Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Hamari Asal Daulat

Hamari Asal Daulat

ہماری اصل دولت

دنیا کا ہر شخص امیر ہونا چاہتا ہے اور اتنی دولت کمانا چاہتا ہے کہ اس سے وہ خوشی، سکون اور آرام خرید سکے۔ ویسے تو یہ تینوں چیزیں کوئی مادی وجود نہیں رکھتیں، دراصل یہ کیفیات کا نام ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تینوں چیزیں کسی نہ کسی حد تک پیسے سے خریدی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم دینی حوالے سے بات کریں تو مذکورہ بالا یہ تینوں چیزیں قرب الٰہی سے ہی ممکن ہیں مگر دنیاوی اعتبار سے ہم پوری زندگی خوشی، سکون اور آرام کی تلاش میں رہتے ہیں اور انہی کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ پیسہ ہی اصل دولت اور ہر مسئلے کا حل ہے۔

حالانکہ یہ روپیہ، پیسہ تو دولت کا صرف پانچ فیصد ہوتا ہے اور ہم اس پانچ فیصد کو ساری دولت سمجھ بیٹھتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خوشی ہے کیا؟ خوشی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جسے ہم جتنا کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے وہ اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی جبکہ اس کے برعکس دکھ اس کیفیت کو کہتے ہیں جو آپ جتنا کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کریں گے وہ اتنا ہی کم ہوتا چلا جائے گا۔

مثلاََ اگر آپ کی سالگرہ ہے اور آپ کے سامنے ایک اچھا سا کیک پڑا ہو لیکن آپ کے ساتھ کوئی اور موجود نہیں جس کے ساتھ آپ اپنے ان خوشی کے لمحات کو گزار سکیں، تو پھر وہ خوشی خوشی نہیں ہوگی لیکن اگر آپ کے دوست احباب اور فیملی ممبرز آپ کی اس خوشی میں شریک ہوں گے تو آپ کی خوشی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اسی طرح اگر ہم اپنے ان دوستوں کو کھانے پر مدعو کریں جو کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا افورڈ نہیں کر سکتے یا پھر اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں جو معاشی حوالے سے بہت کمزور ہیں تو یقین جانئیے اس عمل سے جو خوشی ہمیں ملے گی اس کی کوئی انتہا نہیں ہوگی اور یہ سب کچھ ہم پیسے کے بغیر نہیں کر سکتے۔

اسی طرح سکون بھی ہم کسی نہ کسی حد تک خرید سکتے ہیں۔ مثلاََ اگر ہم اسلام آباد سے لاہور جانا چاہتے ہیں، عام طور پر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں تو خواری ہی خواری ہوتی ہے جب کہ اس کی نسبت اگر ہمارے پاس ایک اچھی ذاتی گاڑی ہو تو وہی سفر ہم پرسکون طریقے سے کر سکتے ہیں لہٰذا بے شمار ایسی چیزیں جو ہمیں سکون دے سکتی ہے وہ ہم پیسا خرچ کرکے خرید سکتے ہیں۔

اسی طرح انسان پیسے سے اپنے کمفٹس یعنی آرام بھی خرید سکتا ہے اگر آپ کے پاس چھوٹا گھر ہے تو آپ پیسہ خرچ کرکے بڑا اور آرام دہ گھر لے سکتے ہیں، کسی دوسرے شہر یا ملک میں جائیں تو آپ کسی عام ہوٹل میں ٹھہرنے کے بجائے کسی اچھے ہوٹل میں قیام کر سکتے ہیں وغیرہ، غرض پیسے خرچ کرکے کسی نہ کسی حد تک خوشی سکون اور آرام خریدا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ہر پیسے والے کو دولتمند سمجھتے ہیں اور اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان بھی مانتے ہیں لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ پیسہ تو دولت کا صرف پانچ فیصد ہوتا ہے باقی 95 فیصد دولت تو کسی اور چیز کا نام ہے۔

جس دن ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں جو اتنی بڑی دولت دے رکھی ہے جس کے لیے کئی ارب پتی لوگ ترستے ہیں اس دن ہماری آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ہم اللہ کا شکر ادا کرنے لگتے ہیں۔ 95 فیصد دولت میں سب سے بڑی دولت صحت کی ہوتی ہے، صحت سے بڑی دولت دنیا میں کوئی نہیں ہوتی۔ آپ ایک لمحے کیلئے سوچئے کہ ایک ارب پتی انسان ہو لیکن خدانخواستہ اس کی ریڈھ کی ہڈی خراب ہو وہ اٹھ کر بیٹھ نہ سکتا ہو، اس کے پاؤں نہ ہوں وہ چل نہ سکتا ہوں، اس کے ہاتھ نہ ہوں جس سے وہ کام کر سکتا ہو، آنکھیں نہ ہوں جس سے وہ اس خوبصورت دنیا کو دیکھ سکتا ہو، وہ بول نہ سکتا ہو، سن نہیں سکتا ہو تو سوچیں کہ اس کے ارب پتی ہونے کا کیا فائدہ؟

کیا پھر بھی ہم اسے دولت مند کہیں گے؟ بالکل نہیں۔ حضرت موسیٰؑ سے منسوب ایک روایت ہے کہ ایک بار حضرت موسیٰؑ، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا یا باری تعالیٰ! اگر آپ کا بھی کوئی رب ہوتا اور کوئی ایک چیز آپ اپنے رب سے مانگ سکتے تو آپ کیا مانگتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں صحت مانگتا۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحت کتنی بڑی دولت ہے۔ اگر ہم صحت مند ہیں تو یقین کیجئے اس دنیا میں ہم سے زیادہ دولت مند کوئی نہیں۔

اگر ایک انگلی ہی خراب ہو جائے تو کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی انسان ایک انگلی نہیں خرید سکتا۔ یہ اللہ کا رحم اور کرم ہے جس نے ہمیں صحت جیسی دولت دے کر دنیا کا دولت مند انسان بنا رکھا ہے۔ انسان کی دوسری بڑی دولت اس کا خاندان ہوتا ہے، جس کے پاس اس کے ماں باپ ہیں، بیوی بچے اور بہن بھائی ہیں جو ہر دکھ سکھ میں ساتھ ہوں تو اس سے بڑی خوش قسمتی کسی انسان کی کیا ہو سکتی ہے؟ آپ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر کوئی انسان ارب پتی ہو لیکن اس کی کوئی فیملی لائف نہ ہو، اس کا کوئی خاندان نہ ہو تو وہ اس پیسے کا کیا کرے گا؟

آپ نے بے شمار ایسے واقعات سن رکھے ہوں گے کہ فلاں شخص بہت امیر آدمی ہے لیکن اس کی اولاد نہیں، بہن بھائی نہیں، اس کی گھریلو زندگی میں ہر وقت لڑائی جھگڑا اور ناچاکی ہے تو سوچیں اس پیسے کا کیا فائدہ کہ معاشی لحاظ سے تو کوئی بہت خوش حال ہو لیکن گھر میں سکون نہ ہو۔ اس لیے ایک پرسکون خاندان بھی بہت بڑی دولت ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ہمیں دولت مند بناتی ہے وہ ہمارے اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔

اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے پانچ دوستوں کی ایوریج ہوتا ہے۔ اس لئے دوستی اور تعلقات بنانے سے پہلے ہمیں یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ ہم کیسے لوگوں کے ساتھ تعلقات بنا رہے ہیں، یقین جانیے اچھے تعلقات بھی بہت بڑی دولت ہوتے ہیں۔ یہ تعلقات ایک ایسی انویسٹمنٹ ہوتی ہے جو کبھی ضائع نہیں جاتی۔ زندگی کے کسی نہ کسی اسٹیج پر آپ کو یہ تعلقات ضرور فائدہ دیتے ہیں اور جن لوگوں کے ساتھ ہماری دوستیاں یا تعلقات ہوتے ہیں وہی ہمارا تعارف بن جاتے ہیں۔

ایک اور بہت بڑی دولت جو کسی کے پاس بھی ہو وہ ہنر کا ہونا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ "جس شخص کے پاس کوئی ہنر ہے، دنیا کا کوئی شخص اسے بے روزگار نہیں کر سکتا"۔ کوئی بھی ہنر چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، کوئی موٹر مکینک ہو یا بال تراشنے والا، کوئی بڑھئ ہو یا جوتا مرمت کرنے والا، کوئی مزدور ہو یا استاد، کوئی ڈاکٹر، انجینئر ہو یا کھیتی باڑی کرنے والا کسان، کوئی سبزی بیچنے والا ہو یا کوئی الیکٹریشن، ہم سب ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔

اگر ان تمام ہنرمندوں میں کوئی ایک طبقہ کام کرنا چھوڑ دے تو یقین جانیے ہماری زندگیوں کی بہت ساری راحتیں اور آسائش ختم ہو جائیں۔ لہٰذا اگر آپ کوئی چھوٹے سے چھوٹا ہنر بھی جانتے ہیں تو سمجھیں آپ بہت دولت مند ہیں۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر ہمارا جوتا خراب ہو جائے تو ہم ٹھیک طرح سے چل بھی نہ سکیں، ہم اس ہنرمند کے محتاج ہیں جو جوتا بناتا ہے۔ دنیا کا ہر وہ انسان عظیم ہے جو اپنے ہنر سے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔

بس ہمیں اپنے سوچنے کے انداز کو بدلنا ہوگا، دولت صرف کرنسی، سونا چاندی، ہیرے جواہرات یا پلاٹ ہی نہیں ہوتے، اچھی صحت، اچھے دوست، اچھے تعلقات، خاندان کا ہونا اور ہنر مندی بھی بہت بڑی دولت ہے۔ ہم صرف پانچ فیصد کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں اور باقی 95 فیصد دولت کو بھول جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ پیسہ ہمارے لئے آسانیوں کا باعث تو بن سکتا ہے لیکن منزل نہیں۔

اگر ہم نے اسلام آباد سے لاہور جانا ہے تو اس کے لئے گاڑی ہماری صرف ضرورت منزل نہیں ہے۔ ہم اگر اپنی منزل کو بھول کر صرف گاڑی سے ہی محبت کرنے لگ جائیں تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ پیسہ دراصل منزل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن منزل نہیں۔ اسی طرح دریا پار کرنے کے لئے کشتی کی ضرورت ہوتی ہے ہم بہت سا پیسہ خرچ کرکے ایک خوبصورت کشتی بنوائیں، جب کشتی تیار ہو جائے تو ہم کشتی سے محبت کرنے لگ جائیں اور اپنی اس منزل کو بھول جائیں جہاں دریا پار کرکے ہم نے پہنچنا تھا یا ہم منزل پر پہنچنے کے بعد ہر وقت کشتی کو ساتھ اٹھائے پھرتے رہے ہیں تو اس سے زندگی تو عذاب بن جائے گی۔

لہٰذا یہ پیسہ خوشی، سکون اور آرام کا ایک ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن منزل نہیں۔ پیسے کو سب کچھ سمجھ لینے والا انسان ہمیشہ دھوکہ میں رہتا ہے لہٰذا ہمیں ہمیشہ اپنی اصل دولت کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔

Check Also

Google, Facebook Aur Eman Bil Ghaib

By Basharat Hamid