Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Iss Se Pehle Ke Deir Ho Jaye

Iss Se Pehle Ke Deir Ho Jaye

اس سے پہلے کہ دیر ہو جاۓ

تم نہیں سمجھو گے ،جتنی مشکلات کا سامنا مجھے کرنا پڑا یہ میں ہی جانتا ہوں۔ امجد بولا کہ میں اچھا طالب علم تھا، میں میٹرک کے بعد کسی بڑے شہر میں پڑھنے کے لئے جانا جاتا تھا ،لیکن میرے والد نے کہا کہ میں تمہارے ہاسٹل کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا، تم یہی مقامی کالج میں داخلہ لے لو ۔میں نے اپنے والد کے کہنے پر یہیں ایف۔ اے میں داخلہ لے لیا، میرے والد اکثر بیمار رہنے لگے تو ایف۔ اے کے بعد مجھے اپنے والد کی دکان پر بیٹھنا پڑا، مجھ سے چھوٹی تین بہنیں اور ایک بھائی تھا، پڑھنے کے شوق کے باوجود میں مزید آگے نہ بڑھ سکا۔

دو سال بعد میرے والد فوت ہوگئے تو گھر کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی، میں جتنا کر سکتا تھا اپنے بہن بھائیوں کے لیے کیا۔والد کی بیماری کے دوران مجھے کئی لوگوں سے پیسے ادھار لینا پڑے اور دن بدن میرے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ مجبوری میں میں نے اپنا وہ گھر بھی بیچ دیا جو میرے والد نے ہمارے لیے بنایا تھا۔ مگر مصیبتوں نے میرا پیچھا نہ چھوڑا، سب کچھ ختم ہوگیا، میں ہمیشہ یہی سوچتا رہا کہ میرا قصور شاید گھر میں سب سے بڑا ہونا تھا ،جس کی وجہ سے میرے والد نے ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال دی، مگر۔

میں نے پوچھا مگر کیا؟ وہ کہنے لگا مگر یہ کہ میں نے ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھا۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ،جو شخص اپنی بیماری کے باوجود دن رات محنت کرکے میری اور سب گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرتا رہا، میرے منہ سے نکلی ہر بات میرے والد نے پوری کی اور پتا نہیں کتنی مشکل سے میرے والد نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے ،ہمارے لیئے چھوٹا سا گھر بھی بنا دیا۔ اتنی بیماری کے باوجود کبھی مجھے کام نہ کرنے دیا، ہمیشہ یہی کہا کہ بیٹا تم پڑھو جتنا پڑھ سکتے ہو، میرے والد نے میرے لئے کسی چیز کی کمی نہ آنے دی۔

لیکن اندر ہی اندر ہیپاٹائٹس سی نے انہیں ختم کر دیا ،مگر ہمارے سامنے کبھی ہمت نہ ہاری۔ جب بیماری کی وجہ سے ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ ،سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تو مجبوراً مجھے دکان پر بٹھایا۔میں آج یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں ٹھیک طرح سے کام کرتا ،تو اس بنے بنائے کاروبار کو مزید اچھا کر سکتا تھا۔ مگر اپنی نالائقی کی وجہ سے میں نے سب کچھ ختم کر دیا، گھر رہا اور نہ ہی وہ کاروبار۔ اب محنت مزدوری کرکے جب میں اپنی اولاد کی ضروریات کو پورا کرتا ہوں، تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا والد کتنا عظیم انسان تھا۔

یہ بات کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ چائے کا کپ نیچے رکھتے ہوئے بولا، کہ مجھے ہمیشہ اپنے والد سے گلے رہے کہ اس نے میرے لیے کچھ نہ کیا۔ مگر آج میں سوچتا ہوں میں کتنا بد نصیب ہوں ،کہ جس شخص نے ہماری خوشیوں کے لئے اپنی جان کی پرواہ تک نہ کی، میں ان کی بیماری کے دِنوں میں بھی ان کی ٹھیک طرح سے خدمت نہ کر سکا۔ اس کی بات ختم ہوئی تو مجھے واصف علی واصفؒ کا وہ فقرہ یاد آ گیا کہ "جو ناشکری کا مقام ہی ،دراصل شکر کا مقام ہے"۔

ہم زندگی میں اکثر اپنی ناکامیوں، اپنی نالائقیوں اور اپنے برے حالات کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی۔ مگر کبھی اپنے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے ،کہ میری ناکامی اور میرے پیچھے رہنے کی وجہ کہیں میں خود ہی تو نہیں تھا۔ 24 گھنٹوں میں دن اور رات سب کے لئے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، لیکن کسی بھی شعبے میں کامیابی کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، ہم وہ قیمت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ہر کامیاب شخص کے بارے میں ہمارا خیال یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی کامیاب تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

ہر کامیاب انسان نے اپنی کامیابی کی قیمت ادا کی ہوتی ہے۔ کامیابی کا مطلب ہر ایک کیلئے مختلف ہوتا ہے، کسی کے نزدیک بہت زیادہ پیسہ اکٹھا کر لینا کامیابی ہے ،تو کسی کے نزدیک سڑکوں پر پڑے لاوارث بچوں کو سہارا دینا، کسی کے نزدیک بڑی بڑی جائیدادیں بنا لینا کامیابی ہے ،تو کسی کے نزدیک پوری زندگی سائنس لیبارٹریوں میں کام کر کر کے انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرنا ۔لہٰذا مقصد کوئی بھی ہو اس کے حصول کے لیے محنت، اخلاص اور مستقل مزاجی سے کام کرنا پڑتا ہے۔

اکثر نوجوان کسی بھی شعبے میں، کسی کامیاب شخص کو دیکھتے ہیں تو وہ چند ہی دنوں میں وہی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں ،مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس کامیاب شخص کے پیچھے کتنے سالوں کی محنت ہوگی، کتنا کام کرنا پڑا ہوگا؟ اس دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے ہمیں خواب ضرور دیکھنے چاہیۓ، لیکن اِن جاگتی آنکھوں کےخوابوں کو پورا کرنے کے لیے محنت بھی تو کرنی چاہیے،اور ساتھ اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ،کوئی بھی شخص جو اپنے والدین اور اساتذہ کا ادب اور احترام نہیں کرتا ،وہ جتنا مرضی قابل ہو،وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

میرا ماننا ہے کہ لائقی اور نا لائقی کوئی چیز نہیں ہوتی، درحقیقت کامیاب لوگوں کو محنت کے ساتھ ساتھ کسی کی دعا لگ جاتی ہے۔ چاہے وہ دعا والدین کی ہو، اساتذہ کی یا کسی بھی اس شخص کے دل سے نکلی دعا ،جس کے لیے آپ نے کبھی کوئی آسانی پیدا کی تھی۔ آج کل کی نوجوان نسل راتوں رات عزت، دولت اور شہرت چاہتی ہے، ان سب چیزوں کی خواہش بری بات نہیں ،لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہے۔ انسان کے بس میں صرف محنت کرنا ہے، باقی سب وقت پے چھوڑ دینا چاہیے، جب اللہ کرم کر دیتا ہے تو سب کچھ مل جاتا ہے۔

اس لئے کسی بھی کام میں جلدی ٹھیک نہیں ہوتی۔ میں نے اکثر ایسے بچوں کو بھی دیکھا ہے جن کو بچپن ہی میں کسی وجہ سے شہرت مل گئی، مگر وہ جب جوان ہوئے تو ان کی وہ شہرت ختم ہو چکی تھی ،اور اکثر لوگ ایسے بھی دیکھے جن کو عروج چالیس، پچاس سال کی عمر کے بعد ملا ،مگر ان کی وہ عزت اور شہرت ہمیشہ قائم رہی۔لہٰذا ربّ سے وہ عروج مانگیں جو ہمیشہ رہنے والا ہو، چاہے وہ عمر کے کسی حصے میں بھی ملے، بس ہم جو بھی کام کر رہے ہیں، خلوصِ نیت سے کرتے رہیں۔

اپنے ساتھ جڑے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے رہیں، اپنی ناکامی اور نالائقیوں کا ذمہ دار کبھی دوسروں کو نہ ٹھہرائیں، جتنا جلدی ہو سکے خود کو پہچان لیں۔اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ بچے،لہٰذا مٹی کی ڈھیری پر رونے سے بہتر ہے کہ، ہر انمول رشتے کی اس کی زندگی میں ہی قدر کر لی جائے، تاکہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔

Check Also

Profile Of A Graduate

By Mubashir Ali Zaidi