Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Khushi Ka Raaz

Khushi Ka Raaz

خوشی کا راز

یار پتا نہیں کیا ہے، صحت خراب ہے یہ کیا چکر ہے، عجیب صورتحال ہے۔ کل پرسوں سے، بلکہ تین چار دن سے میں بہت ہی فیڈاپ ہوں، اس اے سی شپ سے میں زندگی میں سکون چاہتا ہوں، کوئی نامعلوم سی زندگی ہو جہاں کوئی ذمہ داری نہ ہو، مطلب ایسی ذمہ داری ہو، جس سے آپ مطمئن ہوں کہ آپ سو فیصد صحیح کام کر رہے ہیں۔ مجھے آج کل بہت عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔

اگر اسی اے سی شپ میں کل، جب آپ مر جائیں گے، قیامت آئے گی اور آپ سے جب پوچھا جائے گا، ایک ایک بندے کا حساب ہوگا تو ہم کس کس کا حساب دیں گے، عجیب سا گلٹ(شرمندگی) ہوتا ہے۔ مجھے، اللہ خیر کرے۔ میں نہیں جانتا پتہ نہیں کیوں پچھلے پانچ چھ دن سے میں ایک بات کو بہت زیادہ محسوس کر رہا ہوں، ایک ایک بندے کا گناہ بھی ہمارے ذمے ہے اور ثواب توہم پتا نہیں کتنا کماتے ہیں، بہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔

چاہ رہا ہوں یہ چھوڑوں اے سی شپ، ڈی سی شپ اور یہ سارے ڈرامے اور کوئی ایسی جگہ ہو، جہاں بندہ سکون سے جائے اور شام کو آرام سے گھر آئے، اللہ اللہ خیر صلہ، عجیب صورتحال ہے۔ میں صحیح طور پر وضاحت نہیں کر سکتا، یہ وہ آخری وائس میسج تھا۔ جو پتوکی کے اسسٹنٹ کمشنر راجہ قاسم محبوب نے ایک قریبی دوست کو کیا تھا۔

اس میسج کے تین چار دن بعد راجہ قاسم ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے۔ اس طرح کے روڈ ایکسیڈنٹ اور المناک واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن راجہ قاسم کے وائرل ہونے والے وائس میسج نے اس ایکسیڈنٹ کی خبر کو اہم کر دیا۔ اس لئے کہ یہ وائس میسج اکیلے راجہ قاسم کی ہی دل کی آواز نہیں تھے، بلکہ یہ اس جیسے ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے دلوں کی ترجمانی کر رہے تھے، جو بڑے بڑے عہدوں پر تو ہوتے ہیں۔

لیکن دل سے مطمئن زندگی نہیں گزار رہے ہوتے۔ بظاہر بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونا، ہم سب کی خواہش ہوتا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کسی بڑے عہدے پر پہنچنے پر خوش بھی ہوں گے یا نہیں میں چونکہ ایک استاد ہوں، اس لیے مجھے بہت سے والدین سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، مجھے اکثر والدین اس وجہ سے پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے بچے کے نمبرز سو فیصد کیوں نہیں آئے۔

وہ معصوم بچے جو ابھی پری سکول یا پرائمری لیول پر ہوتے ہیں، ہم ان سے بھی بس ایک ہی چیز کی توقع رکھتے ہیں سو فیصد نمبرز۔ کسی بچے کی قابلیت ماپنے کا ہمارے پاس بس ایک اصول ہوتا ہے نمبرز، اور ان نمبروں کے حصول کے لیے ہم کیا کیا کوشش نہیں کرتے۔ صبح سویرے 6 بجے بچہ اٹھتا ہے، پہلے قاری صاحب کے پاس پڑتا ہے پھر تقریبا آٹھ بجے سے دو اڑھائی بجے تک سکول۔

آدھا گھنٹہ ریسٹ، پھر شام چھ سات بجے تک ٹیوشن یعنی پورے دن میں بچے کے پاس ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوتا جب وہ اپنی مرضی سے کھیل کود سکے، اکسر سائز کر سکے، جس سے اس کی صحت بہتر ہے۔ یہ صورتحال پلے گروپ سے شروع ہوتی ہے اور ایف اے، ایف ایس سی تک ہم نے اسی روٹین میں بچوں کو ڈالا ہوتا ہے۔ اس میں والدین کا بھی قصور نہیں ہمارا تعلیمی نظام ہی ایسا ہے۔

کہ جس میں ایک بچہ گدھوں کی طرح رات دن ایک نہ کرے تب تک، اس کے اچھے نمبرز نہیں آتے اور ہم بھی صرف اس بچے کو قابل سمجھتے ہیں۔ جس کے کسی بھی امتحان میں فل نمبرز ہوں، لیکن افسوس کبھی ہم نے بحیثیت والدین، استاد یا بحیثیت قوم یہ سوچا کہ اتنا زیادہ پڑھا لکھا ہونے، ڈاکٹر یا انجینئر بن جانے، اے سی، ڈی سی یا کوئی بھی بڑا عہدہ مل جانے سے ہم اندر سے بھی مطمئن ہوتے ہیں؟

کیا ہم کسی بڑے مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی اندر سے خوش ہوں گے؟ والدین ہمیشہ بچوں کا اچھا مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کاش ہم یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو اس روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی میں خوش رہنے کا فن بھی سکھائیں اور خوشی ہمیشہ دوسروں کو خوشی دینے سے ہوتی ہے، دوسروں سے محبت، قربانی، ایثار اور احساس کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق کام کرنے دینا چاہیے، کسی جماعت میں، کسی سکول میں، ضلع میں، صوبے میں ٹاپ کر لینے والا بھی زندگی گزار لیتا ہے اور ایک درمیانے درجے کا طالب علم بھی، لیکن اصل بات یہ ہوتی ہے کہ کس نے کتنی مطمئن زندگی گزاری۔ چند ماہ قبل ہم وہ تمام دوست ایک جگہ اکٹھے ہوئے، جنہوں نے میٹرک اکٹھے کیا تھا۔

زندگی کے اس ریلے میں ہم سب الگ الگ شعبوں اور الگ الگ جگہوں میں بکھرے ہوئے تھے، کچھ دوست ایسے بھی تھے۔ جن سے میری ملاقات 28 سال بعد ہوئی۔ 30، 35 دوستوں میں اس وقت کے ٹاپر بھی تھے، میڈیاکر بھی اور کلاس میں تھوڑے سے نمبرز لینے والے بھی، لیکن میں نے وہاں محسوس کیا کہ ہم میں سے جتنے بھی ٹاپرز تھے وہ کسی نہ کسی اچھی پوسٹ پر کام تو کر رہے تھے۔

لیکن وہ اندر سے خوش نہیں تھے، وہ اس سے بھی کسی بڑے عہدے پر پہنچنا چاہتے تھے اور وہ دوست جو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار یا کوئی دوکان چلا رہا تھا، وہ اپنی زندگی سے مجھے زیادہ خوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھا۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ ضروری تو نہیں کہ بڑا عہدہ، زیادہ پڑھا لکھا ہونا اور زیادہ پیسے کا ہونا انسان کو حقیقی خوشی دے سکتا ہے۔

ایم فل کے دوران ایک پروفیسر ڈاکٹر افتخار الاول جو بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے، ہمیں"اکنامک ہسٹری آف انڈیا" پڑھاتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے کہا سر، آپ کی جاب بہت اچھی ہے، آپ ایچ ای سی کی طرف سے یہاں گورنمنٹ کالج لاہور میں سلیکٹ کیے گئے ہیں، آپ کی تنخواہ اور مراعات بھی بہت اچھی ہیں، ایسی نوکری تو کسی کا بھی خواب ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب ایک لمحہ خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر گویا ہوئے، اس کامیابی کے لیے میں نے بہت سی خوشیاں قربان کر دیں، میں پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ میں تھا۔ اس دوران میری بہنوں کی شادی ہوئی اور میں وہاں موجود نہیں تھا، اسی دوران میری والدہ کا انتقال ہوگیا میں ان کے آخری ایام میں بھی ان کی خدمت کر سکا نہ ان کے جنازے میں شریک ہو سکا۔

میں اس پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے گھر سے دور رہا، اپنے بچوں کو بھی وقت نہ دے سکا، جو مجھے دینا چاہیے تھا، بظاہر میں آپ کے سامنے ایک کامیاب شخص بیٹھا، لیکن مجھ سے اچھا تو میرا وہ بھائی نکلا، جو وہیں ڈھاکہ میں ایک جنرل اسٹور چلاتا ہے، وہ مجھ سے خوش حال بھی ہے، خوش بھی اور مطمئن بھی۔ مجھ سے زیادہ اس نے والدین کی خدمت کی، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں نے زندگی سے کیا حاصل کیا؟

ایک بڑے عہدے کے حصول نے میری چھوٹی چھوٹی ساری خوشیاں چھین لیں، وہ خاموش ہو گئے تھے۔ ایک دن لیکچر کے دوران ہی انہیں اطلاع ملی کہ ڈھاکہ میں ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اسی دن ہی واپس چلے گئے۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم جس ترقی، جس عہدے اور جس مقام کے لئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ وہ مل جانے کے بعد کیا ہم دل سے مطمئن اور خوش بھی ہوں گے؟

اگر نہیں تو پھر ہماری حقیقی خوشی کس میں ہے۔ یہ کروڑ روپے کا سوال ہے، جس شخص کو اس سوال کا جواب مل گیا وہ زندگی میں خوش رہنے کا راز بھی پا جائے گا، وہ راجہ قاسم محبوب کی طرح دلبرداشتہ کبھی نہیں ہوگا۔ اللہ کریم راجہ قاسم محبوب کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi