Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Khushi Ka Hasool

Khushi Ka Hasool

خوشی کا حصول

کرسٹوفر اپنے والد کرس گارڈنر کے ساتھ باسکٹ بال کھیل رہا تھا، وہ بار بار کی کوشش کے باوجود بال باسکٹ میں پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ گارڈنر اپنے بیٹے کو کہتا ہے تم باسکٹ بال نہیں کھیل سکتے اور نہ اچھے کھلاڑی بن سکتے ہو لہٰذا تم یہ نہ کھیلو۔ کرسٹوفر جو ابھی صرف چھ سال کا ہے بال کو شاپر میں رکھ کر سر جھکا لیتا ہے۔ کرسٹوفر جب اس مایوسی کے عالم میں کھڑا ہوتا ہے تو اس کا والد کرس گارڈنر اسے کہتا ہے کہ ایک بات یاد رکھنا۔

"اگر تمہیں کوئی یہ بات کہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے تو تم اس کی بات کبھی نہ ماننا، چاہے یہ بات تمہیں میں ہی کیوں نہ کہوں، جو تمہارا خواب ہے اسے پورا کرو، جو خود کچھ نہیں کر سکتا وہ دوسروں کو نیچے گرانے کی ہمیشہ کوشش کرتا ہے"۔

کرس گارڈنر نے یہ بات اپنے بیٹے کو اس وقت کہی جب وہ انتہائی غربت میں دن گزار رہا تھا اور اپنے بیٹے کی خواہش پر اسے باسکٹ بال کے کوٹ میں لایا تھا۔ کرس گارڈنر آج امریکہ کا کامیاب بزنس مین، موٹیویشنل اسپیکر اور امیر ترین شخص ہے، جس نے اسٹاک ایکسچینج میں ایک ٹرینی کی حیثیت سے کام شروع کیا اور امریکہ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ وہ امریکہ کا امیر ترین شخص کیسے بنا اور اس نے اپنی خوشی کے حصول کے لیے کون کون سی تکلیفیں اٹھائیں؟

یہ کہانی انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ کہانی ہر اس شخص کے لیے ہے جو کچھ ناکامیوں کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ وہ زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا۔ کرس گارڈنر 9 فروری 1954ء کو وسکانسن امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی مشکلات سے بھری رہی، 1977ء میں اس نے شیری نامی لڑکی سے شادی کی جو ریاضی کے مضمون کی ماہر تھی لیکن گارڈنر کے میڈیکل کیریئر میں آنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور یہ شادی نہ چل سکی۔

میڈیکل کی جاب کے دوران ہی گارڈنر کی ملاقات میڈینا (Medina) سے ہوئی، شادی ہوئی اور 1981ء میں ان کے ہاں بیٹا کرسٹوفر پیدا ہوا۔ اپنی تمام جمع پونجی لگا کر گارڈنر نے کچھ اسکینرز مشینیں خریدیں تاکہ انہیں بیچ کر وہ خوشحال زندگی گزار سکے لیکن بڑی محنت کے باوجود وہ پورے مہینے میں صرف ایک دو مشینیں ہی بیچ پاتا اور ان سے صرف 300 سے 400 ڈالرز کما پاتا جس سے گھر کے اخراجات چلانا مشکل تھا۔ وہ جس کرائے کے گھر میں رہتا تھا، تین تین چار چار ماہ تک وہ اس کا کرایہ ادا نہیں کر پاتا تھا۔

اس کی بیوی کی کمائی سے ہی کسی حد تک گھر کا خرچ چلتا۔ گارڈنر کی بے روزگاری سے اس کی بیوی بھی تنگ آگئی، مالی مشکلات کی وجہ سے دن بدن ان دونوں کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے۔ ایک دن گارڈنر جنرل ہسپتال سان فرانسکو میں اپنی مشین بیچنے کے لیے گیا تو دروازے پر اسے سرخ رنگ کی فراری سے نکلتا ایک شخص نظر آیا جو بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ گارڈنر نے اس سے صرف دو سوال پوچھے کہ تم کیا کرتے ہو اور اسے کیسے مینج کرتے ہو؟

وہ شخص بولا کہ میں اسٹاک بروکر ہوں اور اسی کمائی سے میں نے یہ فراری خریدی۔ کرس گارڈن وہاں ایک لمحے کے لیے رکا اور اسی لمحے اس نے اسٹاک بروکر بننے کا فیصلہ کر لیا۔ جب یہ بات اس نے اپنی بیوی کو بتائی کہ میں سیلز مین کا کام چھوڑ رہا ہوں اور اسٹاک مارکیٹ میں کام شروع کرنا چاہتا ہوں تو اس کی بیوی نے اس کا مذاق اڑایا، کیونکہ وہ گارڈنر کی ناکامیوں سے تنگ آ چکی تھی، اسے گارڈنر کی کسی بات پر یقین نہیں تھا۔ اسی بات پر دونوں کے درمیان جھگڑا بڑھا اور وہ اپنے بیٹے اور گارڈن کو چھوڑ کر یورپ چلی گئی۔

اب کرس گارڈن کی زندگی میں دو چیلنجز تھے، اپنے بیٹے کرسٹوفر کی پرورش اور روزگار کی تلاش۔ گارڈنر نے اسٹاک مارکیٹ میں ایک ٹرینی کی حیثیت سے بنا تنخواہ کے کام شروع کیا۔ چھ ماہ کی اس ٹریننگ کے دوران کرایا نہ ادا کرنے کی وجہ سے مالک مکان نے گھر خالی کروا لیا اور وہ اپنے بیٹے کو لے کر در بدر کے دھکے کھانے لگا۔ اسے رہنے کے لیے کہیں جگہ نہ ملی وہ یہاں تک مجبور ہوگیا کہ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک سرد رات ریلوے اسٹیشن کے واش روم میں گزارنا پڑی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔

جب اسے رہنے کے لیے کہیں جگہ نہ ملی تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ چرچ میں رہنے پر مجبور ہوگیا۔ ان ساری تکلیفوں کے باوجود وہ اپنے بیٹے کو حوصلہ دیتا رہا کہ ایک دن ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ وہ ہر روز اپنے بیٹے کو ایک معمولی ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ کر آفس جاتا، وہ اپنا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتا تھا۔ بار بار واش روم جانے کے ڈر سے وہ پانی تک نہ پیتا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ چھ ماہ کے بعد جب امتحان ہوگا تو ان 20 ٹرینیز میں سے صرف ایک کو ہی یہاں نوکری ملے گی۔

جس کام کی خاطر اس کی بیوی اسے چھوڑ گئی، گھر خالی کرا لیا گیا وہ اس موقع کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ رات جب چرچ کی لائٹ بھی بند کر دی جاتی ہیں تو وہ سٹریٹ لائٹ پر پڑھتا رہتا، اس نے اس حد تک محنت کی کہ چھ ماہ بعد جب تمام ٹرینیز کا امتحان ہوا تو کرس گارڈن پہلے نمبر پر تھا۔ زندگی میں اسے ہر جگہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ہمت ہاری اور نہ کبھی ناامید ہوا۔

آخری امتحان کے بعد جب انٹرویو کے لیے کرس گارڈن کو بورڈ ممبرز نے بلا کر یہ کہا کہ کیا تم یہاں اسٹاک بروکر کی حیثیت سے کام کرنا پسند کرو گے؟ تو اس لمحے خوشی کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ کیونکہ یہاں تک پہنچنے کے لیے اس نے بہت سی تکالیف اٹھائیں اور دن رات ایک کر دیا۔ اگلے ہی دن اس نے اسٹاک بروکر کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ سخت محنت کرکے 10 ہزار ڈالرز کمائے اور ان پیسوں سے اس نے 1987ء میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بروکر ایج فرم (Brokerage Firm) کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور اس کمرے میں صرف ایک میز اور کرسی تھی، یہی کمپنی بعد میں ملین ڈالرز کمپنی بنی۔

کرس گارڈنر نے اپنی یہ کمپنی 2006ء میں ملٹی ڈالرز میں فروخت کی اور اس کے بعد کرسٹوفر گارڈنر انٹرنیشنل کا سی ای او بن گیا۔ کرس گارڈنر جس کے پاس کبھی رہنے کی جگہ نہ تھی، دو وقت کی روٹی کھانے کے لیے اسے اپنا خون تک بیچنا پڑا اور وہ ریلوے اسٹیشن کے باتھ روم میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوا، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہی گارڈنر جب جنوبی افریقہ کے دورے پر گیا تو نیلسن منڈیلا جیسے عظیم لیڈر نے اسے ویلکم کیا۔

وہ گارڈنر جیسے کبھی چرچ میں رہنے کے لیے ہر روز قطار میں لگنا پڑتا تھا، ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے اسی چرچ کو 50 ملین ڈالرز دیے تاکہ وہاں رہنے والوں کے لیے کپڑے اور جوتے خریدے جا سکیں۔ ہالی ووڈ نے کرس گارڈنر کی جدوجہد سے متاثر ہو کر ایک شاندار فلم بنائی جس کا نام پریسیوٹ آف ہیپینس (The persuit of happyness) ہے۔ یہ فلم ہر اس شخص کے لیے ہے جو زندگی کی ٹھوکروں سے تنگ آ کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ کبھی کچھ نہیں کر سکتا۔ نوجوان نسل کے لیے کرس گارڈنر کی کہانی کسی موٹیویشن سے کم نہیں۔

ایسی موویز سکول اور کالجز کے بچوں کے نصاب کا حصہ ہونی چاہیے۔ گارڈنر کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر آپ کو خود پر بھروسہ ہو کہ آپ کامیاب ہو سکتے ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ساری دنیا آپ کے خلاف ہو۔ جیتتا وہی ہے جس کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے۔ دنیا میں کون سا ایسا شخص ہے جو خوشی نہیں چاہتا لیکن اپنی خوشی کے حصول کی خاطر کیا وہ اتنی محنت بھی کرتا ہے جتنی اسے کرنی چاہیے؟ نہیں۔

آج المیہ یہ ہے کہ ہر نوجوان راتوں رات کامیابی کی اس منزل پر پہنچنا چاہتا ہے جہاں لوگ کئی سالوں کی مسلسل محنت کے بعد پہنچتے ہیں۔ خواب ضرور دیکھنے چاہیے لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے جو محنت درکار ہوتی ہے وہ بھی تو کرنی چاہیے۔ جس کامیابی کے پیچھے آپ کی سالوں کی محنت اور تجربہ ہوتا ہے اسے آپ تا دیر انجوائے کر سکتے ہیں اور ایسی کاامیابیاں جو آج کل کے دور میں سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم سے اچانک وائرل ہونے سے ملتی ہیں یہ بس وقتی ہوتی ہیں۔ لہٰذا اپنی خوشی کے حصول کی خاطر کرس گارڈنر کی طرح آپ بھی اتنی محنت کریں کہ کامیابی کو بھی آپ پر ترس آ جائے۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi