Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Hazrat Abu Ayub Ansari Ke Mazar Par

Hazrat Abu Ayub Ansari Ke Mazar Par

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر

آپ ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کے آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف اسے ہی حاصل ہو، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل کو چھوڑ دیا جائے، یہ اونٹنی جہاں جا کر رکے گی میں وہیں قیام کروں گا لہٰذا آپ ﷺ کی اونٹنی کی نکیل کو چھوڑ دیا گیا اور وہ چلتے چلتے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے آ کر رک گئی، یوں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف نصیب ہوا۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ یثرب میں قبیلہ بنو نجار میں پیدا ہوئے، آپؓ کو میزبان رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے قریبی ساتھی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میں اور اشفاق اپنے ایک ترک دوست "الیونت" کے ساتھ شام پانچ بجے استنبول میں اسی عظیم ہستی کے مزار پر جا رہے تھے۔ جون کی اٹھارہ تاریخ تھی اور استنبول کا موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ میں پہلی بار ترکی قاسم علی شاہ (جو پاکستان کے نامور موٹیویشنل سپیکر ہیں) کے ساتھ ستمبر 2018ء میں آیا تھا۔

وہ سات دن کا ٹور بھی انتہائی یادگار تھا، اس ٹور کے آخری دن ہم یہاں استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر آئے تھے۔ جونہی ہم کار سے اتر کر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کی طرف چلے تو مجھے شاہ صاحب کے الفاظ یاد آ رہے تھے کہ جو بھی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ایک بار حاضر ہوتا ہے وہ دوسری بار یہاں لازمی آتا ہے۔ اس وقت تو مجھے وہ بات عجیب سی لگی تھی مگر آج صرف چار سال بعد جب میں دوبارہ میزبان رسول ﷺ کے مزار کے احاطے میں داخل ہوا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچا شاہ جی کی بات کتنی ٹھیک تھی۔

مزار کے احاطے میں سفید سنگ مرمر لگا ہے اور درمیان میں خوبصورت فوارہ انتہائی دلکش منظر پیش کرتا ہے۔ جونہی مزار کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو بائیں جانب ایک چھوٹی سی پہاڑی کے بالکل ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک ہے اور بائیں جانب ایک چھوٹی سی انتہائی خوبصورت مسجد ہے۔ یہ مسجد 1458ء میں بنائی گئی لیکن اٹھارویں صدی میں زلزلے کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچا۔

1798ء سلطان سلیم سوم نے میناروں کے علاوہ یہ ساری مسجد دوبارہ تعمیر کروائی۔ اس مسجد کے مشرقی مینار کو 1822ء میں سلطان محمد دوم نے تعمیر کروایا۔ ہم تینوں مزار کے اندر داخل ہوئے جہاں بڑی تعداد میں زائرین موجود تھے، جونہی میری نظر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک پر پڑی تو میری آنکھیں نم ہوگئیں اور میں نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا جس نے مجھے یہاں دوبارہ حاضری کا موقع دیا۔

سیاحوں کا رش بہت زیادہ تھا اس لیے چند لمحے وہاں رکنے کے بعد ہم دوسرے دروازے سے باہر مسجد کے احاطے میں آ گئے۔ میں مسجد کے احاطے میں ایک طرف ایک پلر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آپؓ کے مزار مبارک کے گنبد کی طرف دیکھنے لگا، خوبصورت گنبد کے اوپر نیلا صاف شفاف آسمان نظر آ رہا تھا اور آسمان پر سفید بادل ہوا کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ بادل اس مزار مبارک کو دھوپ سے بچانے کے لئے بار بار آ رہے ہوں۔

وہاں بیٹھے میں سوچ رہا تھا کہ تمام صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ سے کس قدر محبت و عشق تھا اس کا اندازہ ہم جیسے عام سے گناہ گار انسان نہیں لگا سکتے۔ یہ وہی عشق تھا جو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو مدینہ سے قسطنطنیہ لے آیا کیوں کہ آپؓ نے اس بشارت کے بارے میں سن رکھا تھا جو آپ ﷺ نے قسطنطنیہ کے بارے میں فرمائی تھی۔ آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ "جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا وہ عظیم فاتح ہوگا اور وہ لشکر عظیم لشکر ہوگا" لہٰذا بہت سے صحابہ کرام کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ وہ اس لشکر کا حصہ ضرور بنیں جو قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوتا۔

یہی خواہش حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو بھی قسطنطنیہ لے آئی، جب آپ لشکر میں شریک ہو کر قسطنطنیہ کی طرف آئے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک کافی زیادہ ہو چکی تھی اور آپ بیمار بھی تھے، کیونکہ آپؓ نے، آپ ﷺ کی فتح قسطنطنیہ کے بارے میں بشارت سن رکھی تھی اس لیے آپ بھی لشکر میں شامل ہو گئے لیکن جب آپ کو محسوس ہوا کہ میں شاید قسطنطنیہ نہ پہنچ سکوں، راستے میں ہی خالق حقیقی سے جا ملوں تو آپ نے اپنے لشکر کے سپہ سالار کو وصیت کی کہ اگر میں راستے میں ہی انتقال کر جاؤں تم مجھے دشمن کے علاقے میں جتنا آگے تک ہو سکے وہاں جا کر دفن کرنا۔

لہٰذا آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اس وقت کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول میں باسفورس کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں دفن کیا گیا۔ 1299ء جب سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی تو گزشتہ مسلمان حکمرانوں کی طرح سلطنت عثمانیہ کے ہر سلطان کی بھی قسطنطنیہ فتح کرنے کی خواہش رہی لیکن اسے فتح کرنے کی سعادت 1453ء میں سلطان محمد فاتح کو حاصل ہوئی۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار مبارک پر حاضری کے بعد ہم نے بیرونی گیٹ کے دائیں اور بائیں وہ قبرستان دیکھا جس میں سلطنت عثمانیہ کے افراد کے علاوہ نیک بزرگوں کی قبریں تھیں۔ استنبول میں ہر قبرستان میں ہم نے قبروں کا جو کتبہ بھی دیکھا وہ تین چار فٹ لمبا تھا اور ان پر قرآنی آیات کندہ تھیں۔ دنیا کے ہر ملک کا اپنا الگ الگ کلچر اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔

سعودی عرب میں میں نے کسی قبرستان میں قبروں کا کتبہ نہ دیکھا جبکہ ازبکستان کے شہر سمرقند میں میں نے حضرت قثم بن عباسؓ کے مزار کے ارد گرد ایک ایسا قبرستان بھی دیکھا جس میں ہر قبر پر لگے کتبے پر مرنے والے کی خوبصورت تصویر لگی تھی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار مبارک سے حاضری کے بعد ہمارا ترک دوست "الیونت" ہمیں مزار کے ساتھ ہی ایک ایسے چوک میں لے آیا جہاں ایک تباہ شدہ کار کھڑی تھی۔

"الیونت" نے بتایا کے جولائی 2016ء میں جب ترکی کی فوج نے منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی تو اس وقت ترکی کی عوام فوج کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی اور یہ وہ پہلی گاڑی تھی جس پر فوج نے ٹینک چڑھا کر اسے تباہ کر دیا۔ وہ فوجی بغاوت ناکام ہوگئی اور اس بغاوت کے دوران بے شمار فوجی مارے گئے۔

ترکی کی حکومت نے یہ گاڑی ایک یادگار کے طور پر حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار مبارک کے قریب ایک چوک میں کھڑی کر دی اور اب یہ گاڑی استنبول میں آنے والے ہر سیاح کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ میزبان رسولﷺ کے مزار پر جو روحانی سکون ملا اسے لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، شکر گزاری کے احساس کے ساتھ ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے اور اس ہوٹل کی طرف چل دیئے جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔

Check Also

Sarak, Sawari Aur Be Dharak Yaari (2)

By Maaz Bin Mahmood