Kartarpur Mein Guzra Aik Din
کرتارپورمیں گزرا ایک دن
کرتار پور سکھوں کے لیے انتہائی مقدس زمین ہے جہاں بابا گرو نانک کی وفات ہوئی، گوردوارہ سری دربار صاحب کے اردگرد کے احاطے میں کوئی بھی وزٹرز ہو، وہ جوتے اُتار کر ہی وہاں جاتا ہے۔ لیکن میں نے کرتارپور کے چھوٹے سے بازار میں بھی مختلف ممالک سے آئے سکھوں کو عقیدت کی وجہ سے ننگے پاؤں گھومتے دیکھا۔ ہم آٹھ دوست، بابا گورو نانک کی جائے وفات دیکھنے 2 جنوری، اتوار کو دن بارہ بجے کرتار پور پہنچے۔ ڈاکٹر غلام عباس نے پہلے ہی وہاں پروٹوکول لگوا رکھا تھا، ضروری سکیورٹی کلیئرنس اور کارڈ لینے کے بعد ہم "درشن ڈیوڑی" پہنچے۔
کیونکہ یہ سکھوں کا مقدس ترین مقام ہے، اس لئے کوئی بھی یہاں آئے، اسے سر پر ٹوپی یا کپڑا باندھ کر ہی اندر جانا پڑتا ہے۔ سر ڈھانپنے کے بعد ذاکر ہمیں اس جگہ لے گیا، جہاں بابا گرو نانک کی وفات ہوئی۔ روایت کے مطابق بابا گرو نانک کی وفات پر ان کی آخری رسومات کے حوالے سے، مسلمانوں اور ہندوؤں میں جھگڑا ہوگیا، دونوں اپنی اپنی مذہبی رسومات کے مطابق ان کی آخری رسومات ادا کرنا چاہتے تھے، اس جھگڑے کے دوران جب مسلمان اور ہندو اندر کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ، بابا گرونانک کا جسم غائب تھا اور اس کی جگہ ایک چادر اور دو پھول پڑے تھے۔
وہ چادر ہندو اور مسلمانوں نے آپس میں آدھی آدھی تقسیم کر لی، لہٰذا جو چادر مسلمانوں نے لی اسے وہیں دفن کردیا گیا، جہاں آج کل ایک چبوترا بنا ہوا ہے، جب کہ ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق اس چادر کے ٹُکڑے کو جلا دیا، اور اس کی راکھ کو بھی وہی ساتھ دفن کر دیا۔ ہم نے وہ دونوں جگہیں دیکھیں اور اس کے بعد ذاکر ہمیں گردوارہ کے اوپر والےحصے میں لے گیا، جہاں چند سکھ اپنی مذہبی رسومات کے مطابق میوزک کے ساتھ بابا گرونانک کی تعلیمات کا ذکر کر رہے تھے، اور ان کے سامنے "گرنتھ صاحب" بھی موجود تھی۔
"گرنتھ صاحب" کو سکھ ازم میں انتہائی مقدس مقام حاصل ہے، سکھ "گرنتھ صاحب" کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں، یہ مقدس کتاب سکھ مت کے دس میں سے چھ گروؤں کے علاوہ، بعض بزرگوں اور عقیدت مندوں کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔"گرنتھ صاحب" کو "سکھ مت" میں سب سے زیادہ بالادستی حاصل ہے، اور اسے سکھ مت کا گیارہواں اور آخری گرو تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں وہ کمرہ بھی دکھایا، جہاں عبادت کے بعد "گرنتھ صاحب" کو رکھا جاتا ہے، سکھ چونکہ "گرنتھ صاحب" کو زندہ تصور کرتے ہیں، اس لیے اس کمرے کے درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کے لیے وہاں اےسی اور ہیٹر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جہاں "گرنتھ صاحب" کو رکھا جاتا ہے۔
بابا گرو نانک نے 15 اپریل 1469ء کو لاہور کے قریب رائے بھوئی کی تلونڈی، موجودہ ننکانہ صاحب میں جنم لیا، بابا گرو نانک کے والد کا نام کالو داس تھا، جب نانک پیدا ہوئے تو ایک سادھو نے پیشن گوئی کی کہ یہ بچہ ایک عظیم انسان بنے گا، بچپن میں گرونانک کم گو تھے، کالو داس نے اپنے بیٹے کو سات سال کی عمر میں، ابتدائی تعلیم کے لئے ایک مسلمان عالم دین سید حسن کے پاس بھیجنا شروع کر دیا، جہاں انہوں نے عربی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھی، بابا گرو نانک کے والد کالو داس چونکہ تجارت سے وابستہ تھے، اس لیے انہوں نے نانک کو بھی کاروباری سرگرمیوں میں لگانے کی کوشش کی۔
گوردوارہ سری دربار صاحب دیکھنے کے بعد، ہم اس لنگر خانے کی طرف چل پڑے جہاں آنے والے یاتریوں کے لیے لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ راستے میں ذاکر نے بتایا کہ ایک روایت کے مطابق، جب والد کالو داس نے نمک کی خریداری کے لیے بھیجا اور کچھ پیسے گرونانک کو دیے، تو راستے میں انہیں چند ضروت مند اور فقیر ملے، ان کی مفلسی دیکھ کر گرو نانک نے وہ سارے پیسے ان فقیروں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیے، اور اس عمل کو انہوں نے "سچاسودا" یعنی حقیقی تجارت کہا، یہ واقعہ جہاں پیش آیا اس علاقے کا نام "سچاسودا" پڑ گیا، جو آج بھی ضلع شیخوپورہ میں واقع ہے۔
کرتارپور کے اس لنگر خانے میں صفائی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے، زائرین ترتیب سے صفوں کی شکل میں بیٹھے تھے، وہاں ورکرز بڑی عقیدت سے کھانا "پرشاد" ہر ایک کے سامنے ایک جتنی مقدار میں رکھتے جا رہے تھے۔ مجھے وہاں یہ بات بہت اچھی لگی کہ، مسلمان یا وہ تمام سکھ یاتری جو دنیا کے مختلف ممالک سے آئے تھے، کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے برتن خود اٹھا کر اس جگہ رکھ رہے تھے، جہاں برتن مسلسل صاف کیے جا رہے تھے۔ ذاکر ایک سیکورٹی ادارے میں ملازم تھا، جو ہمیں بابا گرو نانک سے منسوب ہر جگہ کا وزٹ کروا رہا تھا، ذاکر نے ہمیں وہ کنواں بھی دکھایا جن کو گرونانک اپنے کھیتوں میں پانی نکالنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اس کنویں میں سکھ یاتریوں نے کرنسی نوٹ بھی پھینکے ہوئے تھے، جو وہ اپنی کوئی منت پوری ہونے پر یہاں پھینک دیتے ہیں، اس کنوئیں کے ساتھ ہی ایک ناکارہ گولا بھی نصب تھا، جس کے ساتھ ایک تحریر بھی موجود تھی کہ، انڈین ایئر فورس نے 1971 میں یہ گولہ گردوارہ سری دربار صاحب کرتارپور کو تباہ کرنے کے لیے پھینکا، مگر اللہ تعالی کی خاص رحمت سے وہ گولا اس کنوئیں نے اپنی گود میں لے لیا، گولا نہ پھٹا اور گردوارا محفوظ رہا۔ والدین نے گرونانک کی شادی مول چند کی بیٹی "سلکھنی" سے کردی، جس سے ان کے دو بیٹے سری چند اور لکھمی داس پیدا ہوئے۔
36 سال کی عمر میں بابا گرو نانک نے درویشی اختیار کی، 8 سال مسلسل سفر میں گزارے اور توحید پرستی کی تبلیغ کرتے رہے، توحید پرستی کے ساتھ ساتھ بابا گرو نانک انتقام اور کینہ پروری کے بجائے، رحم دلی اور امن کا پیغام دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مؤرخین کے مطابق "سکھ ازم" اصلاحی تحریک تھی، جو بعد ازاں ایک مذہب کا درجہ اختیار کر گئی۔ پروفیسر لیوس مور نے اپنی کتاب میں بابا گرو نانک کے مکہ اور مدینہ کے سفر کا بھی تذکرہ کیاہے، دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرنے کے بعد، اپنے مسلک کی ترویج کے لیے بابا گرو نانک نے پنجاب کے مختلف علاقوں کا بھی دورہ کیا۔
ملتان میں اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے پر، ابراہیم لودھی نے بابا گرونانک کو سات ماہ کے لیے قید میں ڈال دیا، اور یہ قید ابراہیم لودھی کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوئی۔ کرتارپور میں گردوارہ دربار صاحب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہم تمام دوست، باباگرونانک سے منسوب واقعات کا تذکرہ بھی کر رہے تھے۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب کے علاوہ دریائے راوی کے قریب، باباگرونانک نے مسافروں کے لئےجو لنگر خانہ (ڈیرہ بابا گرونانک) بنوایا، اس کا بھی ذکر ہوا۔ بابا گرو نانک کی زندگی کے آخری 18 سال ضلع جالندھر میں واقع اسی کرتار پور نامی گاؤں میں گزرے، یہاں انہوں نے ایک دھرم شالہ بھی بنایا، کھیتی باڑی کرنے کے ساتھ ساتھ بابا گرو نانک نے توحید پرستی کی تبلیغ کی، اور ستر برس کی عمر میں 22 ستمبر 1539ء کو وفات پائی۔
سکھوں کے لیے تو یہ مقدس مذہبی مقام ہے، لیکن دوسرے مذاہب کےلوگ جو سیاحت میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لیے بھی یہ جگہ دیکھنے کے قابل ہے۔ پاکستانی گورنمنٹ نے سکھ یاتریوں کے لیے بہترین انتظام کر رکھے ہیں، مگر وہاں بنائے گئے چھوٹے سے بازار میں تمام چیزیں انتہائی مہنگی ہیں، جو شاید امریکہ یا کینیڈا سے آئے سکھوں کے لئے ہی ہیں، جوعقیدت میں یہ چیزیں خرید لیتے ہونگے۔ ہم دوستوں نے تو وہاں صرف سموسے کھائے اور چائے پی، بہرحال ہمارا یہ کرتارپور کا ٹور، معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ، تفریح سے بھرپور تھا۔