Hamara Taleemi Nizam
ہمارا تعلیمی نظام
سٹیفن آر کووے نے اپنی مقبول ترین کتاب "پر اثر لوگوں کی سات عادات" جس کی دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں کاپیاں فروخت ہوئیں اور مختلف زبانوں میں اس کتاب کے تراجم بھی ہوئے، اس میں پر اثر لوگوں کی ایک عادت یہ بھی بتائی کہ وہ ہمیشہ پروایکٹو (Proactive) ہوتے ہیں یعنی کوئی بھی کام کرنے سے پہلے وہ اس کام کے لیے مکمل طور پر تیار ہوتے ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔
پروایکٹو کا ایک متضاد لفظ ہے ری ایکٹو(Reactive)۔ ری ایکٹو وہ لوگ ہوتے ہیں جو کوئی بھی مسئلہ درپیش آنے کے بعد اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ وہ اکثر پہلے یہی کہتے رہتے ہیں کہ جب کوئی مسئلہ بنا تو دیکھا جائے گا اور وہ آنے والی مشکلات کے لئے نہ کبھی کچھ سوچتے ہیں نہ تیار ہوتے ہیں، بس ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بھی پروایکٹو ہونے کے بجائے ایک ری ایکٹو قوم ہیں۔
ہم وہ قوم ہیں جو سیلاب آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں لیکن اس سے بچاؤ کے لئے اقدامات نہیں کرتے اور جب سیلاب آتا ہے، سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے اور پھر جو بچ جاتے ہیں ہم ان کے لیے امدادی کام شروع کر دیتے ہیں۔ آج تک سیلاب سے بچاؤ کے لیے ہم نے پیشگی اقدامات نہیں کیے، دنیا بھر میں جب بھی کوئی نئی عمارت بنتی ہے اس میں آگ سے بچاؤ کے لئے پہلے اقدامات کیے جاتے ہیں، اگر ایسا نہ ہو تو کوئی انجینئر وہ بلڈنگ پاس نہیں کرتا۔
مگر ہمارے ہاں نئی بننے والی عمارتوں میں کیا کبھی ایسا سیفٹی سسٹم لگایا جاتا ہے؟ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتی ہیں، ہم نے کبھی ان گاڑیوں کو چیک کیا کہ یہ گاڑیاں روڈ پر چلنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں؟ لیکن خدانخواستہ جب کسی ایک گاڑی کو کوئی حادثہ پیش آ جائے، جیسا کہ چند برس پہلے گجرات میں ایک حادثہ پیش آیا تھا تو ہم اس کے بعد گاڑیوں سے سلینڈر اتروانا شروع کر دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمیں پہلے یہ کام کیوں یاد نہیں ہوتے؟ ہمارے ملک میں ریلوے ٹریک چاروں صوبوں میں بچھے ہیں اور بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے لائن کراس کرنے کے لئے خود ہی راستے بنا لیے ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں، ہم لوگوں کو ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکتے؟ لیکن ایسے راستوں پر جب کسی ٹرین کا کسی بھی گاڑی سے حادثہ پیش آ جائے، ہم وہاں فوراََ پھاٹک لگانے کا حکم جاری کر دیتے ہیں، یہ ہمیں پہلے یاد کیوں نہیں ہوتا؟
ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکل چلانا قانوناََ جرم ہے لیکن ہم کتنے لوگ ہیلمٹ کا استعمال کرتے ہیں؟ ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو ہم جرمانہ کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں کسی بڑے سانحے کا انتظار کرتے ہیں کہ کوئی واقعہ پیش آئے تو ہم ہیلمٹ کی پابندی سختی سے کروائیں گے۔ اسی طرح ہم گاڑی میں سیٹ بیلٹ باندھنا توہین سمجھتے ہیں، ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سردیوں میں گیس کی کمی ہو جائے گی اور لوگ گھر میں بچوں کو ناشتہ تک نہیں بنا کر دے پائیں گے لیکن کیا ہم نے کبھی وقت سے پہلے گیس کا بندوبست کیا؟
گرمیوں کا موسم آنے سے پہلے ہمیں یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ گرمیوں میں ہمیں کتنے میگاواٹ بجلی درکار ہو گی لیکن ہم نے آج تک اس کا حل نہیں نکالا، ہم ہر سال گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شکار ہوتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم پری ایکٹیو نہیں ہم ری ایکٹیو قوم ہیں۔ ہمارے ملک میں کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں ہم نے وقت سے پہلے کوئی پالیسی بنائی ہو؟ باقی شعبوں کا حال تو اپنی جگہ، ہم نے تو آج تک محکمہ تعلیم پر بھی توجہ نہیں دی۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر ہی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے محکمہ تعلیم میں بھی ہم نے آئے دن اتنے تجربات کیے ہیں کہ ہمارا تعلیمی معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں آج تک کوئی مستقل تعلیمی پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہمیشہ پرو ایکٹیو اپروچ کے ساتھ پہلے ہی جانچ لیتے ہیں کہ ہمیں اگلے دس یا پندرہ سالوں میں مزید کتنے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز چاہیں اور کس طرح کا نصاب ہو تو ہم آنے والے وقتوں میں دنیا میں لیڈ کر سکیں گے، لیکن بدقسمتی سے ہماری تعلیمی اپروچ بھی پرو ایکٹو نہیں۔
ہم ہر سال تعلیمی شعبے میں نئے سے نیا تجربہ کرتے ہیں، اگر ہم صرف میڑک لیول کی بات کریں تو نصاب میں آئے دن کی تبدیلیاں دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ میں نے 1992 میں میٹرک کیا تھا، اس وقت معروضی حصہ پچیس فیصد ہوتا تھا، انشائیہ 75 فیصد اور میٹرک کمبائن سسٹم کے تحت ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ بغیر کسی تبدیلی کے 2002 تک جاری رہا۔ اس وقت کل نمبر 850 ہوتے تھے اور 850 نمبروں میں سے سات سو نمبر لینا کمال سمجھا جاتا تھا، لیکن 2002ء کے بعد اس ملک کو جدید اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے ایسے ایسے تجربات ہوئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
کبھی میٹرک کا امتحان کمبائن کر دیا گیا تو کبھی نہم اور دہم کا الگ الگ، کبھی پریکٹیکل کے نمبر شامل کر دیے جاتے رہے تو کبھی ختم، کبھی میٹرک کل نمبر 850 تو کبھی 1050 اور کبھی 1100۔ اب حکم جاری ہوا ہے اگلے سال میٹرک کے کل نمبر 1250 ہونگے۔ کبھی معروضی حصہ 75 فیصد کر دیا جاتا ہے تو کبھی 25 فیصد، کبھی کرونا کی وجہ سے بچوں کو اضافی نمبر دے کر 1100 میں سے 1100 نمبر دے دیے جاتے ہیں تو کبھی گریڈنگ سسٹم کے تحت فیل کا تصور ہی ختم کر دیا جاتا ہے اور کبھی لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو فیل کر دیا جاتا ہے۔
جیسے اس سال صرف جماعت نہم میں گوجرانوالہ بورڈ میں تقریباََ ایک لاکھ پچیس ہزار طالب علم فیل کر دیئے گئے۔ یونیورسٹیز کا حال بھی اس سے مختلف نہیں، ایک طرف پنجاب یونیورسٹی سے کبھی بی اے اور بی ایس سی میں فرسٹ ڈویژن لینا محال ہوتا تھا، وہیں آج ایسی یونیورسٹیز بن چکی ہیں کہ ہر دوسرے طالب علم کی کسی بھی مضمون میں فرسٹ ڈویژن ہوتی ہے اور اگر انہی طالب علموں سے نوکری کی ہی درخواست لکھوا لیں تو وہ لکھنا بھی نہیں آتی۔
جہاں ہر سال لاکھوں طالب علم فیل ہوتے ہیں وہی لاکھوں کی تعداد میں بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بے روزگاری کی وجہ سے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں، ٹھیک ہے ہم غریب ملک ہیں اور ہمیں بہت سے شعبوں میں بہت سا پیسہ چاہیے لیکن تعلیمی شعبے میں کوئی معیاری تعلیمی پالیسی بنانا کتنا مشکل کام ہے؟ اور اس کے لئے کتنا سرمایہ درکار ہے؟
آج بھارت کے سرکاری سکولوں میں بچوں کو میٹرک لیول پر پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر سکھایا جا رہا ہے تاکہ وہ ڈگری لے کر فارغ ہوں تو انہیں بے روزگاری کا سامنا نہ کرنا پڑے، وہ اپنا کام کر سکیں اور معاشرے کے مفید شہری بنیں، لیکن ہم نے بدقسمتی سے بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں لگایا ہوا ہے، بس ہر طالب علم اس کوشش میں ہے کہ میرے سو فیصد نمبرز ہوں لیکن اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ڈگری لینے کے بعد کیا کرنا ہے؟ ہم ہر سال اعلیٰ ڈگریاں لینے والے لاکھوں بے روزگار پیدا کر رہے ہیں۔
ہم اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ مفید شہری بھی بنے تو اس کے لئے ہمیں کوئی مستقل تعلیمی پالیسی بنانی ہو گی۔ اگر ہم آج بھی اس معاملے میں پرو ایکٹیو نہیں ہوتے، اگر آج بھی ہم نے اپنی کوتاہیوں سے کچھ نہ سیکھا تو ہماری آنے والی نسل کے پاس صرف ڈگریاں ہوں گی، بے روزگاری ہو گی اور بس۔ اگر ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے تو ہمیں ہر صورت تعلیم کے شعبے کو درست سمت میں لانا ہو گا ورنہ ہمارے حال اور مستقبل میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔