Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Golden Horn Ke Kinare Par

Golden Horn Ke Kinare Par

گولڈن ہارن کے کنارے پر

جونہی ہم مسجد الفاتح کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہونے لگے تو محسود نے میرا ہاتھ پکڑا اور دروازے کے ساتھ بیرونی دیوار پر کندہ لائنوں کی طرف اشارہ کیا۔ پہلی نظر میں تو مجھے ان لائنوں میں کوئی خاص بات محسوس نہ ہوئی لیکن جب محسود نے ان لائنوں کی وضاحت کی تو میں عش عش کر اٹھا۔ ان افقی اور عمودی لائنوں کے علاوہ درمیانی ترچھی لائن پر ایک سے بارہ تک رومن ہندسے لکھے تھے اور ان لائنوں کے اوپر درمیان والےحصے میں ایک مخصوص جگہ پر لوہے کی چھوٹی سی سلاخ نسب تھی، جس پر سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں اور اس سلاخ کے آخری کونےکا سایہ درمیانی ترچھی لائن پر بالکل پانچ کے ہندسے پر تھا۔

محسود بولا، یہ لائن دراصل پورے دن کا وقت گھنٹوں، منٹوں حتیٰ کہ سیکنڈز تک صحیح بتاتی ہے۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے ساتھ ساتھ اس سلاخ کا سایہ اس ترچھی لائن پر جہاں جہاں ہوتا ہے، وہ اس لمحے کے وقت کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی تو واقعی اس وقت پانچ بج رہے تھے، جب گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں تو نمازوں کے اوقات یہاں سے ہی دیکھے جاتے تھے۔

آج سے اتنی صدیاں پہلے اہل علم اتنی ترقی کر چکے تھے، کہ وقت دیکھنے کا اتنا شاندار نظام تک موجود تھا۔ مسجد الفاتح کا اندرونی ہال بھی انتہائی کشادہ اور شاندار تھا، مسجد کے محراب کے قریب خوبصورت سرخ کارپٹ بچھا تھا، ہم نے وہاں نوافل ادا کیے اور کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد ہم استنبول کی ایک اور مشہور مسجد سلیم دیکھنے کے لیے نکل پڑے۔

سلطنت عثمانیہ کے زیادہ تر سلاطین نے اسلام کی اشاعت کے لیے بہت کام کیا، یہی وجہ تھی کہ ہر سلطان اپنی زندگی میں ہی کوئی نہ کوئی عالیشان مسجد بنواتا رہا اور ان مساجد کے ساتھ مدرسےبھی۔ محسود کے مطابق آج کا ترکی تو تقریبا 95 فیصد لبرل ہو چکا ہے، اب صرف پانچ فیصد لوگ ہی یہاں مذہبی رجحان رکھتے ہیں، مسجد سلیم جس علاقے میں واقع ہے وہاں کے لوگ مجھے زیادہ تر مذہبی رجحان رکھنے والے دکھائی دیے، وہ نقشبندیہ فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت بہاؤالدین نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ کے پیروکار ہیں، جن کا مزار بخارا میں ہے۔

2018 میں جب میں قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ ازبکستان گیا تو مجھے بخارہ میں حضرت بہاؤالدین نقشبندی کے مزار پر حاضری کا موقع ملا تھا، اس لئے میں نے یہاں کے لوگوں کو ان کے مخصوص لباس سے پہچان لیا۔ نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق رکھنے والی خواتین برقع پہنتی ہیں اور مرد شلوار کے اوپر شرٹ پہنتے ہیں اور سر پر گول ٹوپی رکھتے ہیں۔ اتنا مذہبی ہونے کے باوجود یہ لوگ تنگ نظر دکھائی نہیں دے رہے تھے، کیونکہ مسجد سلیم کے نزدیک ایک پارک میں، مخصوص مذہبی لباس پہنے لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ گھوم رہے تھے۔

مسجد کے صحن میں داخل ہوئے تو کچھ بچے صحن میں فٹ بال کھیل رہے تھے لیکن وہاں انہیں کوئی منع کرنے والا تھا اور نا ہی ڈانٹنے والا۔ ترکی میں آپ کسی بھی مسجد میں چلے جائیں وہاں بچے آپ کو ایسے ہی کھیلتے ملیں گے، ترک لوگوں کا خیال ہے کہ مساجد میں بچوں کو ایسا ماحول دینا چاہیے کہ وہ شوق سے مساجد میں آئیں نہ کے مجبوری میں۔ عصر کی نماز ہم نے مسجد سلیم ہی باجماعت ادا کی۔

مسجد سلیمانیہ اور مسجد سلیم میں، میں نے یہ بات نوٹ کی کہ نماز کے دوران دو یا تین صفییں ہی تھیں حالانکہ یہ مساجد ترکی کی سات بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہیں۔ میرے پوچھنے پر محسود بتانے لگا کہ رمضان کے مہینے میں بھی یہاں زیادہ رش نہیں ہوتا کیونکہ سلطنت عثمانیہ کے اختتام کے بعد ہمارے روشن خیال لیڈر نے مذہبی حوالے سے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ اب یہاں بہتری آ رہی ہے۔ مسجد سلیم "گولڈن ہارن" کے ایک کنارے پر واقع ہے، استنبول کے یورپ والے حصے کو گولڈن ہارن دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے یہ وہی گولڈن ہارن ہے جہاں قسطنطین الیون نے قسطنطنیہ کی حفاظت کے لیے لوہے کی زنجیر لگا رکھی تھی تاکہ دشمن کا کوئی بحری جہاز اس علاقے میں داخل نہ ہو سکے۔

مسجد سلیم کے ہال سے نکل کر ساتھ ہی ہم اس جگہ آ کر کھڑے ہو گئے، جہاں سے گولڈن ہارن کا گہرا نیلا پانی نظر آ رہا تھا۔ جس جگہ ہم کھڑے تھے یہ کافی اونچائی پر تھی اس لئے یہاں سے گولڈن ہارن سے دوسری طرف استنبول کا وہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، جہاں سے سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں ایک ہی رات میں 200 کشتیاں، خشکی کے راستے، لکڑی کی گیلیوں پر، جانوروں کی چربی لگا کر گولڈن ہارن میں اتار دی تھیں اور جب صبح قسطنطنیہ کے لوگ بیدار ہوئے تو اتنی زیادہ تعداد میں ترکوں کی کشتیاں دیکھ کر ششدر رہ گئے، جنگی تاریخ میں ایسا واقعہ کہیں اور نہیں ملتا۔

سلطان محمد فاتح کی اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے قسطنطنیہ فتح ہونے میں بڑی مدد ملی تھی۔ مسجد سلیم اتنی اونچائی پر ہے کہ یہاں سے استمبول کا ایشیا والا حصہ بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ سمندر کے دوسری طرف استنبول کے ایشیا والے حصے میں ایک بہت بڑی مسجد دکھائی دے رہی تھی، محسود نے بتایا کہ یہ مسجد حال ہی میں ترکی کے موجودہ صدر طیب اردگان نے بنوائی ہے، یہ مسجد قدیم اور جدید طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔

ہم نے یہ تاریخی مساجد دیکھیں اور اس کے بعد استنبول کے اس علاقے کی طرف چل دیے جہاں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک ہے۔ گزشتہ روز ہمیں آپؓ کے مزار پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ محسود ہمیں یہاں ان دوستوں سے ملوانے کے لیے لایا تھا، جہاں سرفراز اور وہ اکٹھے کام کرتے رہے۔ وہاں ہماری ملاقات احمد اور لیونٹ سے ہوئی۔ یہ تمام دوست نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ روایتی لباس کے بجائے پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے۔ ان ترک دوستوں نے روایتی ترکش قہوے سے ہماری تواضع کی۔

آج رات 8 بجے ہم نے اناطولیہ کے لئے نکلنا تھا اس لیے ہم وہاں ذیادہ دیر نہ ٹھرے اور استنبول کے اس یورپی حصے سے ایشیا والے حصے کی طرف چل دیے۔ محسود کا گھر چونکہ استنبول کے ایشیائی حصے میں تھا، اس لیے اس نے ہمارے اناطولیہ جانے والے ٹکٹس بھی اسی بس اڈہ سے کروائے تھے جو اس کے گھر کے قریب تھا۔ شام سوا سات کا وقت ہو چکا تھا جب ہم بس اڈے کے قریب ایک ریسٹورینٹ میں پہنچے۔

محسود نے ترک روایتی کھانوں سے ہماری تواضع کی۔ ترک قوم مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی بہت پابند ہے۔ ان کے آٹھ بجے کا مطلب 8 ہی ہوتا ہے۔ بس اڈا چونکہ بالکل ساتھ ہی تھا اس لئے ہم رات آٹھ سے پانچ منٹ پہلے ہی بس میں سوار ہو چکے تھے۔ پورے آٹھ بجے ہماری بس اناطولیہ کے لیے روانہ ہوئی اور محسود ہمیں الوداع کہنے کے لیے بس اڈے پر کھڑا، ہاتھ ہلا رہا تھا۔ استنبول میں گزرا وہ دن، محسود کی محبت اور مہمان نوازی نے ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi