Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Marne Se Pehle Na Marna

Marne Se Pehle Na Marna

مرنے سے پہلے نہ مرنا

دسمبر کی خنک شام تھی اور ہم ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھے کافی پی رہے تھے، خرم نے کافی کا ایک گھونٹ لیا کپ میز پر رکھا اور گویا ہوا، میرے والد کی کریانہ کی چھوٹی سی دکان تھی، انہوں نے بے انتہا محنت کی اور ہم پانچ بہن بھائیوں کو اچھی تعلیم دلوائی۔ سب بہن بھائیوں میں سب سے نکما میں نکلا جو کم پڑھا، صرف بی اے کر سکا اور کاروبار میں آگیا۔ اللہ تعالی نے اپنا خاص کرم اور رحم کیا اور میرا کاروبار چل نکلا۔

آج میرے پاس تقریبا چار سو لوگ کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے مجھے سب کچھ دیا، میں خود تو غربت میں پڑا، لیکن آج میرے بچے ایک اچھے پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ بیوی اچھی ملی اور اللہ نے گھر اور گاڑی بھی بہت اچھی عطا کر دی۔ غرض اللہ کا بے شمار کرم ہے، خرم، سعید کا دوست تھا اور سعید نے ہی میری ملاقات اس سے کروائی تھی۔ خرم بولا لیکن، لیکن کیا؟ میں نے پوچھا؟

اس کے لہجے میں اداسی تھی، اس نے کافی کا کپ میز پر رکھا اور دوبارہ گویا ہوا، لیکن میں اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہوں، میرے اندر خوشی اور سکون نہیں ہے۔ ان سب کامیابیوں کے باوجود مجھےخالی پن کا احساس ہوتا ہے، کوئی کمی ہے۔ جو میری روح کو خوش نہیں ہونے ہوتی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں اتنا زیادہ کام کیوں کر رہا ہوں اور اتنا زیادہ کامیاب ہونے کے بعد مجھے اندر سے خوشی کیوں نہیں ہے؟

وہ کہنے لگا، میرے ماں باپ جب تک زندہ تھے، مجھے کوئی بھی کامیابی ملتی تھی تو میں ان کے پاس جاتا، تو ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر مجھے اور زیادہ کام کرنے کی موٹیویشن ملتی، میرا جی چاہتا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ کام کروں۔ اپنے والدین اور بچوں کے لیے زیادہ آسانیاں پیدا کروں، لیکن والدین کے اس دنیا سے جانے کے بعد میرا کام کرنے کو جی نہیں چاہتا اور نہ ہی کسی بھی کامیابی پر اب پہلے کی طرح خوشی محسوس ہوتی ہے۔

میں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا تم ٹھیک کہہ رہے ہو، جب تک ہماری زندگیوں میں"آرگینک موٹیویشن"ہوتی ہے، ہم دل لگا کر کام کرتے ہیں اور اس موٹیویشن کی وجہ سے ہے۔ ہم آگے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ "آرگینک موٹیویشن" ہمیں اپنے ماں باپ، بہنوں بھائیوں اور اپنے ان قریبی رشتوں سے ملتی ہے۔ جن کے ساتھ ہم نے اچھا برا وقت ساتھ گزارا ہوتا ہے۔ تمہارے والدین اس دنیا میں نہیں رہے۔

لیکن تمہارے بہن بھائی اور بہت سے ایسے رشتہ دار جو معاشی طور پر آگے نہیں بڑھ سکے، تم ان کی مدد کرنا شروع کر دو۔ ان کے ساتھ کبھی کبھی وقت گزارا کرو، اپنی اس کامیابی میں ان کو بھی شریک کرو اور آپ ان چار سو ورکرز کو بھی، جو تمہارے پاس کام کر رہے ہیں۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھو، ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرو جو اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے۔

جو والدین غربت کی وجہ سے اپنی بچیوں کی شادیاں نہیں کروا پا رہے، تم ان والدین کے لئے آسانی پیدا کرو۔ تم یقین جانو تمہاری یہ کیفیت نہیں رہے گی، تم حقیقی معنوں میں اندر سے مطمئن ہو جاؤ گے۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ انسان کی امید جب اندر سے ختم ہو جاتی ہے، تو اس کا کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ شاید یہ امید ہی ہوتی ہے۔ جو ہمیں اندر سے ہشاش بشاش اور توانا رکھتی ہے۔

اچھی نوکری یا کاروبار کی امید، اپنے والدین کو خوش رکھنے کی امید، یہ امید جو ہمیں اپنے بہن بھائیوں اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں یا اپنے ساتھ جڑے لوگوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں میں کسی نہ کسی امید سے وابستہ ہوتے ہیں تو، زندگی رواں دواں رہتی ہے، امید ختم تو زندگی بھی ختم۔ ہم سب کو اچھے کاروبار، گھر، گاڑی اور ضرورت کی ہر چیز کی خواہش ہوتی ہے، مگر ان ساری چیزوں کے مل جانے کے بعد بھی ہم اکثر اندر سے خالی کیوں رہ جاتے ہیں۔

اس لیے کہ ہمیں ان مادی چیزوں کے ساتھ روح کی خوشی بھی چاہیے ہوتی ہے۔ جو ہمیں صرف اپنوں سے ہی ملتی ہے۔ میرے ایک بزرگ دوست ہیں، قیوم صاحب، 2008 میں 57 سال کی عمر میں وہ بیمار ہوئے، ریڑھ کی ہڈی میں مسئلہ بنا اور وہ چلنے پھرنے سے بھی محروم ہو گئے۔ اڑھائی ماہ وہ شیخ زید ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد گھر شفٹ ہوگئے، وہ چلنے پھرنے والے بندے تھے۔

لیکن یوں اچانک بیماری نے انہیں مایوس کر دیا۔ چھ ماہ بعد کسی کے سہارے وہ باہر نکلنا شروع ہوئے اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے لگے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ یہ چمتکار کیسے ہوا؟ تو بتانے لگے کہ میں چھ ماہ تک جب اسی مایوسی کی حالت میں گرفتار رہا، تو ایک دن میرا ایک دوست جو میرے ساتھ جاب کرتا تھا، میری عیادت کے لیے آیا۔ اس نے مجھے میری اس مایوسی کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگا یار قیوم، ایک بات یاد رکھنا "مرنے سے پہلے نہ مرنا"۔

وہ کہنے لگے کہ بس اس کے ایک فقرے نے میرے سوچنے کا زاویہ بدل دیا، صحت والی زندگی گزارنے کی امید لگا لی، اور میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اپنی آخری سانس تک ہمت نہیں ہاروں گا۔ 14 سال سے میں خود چل پھر نہیں سکتا، کسی کے کندھے کے سہارے چلتا ہوں، لیکن اس کے باوجود میں کسی عام آدمی کی نسبت زیادہ ایکٹیو ہوں۔ ان کی بات بالکل ٹھیک تھی، 72 سال کی عمر میں اس معذوری کے باوجود میں نے ہمیشہ انہیں ایکٹیو دیکھا۔

انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی امید، موٹیویشن اور حوصلہ اسے مایوس نہیں ہونے دیتا۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ بھی زندگی میں کوئی ایک ٹارگٹ نہ رکھیں۔ ایک ہی وقت میں آپ کے چار، پانچ ٹارگٹس ضرور ہونی چاہیے، اگر کوئی ایک ٹارگٹ آپ اچیو کرلیں تو آپ کے پاس دوسرا ٹارگٹ ہو، پھر تیسرا، چوتھا پانچواں۔ ایک ٹارگٹ اچیو کر لیں تو اس کے ساتھ ہی کوئی نیا کام شروع کر دیں، اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی نیا کام ضرور کرتے رہیں، کیونکہ ہر نئے کام کے ساتھ ایک نئی امید وابستہ ہوتی ہے، اور وہی امید انسان کو حوصلہ دیتی ہے، لہذا یہ امید ہی درحقیقت اصل زندگی ہے۔

Check Also

Qissa e Pareena

By Dr. Ijaz Ahmad