Mind Changer
مائنڈ چینجر
میٹرک کا رزلٹ آیا، میرے چند دوستوں نے کہا ہمارا فلاں فلاں کالج کا میرٹ بن گیا ہے۔ میں خاموشی سے ان کے منہ کی طرف دیکھتا رہا، مجھے معلوم نہ تھا کہ میرٹ کس بلا کا نام ہے۔ جب میرے سارے دوستوں نے مختلف کالجز میں داخلہ لے لیا تو ایک دن زاہد صاحب نے، جو ہمارے ہمسائے میں رہتے تھے اور انہوں نے ان دنوں بی۔ ایس۔ سی کا امتحان دے رکھا تھا۔
مجھے ریاضی اور فزکس کی کتاب دی اور کہا کہ کل سے آپ میرے پاس پڑھنے آجانا۔ میں سمجھا گیارہویں جماعت میں یہی کتابیں ہوتی ہیں۔ مجھے میٹرک میں اچھے نمبروں کے باوجود ایف ایس سی اور ایف اے میں فرق معلوم نہیں تھا، بس وڈی سائنس اور نکی سائنس کا نام سن رکھا تھا۔ زاہد صاحب نے مجھے ریاضی پڑھانا شروع کر دیا اور میں نے گورنمنٹ کالج ملکوال میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔
لیکن بدقسمتی سے کالج میں ریاضی کے پروفیسر کے علاوہ کوئی سائنس کا ٹیچر نہ تھا اور ریاضی کے ٹیچر کی بھی ایک لفظ کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ کلاس میں آتے اور وائیٹ بورڈ سے باتیں کرتے رہتے اور ہمارے پلے کچھ نہ پڑتا۔ بھلا ہو زاہد صاحب کا، جن کے ریاضی اور فزکس پڑھانے کی وجہ سے میں ایف ایس سی کر گیا۔ ان دنوں میرے والد صاحب آرمی سے ریٹائرڈ ہو کر فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال میں ایک معمولی سی نوکری کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کر کے مجھے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی ایس سی میں داخلہ لے دیا۔ بی ایس سی کے طلباء اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالج میں سائنس مضامین کی ٹیوشن کے بغیر امتحان پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک تو نصاب کافی زیادہ ہوتا ہے اور دوسرا پروفیسرز بھی کالج میں برائے نام ہی پڑھاتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں ٹیوشن پڑھ سکتا۔
میرے جو دوست ٹیوشن پڑھ کے آتے تھے، میں ان سے کچھ سوالات سمجھ لیتا تھا۔ 1998ء میں بی ایس سی کرنے کے بعد میں نے پڑھانا شروع کر دیا، مجھے آج بھی یاد ہے، مجھے پہلی ٹیوشن 600 روپے ملی تھی۔ تین چار سال میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھاتا رہا، جس سے میں ماہانہ پچیس، تیس ہزار روپے کما لیتا تھا۔
بی ایس سی تک میں نے سائنس کے نصاب کی کتابوں کے علاوہ ایک بھی کتاب نہیں پڑھ رکھی تھی، کیونکہ ہمارے کچھ اساتذہ نے ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ سائنس پڑھنے والے ہی معتبر لوگ ہوتے ہیں، آرٹس کے مضامین تو عام سے طالب علم پڑھتے ہیں۔ 2003ء میں میرے ایک کولیگ نے مجھے جاوید چوہدری کی کتاب "زیرو پوائنٹ" گفٹ کی۔ یہ میرے لئے صرف کتاب نہیں تھی بلکہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اس کتاب کے شروع میں جاوید چوہدری صاحب کی تحریر "مجرم حاضر ہے" پڑھی تو میں اس تحریر کے سحر میں گم ہو گیا۔ "زیرو پوائنٹ" پہلی کتاب تھی، جس نے میرے سوچنے کا زاویہ ہی بدل دیا۔ اس کتاب سے مجھے معلوم ہوا کہ میں تو آج تک مشینوں کا علم بڑھتا رہا ہوں، اصل علم تو یہ ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات، احساسات، اخلاقیات اور خود شناسی سے ہو۔
جاوید چوہدری صاحب کی دو تین کتابیں پڑھنے کے بعد تاریخ کے مضمون میں میری دلچسپی بڑھ گئی، میں نے پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم اے تاریخ کے لیے داخلہ بھیج دیا۔ پارٹ ون اور ٹو میں میں نے آخری دو دو ماہ خوب محنت کی، نوٹس بنائے اور زیادہ تیزی سے لکھنے کی پریکٹس کی۔ شائد اس سال تاریخ کے طالب علموں نے ٹھیک طرح سے تیاری نہ کی تھی اور مجھ نالائق کو موقع مل گیا۔
اور 3400 طلباء میں ایم اے میری پہلی پوزیشن آ گئی۔ ایف ایس سی کے بعد جب مجھے تعلیم کی کچھ سمجھ بوجھ آئی تو تب سے میری شدید خواہش تھی کہ میں لاہور کسی یونیورسٹی میں ریگولر پڑھتا، لیکن حالات نے مجھے موقع نہ دیا۔ 2006ء میں ایم اے میں اچھی پوزیشن کی وجہ سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں میرا ایم فل میں داخلہ ہو گیا، جہاں پڑھنا کبھی میرا خواب تھا۔
ایم فل کے دوران نصاب کی کتابوں کے علاوہ میں نے جاوید چوہدری کی کتاب "زیرو پوائنٹ" کے ساتوں والیم پڑھنے کے ساتھ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب کی "شہاب نامہ" اور کچھ اور کتابیں بھی پڑھ لیں۔ ایم فل ہسٹری کے بعد میں نے ملکوال میں پرائیویٹ سکول بنا لیا۔ مجھے یونیورسٹی تک پڑھنے کا موقع ملا لیکن زندگی کے جو سبق جاوید چوہدری صاحب کے کالمز نے سکھائے وہ کوئی کالج یا یونیورسٹی نہ سکھا سکی۔
جس شخصیت کی تحریروں نے مجھے محنت کرنا سکھایا، زندگی کے ہر پہلو میں میری رہنمائی کی، اس سے ملنے کی خواہش تو برسوں سے تھی۔ لیکن شاید ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے، اس سے پہلے لاکھ کوشش کے باوجود وہ کام نہیں ہو سکتا۔ زندگی کے 46 برس مکمل ہونے کے صرف 2 دن پہلے 29 اکتوبر کو لاہور میں سر جاوید چوہدری کا بزنس سیشن اٹینڈ کرنے کا موقع ملا، یہ بزنس سیشن کمال تو تھا ہی۔
لیکن مجھے جاوید چوہدری صاحب کی شخصیت نے بہت متاثر کیا۔ جاوید چوہدری کو اللہ نے جتنا مقام و مرتبہ دیا ہے یہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے اور اس مقام پر پہنچ کر اکثر لوگ مغرور ہو جاتے ہیں۔ لیکن جہاں جاوید چودھری صاحب کا ایک ایک لفظ دانش و حکمت سے بھرپور تھا وہی ان کی شخصیت میں عاجزی، اطمینان، سکون اور نفاست کمال کی تھی۔
لنچ بریک میں جب میں ہمت کرکے چودھری صاحب کے پاس بیٹھا اور اپنا تعارف کروایا تو مجھے نہیں معلوم کہ یہ جاوید چوہدری صاحب کی طلسماتی شخصیت کا کمال تھا یا اٹھارہ برسوں سے میرے دل میں ان کے لیے احترام و عقیدت کا اثر کہ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ چودھری صاحب نے مجھے کہا کہ آپ یہ پیزا کھائیں۔ کھانا سیر ہوکر کھانے کے باوجود میں نے پیزا کا ایک پیس لیا۔
کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کے استاد کی دی کسی چیز سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ میں جاوید چوہدری صاحب کو یہ بتانا چاہتا تھا کے آپ کی تحریروں نے زندگی میں کہاں کہاں میری رہنمائی کی لیکن یہ موقع تھا اور نہ ہی وقت۔ میں بزنس مین نہیں ہوں ایک استاد ہوں اور ایک استاد کی حیثیت سے جاوید چودھری صاحب کی تحریروں سے ہمیشہ رہنمائی لیتا آیا ہوں۔
لیکن اس بزنس سیشن نے مجھے زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کے قابل بنایا، یہ سیشن حقیقتا ایک مائنڈ چینجر کا مائنڈ چینجنگ سیشن تھا۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم جاوید چوہدری صاحب کو صحت والی لمبی زندگی دے اور وہ اسی طرح مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدلتے رہیں۔