کا فائدہ ان چیزوں کو خود تو نہیں ملتا یہ تمام چیزیں ہم انسانوں کے لیے ہیں۔ لیکن ہم انسان ہی ہیں جو صرف اپنے فائدے کا سوچتے ہیں۔

ہماری ذات سے دوسروں کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے یہ نہیں سوچتے۔ میں بھلا کسی کا کیا فائدہ کر سکتا ہوں بس اتنا کرتا ہوں کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں اور اللہ کریم میرے لئے آسانیاں پیدا فرماتا رہتا ہے۔ مجھے نہ کسی سے فائدے کا لالچ ہوتا ہے اور نہ کسی نقصان کا ڈر۔ آگ کی روشنی میں ہم سب کے چہروں پر پڑ رہی تھی اور ہم شیراز کی باتوں کو دھیان سے سُن رہے تھے۔ شیراز اُس وقت شہری بابو کم اور صحرا کا درویش ذیادہ لگ رہا تھا جو ہمیں اللہ پر توکل، تصوف اور معرفت کی باتیں بتاتا جا رہا تھا اور ہم یوں محسوس کر رہے تھے کہ شاید ہم سب اس چولستان میں اس درویش کی باتیں ہی سننے آئے ہیں۔

گرم چائے کے کپ سے بھاپ اُڑ رہی تھی۔ شیراز نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور بولا آپ حیران ہوں گے کہ میں نے وصیت کے طور پر بھی چند پوائنٹ لکھ کر گھر والوں کو دے دیے ہیں جس میں پہلی بات یہ ہے کہ جب میں مروں تو میرے اعضاء وقف کردیئے جائیں۔ میں مرنے کے بعد اگر کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو شاید یہی ہے۔ دوسری بات کہ میرا جنازہ میرا بیٹا پڑھائے گا۔ اگر میں اپنے بیٹے کو پوری زندگی میں اتنا بھی نہ سکھا سکوں کہ وہ میرا جنازہ ہی پڑھا لے تو باقی تعلیم کا کیا فائدہ۔ مجھے اپنے بیٹے سے بس ایک یہی فائدہ چاہیے باقی پیسے تو وہ کما ہی لے گا۔ تیسری بات یہ کہ میری ایک ہی بیٹی ہے مناہل، جس دن اُس کی شادی ہوگئی اسی دن اُس کے حصے کی پراپرٹی اُس کو دے دی جائے گی۔

چوتھی بات جو میں نے گھر والوں کو بتا دی ہے وہ یہ کہ میرے مرنے کے بعد مری قبر کے کتبے پر یہ فقرہ ضرور لکھوا دینا ہے کہ "میں اہم تھا یہی میرا وہم تھا" اور آخری بات کہ جب میں مروں تو میری تدفین کے بعد لوگوں کے لیے بہترین قسم کے کھانے کا اہتمام کرنا جیسے شادیوں پر مختلف کھانوں سے لوگوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ کیونکہ دنیا سے جاتے ہوئے بھی میں لوگوں سے ویسے ہی برتاؤ کروں جیسے میں زندہ ہوتے کرتا تھا۔

میڈم سامیہ بولیں! ایسے کب ہوتا ہے؟ یہ ہماری روایات نہیں ہیں اور پھر لوگ کیا کہیں گے؟ شیر از نے مسکرا کر کہا میں نے کبھی لوگوں کی پرواہ نہیں کی کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ مجھے تو صرف اِس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اللہ کریم کو کون سی بات پسند آئے گی اور کونسی نہیں۔

چولستان کے صحرا کی آدھی رات اور پورے چاند کی روشنی میں شیراز کی باتیں دل میں اتر رہی تھیں۔ شیراز بتانے لگا کہ کل میں اسلام آباد سے لاہور آ رہا تھا تو میرے دوست کا بیٹا میرے ساتھ آگیا، وہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی گاڑی اُسے دے دیتا ہوں وہ اپنے گھر میں کھڑی کر لے گا میں بہاولپور سے واپسی پر گاڑی دوست کے گھر سے لے لوں گا۔ شیراز نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب ہم لاہور سے رات بارہ بجے نکلے تو آدھے گھنٹے بعد مجھے اُس دوست کے بیٹے کی کال آئی تھی کہ انکل کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن گاڑی آگے سے کافی زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ تم ٹھیک ہو کوئی بات نہیں گاڑی کو کہیں کھڑا کر دو۔

آج میں سارا دن آپ لوگوں کے ساتھ رہا کسی نے میرے چہرے پر ذرا سی بھی پریشانی دیکھی؟ نہیں نہ۔ کیونکہ اگر گاڑی خراب ہو گئی ہے تو بھی مجھے اب یہاں پریشانی کی کیا ضرورت؟ ہم سب اُس وقت اُسے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ کمال ہے؟ یہ شخص سارا دن ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہا اور اس نےہم میں سے کسی کے ساتھ بھی اس واقعہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ اُس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو پریشانی سے اس کا بُرا حال ہو جاتا۔ ہمارے سارے گروپ کے لوگوں کی باتیں زندگی کے خوبصورت اسباق تھے لیکن شیراز کی گفتگو نےہمیں اللہ کریم پر توکل کا مفہوم سمجھا دیا۔

ہم قلعہ ڈیراور اور بہاولپور شہر کا دو دن کا ٹور مکمل کرنے کے بعد گھر آ گئےتو اگلے دن گروپ میں شیراز کا واٹس ایپ میسج آیا کہ میں جب اپنے دوست کے گھر پہنچا تو ذہن میں یہی تھا کہ دوست کے گھر سے گاڑی لے کر کسی ورکشاپ سے ٹھیک کروانے جاؤں گا۔ لیکن جب اس کے گھر پہنچا تو گاڑی بالکل ٹھیک حالت میں کھڑی تھی۔ دوست نے ایکسیڈنٹ سے اگلے دن گاڑی ٹھیک کروا دی تھی لیکن مجھے بتایا نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ جب آپ کا توکل اللہ پر مضبوط ہو تو آپ کے کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔

ہمیں بس دوسروں کے لئے مفید بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شیراز کے ساتھ یہ میرا دوسرا ٹور تھا۔ اِس سے پہلےمیں وادی قلاش کے ٹور پر بھی شیراز کے ساتھ سفرکر چکا تھا۔ لیکن بہاولپور کے اس سفر میں شیراز چشتی کے اندر کا صوفی جاگ گیا اور اُس صوفی نے ہمیں وہ رنگ دیکھائے جو اس سے پہلے ہم نے اُس میں نہ دیکھے تھے۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi