Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Kalar Kahar, Katas Raj Aur Salt Mine Khewra

Kalar Kahar, Katas Raj Aur Salt Mine Khewra

کلرکہار، کٹاس راج اور سالٹ مائن کھیوڑہ

کٹاس مندر چکوال سے 25 کلومیٹر دور سلسلہ کوہ نمک میں واقع ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے، جسے کٹاس راج بھی کہتے ہیں۔ اس کا قدیم نام "امر کنڈ" تھا۔ میں 13 مارچ کو اسکول کے بچوں کو ایک مطالعاتی دورہ کے لیے یہاں لے کر آیا۔ کلرکہار میں مختصر قیام کے بعد دن گیارہ بجے ہم کٹاس راج پہنچے۔ اتوار کا دن ہونے کے باوجود یہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ کلرکہار کے گردونواح میں مارچ میں تیز دھوپ ہونے کے باوجود موسم خوشگوار ہی ہوتا ہے، اتوار کے دن بھی یہاں کا موسم بہت اچھا تھا۔

جونہی ہم کٹاس راج پہنچے تو سڑک کے دوسری جانب قدیم گھر اور پہاڑ میں کچھ غاریں نظر آئیں۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ غار اتنی پرانی ہیں کہ سکندر اعظم کی فوج کے سپاہیوں نے راجہ پورس کو شکست دینے کے بعد انہیں غاروں میں قیام کیا تھا۔ ہم کٹاس راج کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہونے لگے تو وہاں کھڑے گارڈ نے بچوں کو کیمرہ اندر لے جانے سے منع کر دیا، صرف آپ کو اپنا موبائل اندر لے جانے کی اجازت تھی، یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی۔

ترکی، ازبکستان اور مصر میں جن سیاحتی مقامات پر مجھے جانے کا اتفاق ہوا، کہیں بھی کیمرا لے جانا ممنوع نہیں تھا، بلکہ ان لوگوں کے خیال میں جب سیاح ان کے سیاحتی مقامات کی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا یا کہیں بھی اپلوڈ کرتے ہیں، تو اس ملک میں سیاحت کو فروغ ملتا ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ کچھ الٹ ہے۔ خیر بچوں سے کیمرہ لے کر گاڑی میں رکھا اور ہم کٹاس راج کی اس جھیل کے سامنے آ گئے، جس کے پانی کا رنگ سبزی مائل ہے۔

ایک روایت کے مطابق جب ہندوؤں کے دیوتا شیو جی کا جس دن جنم ہوا، اسی دن یہاں یہ جھیل بن گئی۔ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق شیو جی کو ناگوں کا دیوتا کہا جاتا ہے، اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس جھیل میں کافی تعداد میں سانپ ہوا کرتے تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ سانپ کسی کو ڈستے نہیں تھے۔ حالانکہ پہاڑی علاقوں کے سانپ بہت زہریلے ہوتے ہیں۔ اس جھیل کے پانی کو "امرت کنڈ" کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "ہولی واٹر" یعنی مقدس پانی۔

دنیا بھر سے آنے والی ہندو اس پانی میں اشنان کرتے ہیں اور یہاں سے جاتے ہوئے تھوڑا سا پانی ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس جھیل کے دائیں جانب شیو جی کا مندر ہے، جہاں ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق ایک متبرک پتھر موجود ہے جو 5500 سال پرانا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں مختلف مقامات پر بارہ ایسے پتھر موجود ہیں جن کو شیو جی کے پاؤں نے چھوا تھا۔ ان میں سے دو پتھر پاکستان میں ہیں، ایک کٹاس راج کے اس "شیو جی" کے مندر میں اور دوسرا بلوچستان کے کسی علاقے میں موجود ہے۔

ہر سال دنیا بھر سے ہندو یاتری اس پتھر کی پوجا کے لیے یہاں آتے ہیں۔ کٹاس راج کے مندروں میں ہندو سال میں دو تہوار مناتے ہیں، اور ان تہواروں پر ہر سال انڈیا سے تقریباََ دو سو کے لگ بھگ اور پاکستان سے دو، اڑھائی ہزار ہندو یاتری یہاں آتے ہیں۔ شیوجی کے اس مندر کے ساتھ جو جھیل ہے اس کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ جب شیو جی کی بیوی "ستی" کی موت واقع ہوئی، اس وقت شیو جی کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے، ایک آنسو یہاں گرا تو یہ جھیل بن گئی اور دوسرا انڈیا کے علاقے اجمیر میں گرا۔

بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو کٹاس راج میں موجود یہ جھیل ہندوؤں کے لیے انتہائی مقدس مقام رکھتی ہے۔ اس جھیل کے بائیں جانب جب ہم سیڑھیوں سے اوپر چڑھے تو وہاں ایک اور مندر ہے جسے رام مندر کہا جاتا ہے۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ مندر چار ہزار سال پرانا ہے۔ اس مندر کا دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے جو مغلوں کے دور میں یہاں پر لگایا گیا، جب کہ اس دروازے کے اردگرد سرخ پتھر لگے ہوئے ہیں جو ہندوستان کے علاقے جودھ پور سے لائے گئے۔

اس مندر کے بائیں جانب چھوٹے چھوٹے کمرے اور ان کے آگے برآمدوں کے آثار موجود ہیں۔ مؤرخین کے مطابق یہ ایک قدیم یونیورسٹی کے آثار ہیں جس کا نام "شکنتلا یونیورسٹی" تھا۔ کسی زمانے میں یہاں الجبرا، طب اور علم فلکیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ البیرونی نے اپنے تحقیقی کام کی غرض سے کافی عرصہ اس شکنتلا یونیورسٹی میں قیام کیا۔ ان کھنڈرات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ قدیم یونیورسٹی کسی زمانے میں کتنی شاندار درسگاہ ہوتی ہوگی۔

ہم اس یونیورسٹی کے کھنڈرات دیکھنے کے بعد اوپر کی جانب بڑھے تو سامنے سفید پتھروں سے بنا ہوا ایک مندر دکھائی دیا، بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ مندر مہاتما بدھ کے ماننے والوں نے تقریباََ چار ہزار سال پہلے بنایا تھا۔ اس بات کی تصدیق "مہاتما بدھ" کی پتھر سے بنی اس تصویر سے بھی ہوتی ہے جو مندر کی دیوار کے اوپر بنی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہندوؤں کے عقائد کے مطابق ارجن، دیو، نکل، بھیم اور یوڈھشٹر یہ پانچوں پانڈو بھائی اس مندر میں پوجا کرتے رہے اور اس مندر کے ساتھ بنے ہوئے گھروں میں مقیم رہے۔

ارجن ہندوؤں کی کتاب مہابھارت اور بھگووگیتا کے سب سے اہم کرداروں میں سے ایک ہے۔ اسے "مہابھارت" کا ہیرو بھی کہا جاتا ہے۔ ارجن کے والد کا نام راجہاندر تھا، اس لیے اسے اندری بھی کہا جاتا ہے۔ ہندو اندرا کو اپنا بھگوان مانتے ہیں۔ مہابھارت میں کوروؤں اور پانڈوؤں کے درمیان لڑائی کا تذکرہ ہے۔ ہندوؤں کے نزدیک ارجن انتہائی بہادر سپاہی تھا اور تیر اندازی کا ماہر تھا۔ پنجاب گورنمنٹ نے اس تاریخی مقام کو محفوظ بنانے کے لیے کافی کام کیا ہے۔

نواز شریف کے دور حکومت میں ہندو یاتریوں کے لئے یہاں ایک فلٹریشن پلانٹ بھی لگایا گیا، جس کے میٹھے پانی سے آج بھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ اسلام میں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام کی تعلیمات ملتی ہیں، اس لیے پاکستان میں ہندوؤں کے اس مقدس مقام پر کافی سہولیات مہیا کی گئی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ کٹاس راج کی سیر بچوں کے لیے تفریح کے ساتھ ساتھ تاریخی معلومات سے بھی بھرپور تھی۔

کٹاس راج سے تقریباََ 45 منٹ کی مسافت پر ایشیا کی پہلی اور دنیا کی دوسری نمک کی کان کھیوڑہ میں واقع ہے۔ کٹاس راج کے مندر دیکھنے کے بعد ہم قریب چار بجے کھیوڑہ پہنچے۔ نمک کی کان دیکھنے کے لیے ٹکٹس لیے اور ایک گائیڈ کی خدمات حاصل کیں۔ باہر کا موسم تھوڑا بہت گرم تھا لیکن جونہی ہم نمک کی کان میں داخل ہوئے وہاں کا درجہ حرارت انتہائی معتدل تھا۔ نمک کی کان میں آپ پیدل بھی جا سکتے ہیں اور ٹرین کے ذریعے بھی۔ کان میں پیدل آنے اور جانے کا فاصلہ تقریباََ اڑھائی کلومیٹر بنتا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان پولینڈ میں واقع ہے، جس میں صرف سفید نمک ہے لیکن کھیوڑہ کی اس کان میں تین قسم کا نمک موجود ہے سفید، گلابی اور سرخ۔ عام طور پر سفید اور گلابی نمک کھانے میں استعمال ہوتا ہے اور سرخ نمک انڈسٹریز میں۔ سیاحوں کی دلچسپی کے لیے اس کان میں نمک کے پتھروں سے مختلف ماڈلز بھی بنائے گئے ہیں۔ نمک کے سرخ پتھروں سے ایک خوبصورت مسجد بھی بنائی گئی ہے جس میں تقریباََ 20 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ کان میں نمک کے پتھروں سے مینار پاکستان اور چاغی کے پہاڑ کا ماڈل بھی بنایا گیا ہے۔ اس کان کے اندر دمہ کے مریضوں کے لئے ایک ہسپتال بھی بنایا گیا ہے یہاں دمہ کے مریضوں کو رکھا جا سکتا ہے۔ دمہ کے مریضوں کے لیے اس کان میں سانس لینے میں آسانی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ اس نمک کی کان میں جتنی دیر بھی پیدل چلتے رہیں سانس نہیں پھولتا۔ اس کان میں کل 65 چیمبر ہیں، نمک کی کان میں لکڑی کے درخت کے کچھ حصے کا ہونا حیران کن ہے۔

ہم نے کان کے مین چیمبر کے بالکل ساتھ چھوٹی سی غار میں لکڑی کا ایک ٹکڑا دیکھا جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کان میں وینٹیلیشن کے لیے چند مقامات پر سرنگیں بھی بنائی گئی ہیں۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق کھیوڑہ کے ان پہاڑوں میں نمک کی دریافت اس وقت ہوئی جب سکندر اعظم کے لشکر میں موجود گھوڑوں نے اس پہاڑ کو چاٹنا شروع کیا، تب یہاں نمک کی موجودگی کا پتہ چلا۔

مؤرخین کا خیال ہے کہ اربوں سال پہلے ایک چھوٹے سمندر کے خشک ہونے سے بننے والا یہ نمک کا عظیم ذخیرہ جو کہ "پری کمبرین دور" سے تعلق رکھتا ہے جو تقریباََ 80 کروڑ سال پہلے زمین کی پلیٹوں کے ٹکرانے سے سطح سمندر پر ظاہر ہوا۔ کروڑوں سال پہلے سمندر کا حصہ رہنے والا یہ پہاڑ اور اس پہاڑ میں نمک کی اس کان کے اندر موجودگی کے اس احساس کے ساتھ ہی مجھے جھرجھری سی آئی اور اگلے ہی لمحے میرے منہ سے اللہ اکبر نکلا۔ یہ کائنات کب سے موجود ہے؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔

ہم جیسے کتنے کروڑوں انسان اس دنیا میں آئے اور اپنا اپنا وقت پورا کر کے چلے گئے اور یہ سلسلہ قیامت تک یونہی چلتا رہے گا۔ سکول کے بچوں کے لیے یہ ٹور جہاں تفریح سے بھرپور تھا وہی معلوماتی بھی تھا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں طلبہ سارا سال اپنی جیب خرچ سے پیسے اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور سالانہ چھٹیوں کے دوران اپنے ملک یا دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لیے نکل جاتے ہیں، کیونکہ سیاحت یقیناََ علم کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

یکم اپریل 2018 کو میں ازبکستان کے شہر بخارا میں تھا، وہاں کے مقامی لوگ یکم اپریل کو ملا نصرالدین افندی (جو تاریخ کا ایک مزاحیہ کردار ہے) کا دن مناتے ہیں۔ مجھے اس دن وہاں تاریخی قلعہ آرک اور چند اور تفریحی مقامات دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہاں میں نے بخارا اور گردونواح کے بےشمار اسکول کے بچے اور بچیاں دیکھیں۔ اسی طرح ترکی اور مصر میں بھی سکول کے بچوں کو بڑی تعداد میں مختلف مقامات پر سیر کرتے دیکھا۔

ہمیں پاکستان میں بھی سکولز اور کالجز کی سطح پر ایسی تفریحی اور معلوماتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے، تاکہ ہمارے بچوں میں اعتماد پیدا ہو اور وہ اپنے مشاہدے سے بہت کچھ جان سکیں۔ بچوں کے بقول کلرکہار کی جھیل میں بوٹنگ، کٹاس راج میں تاریخی مندر اور ایشیا کی سب سے بڑی نمک کی کان کو دیکھنا ان کے لیے انتہائی یادگار تھا۔ ہم سب کو اپنے بچوں کو ایسے تاریخی مقامات کی سیر ضرور کروانی چاہیے تاکہ وہ تاریخ سے روشناس ہو سکیں، کیوں کہ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنی تاریخ سے جاری رہتی ہیں۔

Check Also

Sarmaya Minton Se Nahi Aata

By Javed Chaudhry