GC University Lahore
جی سی یونیورسٹی لاہور
یہ ستمبر 2007 کی بات ہے جب میں ایم فل کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور آیا۔ لاکھوں لوگوں کی طرح میرا بھی کبھی یہ خواب تھا کہ میں بھی اس عظیم ادارے سے پڑھوں، مگر وقت اور حالات نے ایم اے تک ساتھ نہ دیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ ایم اے تاریخ کیا اور نمایاں پوزیشن کی وجہ سے میرا جی سی یونیورسٹی لاہور میں داخلہ ہوگیا۔ ایم فل کے کورس کے لیے اس سال 20 سیٹیں تھیں اور 55 لوگوں نے تحریری امتحان دیا، انٹرویو کے لئے صرف دس لوگوں کو بلایا گیا جن میں میں بھی شامل تھا۔
مجھ جیسے ٹاٹ اسکولوں میں دسویں جماعت تک پڑھنے والے بچوں میں اکثر اعتماد کی کمی ہوتی ہے، اسی کم اعتمادی کے ساتھ میں انٹرویو کے لیے جی سی یونیورسٹی پہنچا۔ انٹرویو پینل میں شعبہ تاریخ کے ہیڈ ڈاکٹر طاہر کامران کے علاوہ ڈاکٹر فرحت محمود اور ڈاکٹر افتخار الاول موجود تھے۔ میں کمرے میں داخل ہوا، کرسی پر بیٹھا، ڈاکٹر طاہر کامران نے میرے ڈاکومنٹس اور تحریری پیپر دیکھے اور کہنے لگے، کمال ہے آپ نے گریجویشن سائنس میں کی اور آرٹس کے مضمون تاریخ میں آپ کی فرسٹ ڈویژن ہے (جو اس وقت بہت کم طلباء کی ہوا کرتی تھی)۔
انہوں نے بس مجھ سے صرف ایک سوال پوچھا کہ چند دن پہلے ایک نامور ناول نگار کی ڈیتھ ہوئی اس کا نام بتا سکتے ہیں؟ قرۃالعین حیدر، میرا جواب سن کر انہوں نے کہا آپ کو یہ بات کیسے پتا چلی؟ میں نے بتایا کہ اخبار پڑھنا میرا معمول ہے اور یہ خبر میں نے اخبار میں پڑھی تھی۔ بس اتنا پوچھنے کے بعد انہوں نے میری فائل اگلے ممبر کے حوالے کر دی اور یوں میں مذکورہ بالا ڈاکٹر صاحبان کے پاس پھنس گیا، کیونکہ ان کی اعلیٰ درجے کی انگریزی کے سامنے میں صرف ٹوٹی پھوٹی انگریزی اور اردو ہی بول سکتا تھا۔
خدا خدا کر کے جو سوالات میری سمجھ آئے میں نے ان کے جوابات دیئے۔ اس انٹرویو کے بعد میرا خیال تھا کہ میرا یہاں پڑھنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا، کیونکہ کمبخت اس انگریز کی زبان سے میری شروع سے ہی نہیں بنتی تھی۔ بہرحال چند دنوں بعد کامیاب امیدواروں کی لسٹ لگی تو صرف چھ لوگوں کو داخلہ دیا گیا جن میں میرا تیسرا نمبر تھا۔ ڈاکٹر طاہر کامران نے ہمیں نوآبادیاتی پنجاب کے بارے میں پڑھایا اور کیا کمال پڑھایا۔
ڈاکٹر طاہر کامران نامور بیوروکریٹ اور مصنف مہر جیون خان کے صاحب زادے ہیں اور خود بھی اعلیٰ درجے کے ریسرچر اور مصنف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مجھے مختلف کتابوں کے ریویوز کرنے کو کہا اور یوں میری تاریخ کے مضمون میں ریسرچ ورک میں دلچسپی بڑھی۔ ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا سر انٹرویو میں آپ نے مجھ سے صرف ایک سوال پوچھا اور داخلہ دے دیا جب کہ یہاں بہت سے امیدواروں کو داخلہ نہ مل سکا؟ ان کے جواب نے مجھے مزید حوصلہ دیا، ان کا کہنا تھا کہ تم واحد امیدوار تھے جس نے پرائیویٹ ایم اے کیا اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں۔
جو بندہ دیہی بیک گراونڈ سے ہوتے ہوئے پرائیویٹ پڑھ کے اتنے اچھے نمبر لے سکتا ہے، اسے اگر ریگولر پڑھنے کا موقع ملا تو وہ مزید بہتر کام کرے گا، بس یہی سوچ کر تمہیں داخلہ دے دیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یاد رکھو انگریزی، اردو، پنجابی زبان کوئی بھی ہو بس آپ کو لکھنا آنا چاہیے، آپ اپنے احساسات کو کس طرح بیان کرتے ہیں یہ اہم ہے۔ وہ واحد پروفیسر تھے جنہوں نے ہمیشہ مجھے حوصلہ دیا۔ ڈاکٹر طاہر کامران ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مجھے پیر کرم شاہ الازہری کی مذہبی اور روحانی خدمات پر ایم فل کا مقالہ لکھنے کو کہا۔
22 دسمبر کو قریب بارہ سال بعد میں یونیورسٹی آیا۔ یونیورسٹی کا بلند مینار جو دور سے ہی دکھائی دیتا ہے ویسے کا ویسا تھا۔ وہ تمام رستے جن پر چل کر ہم بخاری آڈٹوریم کے بائیں جانب ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میں پڑھنے کے لیے آتے تھے ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ لان، کلاس رومز، کھڑکیاں اور دروازے اور ان میں پڑے لکڑی کے بینچز میں کوئی تبدیلی نہ تھی۔ میں تھوڑی دیر کے لئے اس بینچ پر بیٹھ گیا جہاں میں اکثر بیٹھا کرتا تھا۔
شام کا وقت تھا اور کلاس میں بالکل سناٹا، اس سناٹے میں مجھے اپنے کلاس فیلوز کی شرارتی، ایک دوسرے سے ہنسی مذاق پروفیسرز کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی لیکن اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں تھا اور کلاس روم کا سناٹا، میں کافی دیر اپنے کلاس روم کی کھڑکی سے باہر لان میں پتھر سے بنے اس بینچ کو بھی دیکھتا رہا جہاں ہم سردیوں کی ٹھنڈی دھوپ میں اکثر بیٹھا کرتے۔ اس لان کے پار پروفیسرز روم تھے جہاں سے ہم اکثر عرفان وحید عثمانی صاحب کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔
ان جیسا محنتی ٹیچر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ہماری کلاس کا دورانیہ دو سے پانچ بجے ہوتا تھا لیکن وہ ہمیں شام سات بجے تک پڑھاتے رہتے، کلاس فور کے ملازم کلاس روم بند کرنے کے لیے آتے تو یہ انہیں اکثر کہتے آپ چلے جائیں ہم لاک خود لگا دیں گے، یعنی وہ اپنے مقررہ وقت کے علاوہ بھی ہمیں اضافی وقت دیتے۔ ان کے بے شمار طالب علم سی ایس ایس کر گئے، جن میں سے اکثر جب انہیں یونیورسٹی ملنے آتے تو وہ عقیدت کی وجہ سے عثمانی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملتے۔
میرے ساتھ میرے کزن عدیل اور منیب تھے، ہم کینٹین پر آئے تو مجھے وہاں بھی عثمانی صاحب یاد آئے وہ یہاں اکثر اپنے ان دو بھاری بھرکم بیگز کے ساتھ آتے جو انہوں نے کندھوں پر اٹھا رکھے ہوتے، ان بیگز میں اتنی کتابیں اور نوٹس ہوتے کہ ان کی زپ بھی بند نہ ہو پاتی اور سادگی اتنی کہ کھانا گھر سے بنوا کے لاتے، ٹفن کھول کر میز پر رکھتے اور کھانا شروع کر دیتے۔ کھانے کے دوران ان کی نظر اپنی گود میں بڑی کتاب سے نہ ہٹتی کیونکہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے۔
ہم نے کینٹین کے لان میں بیٹھ کر بالکل ٹھیک اس جگہ چائے پی جہاں کبھی کبھار ڈاکٹر فرحت محمود ہمیں امریکن ہسٹری پڑھایا کرتے۔ وہ ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کرتے لیکن 74 سال کی عمر میں بھی وہ ہمیشہ تھری پیس سوٹ میں یونیورسٹی آتے، انہوں نے شادی نہ کی۔ ایک دفعہ ہم نے ان سے پوچھا سر آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ تو کہنے لگے مجھے جس سے عشق تھا اس سے شادی نہ ہوئی اور اس کے بعد مجھے کوئی بھلی نہ لگی۔
پھر ایک بار بتانے لگے کہ اس کی شادی کے بیس سال بعد کسی فنکشن میں میں مدعو تھا جب مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی وہاں آ رہی ہے تو میں وہاں نہیں گیا، ہم نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگے بیس سال بعد وہ پہلے جیسی حسین تو نہیں رہی ہوگی، کیونکہ بڑھاپا ایک تلخ حقیقت ہے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اسے بڑھاپے میں دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں وہ ہمیشہ مجھے زندگی کی آخری سانس تک اسی طرح حسین نظر آتی ہے جیسے وہ تھی۔
ہم کنٹین سے نکلے تو بخاری آڈیٹوریم کی سیڑھیوں نے مجھے روک لیا جہاں ہم اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ جی سی یونیورسٹی میں مجھے احتشام جان بٹ جیسا اچھا کلاس فیلو دوست ملا جس کی قابلیت کا میں اس دور سے ہی معترف ہوں۔ ڈاکٹریٹ کے بعد آجکل وہ ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز لاہور کے طور پر پنجاب گورنمنٹ میں جاب کر رہا ہے اور سکوپ سی ایس ایس کلب کے نام سے لاہور میں سی ایس ایس کے طلباء کی راہنمائی کے لیے ایک شاندار ادارہ بنا رکھا ہے۔ ڈاکٹر احتشام جان بٹ انتہائی قابل اور دلچسپ شخصیت ہے جس کا تذکرہ میں پھر کسی بلاگ میں تفصیل سے کروں گا۔
بخاری آڈیٹوریم کی سیڑھیوں سے ہم جونہی نیچے اترے تو اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی، مغرب کا وقت تھا اور سورج غروب ہو چکا تھا، آہستہ آہستہ آسمان پر سیاہی چھا رہی تھی اور جی سی یونیورسٹی کے بلند مینار کے اوپر پرندے اڑتے ہوئے اپنے گھروں کو جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ہم وائس چانسلر کے کمرے کے ساتھ اس یادگار کے پاس آ گئے جو جی سی کالج کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر بنائی گئی۔
جی سی یونیورسٹی کی شاندار تاریخی بلڈنگ، دور سے ہی اپنی طرف کھینچتا ہوا برٹش طرز تعمیر جیسا بلند مینار، اوول گراؤنڈ، بخاری آڈیٹوریم، وہ کلاس رومز، کلاس روم میں رکھے ہوئے لکڑی کے وہ بینچز، لائبریری اور کینٹین سب کچھ وہی تھا لیکن، لیکن اب میرا وہاں کوئی کلاس فیلو تھا اور نہ ہی کوئی استاد، کیونکہ شعبہ تاریخ کی جگہ یہاں کسی اور ڈیپارٹمنٹ نے لے لی تھی۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا بس ہم نہ تھے، ہمارے جیسے اور کئی وہاں زندگی کے خوبصورت ایام گزار رہے تھے۔