Galata Tower Ke Top Se
گلاٹا ٹاور کے ٹاپ سے
ہم ٹرام سے اترے اور استنبول کے جنوبی حصے سے گلاٹا پل کو کراس کرتے ہوئے شمالی حصے کیطرف چل پڑے، گلاٹا پل پر ادھیڑ عمر کے لوگ مچھلیاں پکڑنے میں مصروف تھے اور اس پل کے نچلے حصے میں بے شمار ریسٹورنٹ بنے تھے۔ ہم جس گلاٹا پل پر چل رہے تھے، غالباََ اسی جگہ بازنطینیوں نے لوہے کی زنجیر لگا کر گولڈن ہارن کو محفوظ بنا رکھا تھا۔
عصر کی اذان کی آوازیں استنبول کی مساجد سے آنا شروع ہوئیں اور ہم پل کو عبور کر کے شمال والی سائیڈ پر پہنچ گئے، جہاں سے استنبول کا مشہور زمانہ گلاٹا ٹاور قریب ہی دکھائی دے رہا تھا۔ "گلاٹا" دراصل استنبول کے موجودہ محلے کاراکوۓ (Karakoye) کا سابقہ نام تھا، جس کی مناسبت سے اس ٹاور کو گلاٹا ٹاور کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ خاص طور پر 1273ء سے 1453ء تک قرون وسطی کی ایک کالونی کی حیثیت سے جانا جاتا رہا۔
شروع میں بازنطینی دور کے ایک شہنشاہ "جسٹینینن" نے ایک مینار تعمیر کروایا جو چوتھی صلیبی جنگ کے دوران تباہ ہو گیا، بالکل اسی جگہ موجودہ گلاٹا ٹاور 1348ء میں رومن طرز پر اس وقت کے قلعہ کے شمالی بلند ترین مقام پر "جینوس" نے تعمیر کروایا اور اسے "ٹاور آف کرائسٹ" کے طور پر جانا جاتا تھا اس دور میں یہ 219 سے 5 فٹ بلند ٹاور قسطنطنیہ کی سب سے اونچی عمارت تھی۔
بازنطینیوں نے یہ ٹاور اس لیے تعمیر کیا تھا کہ اس اونچائی سے ایشیا کی جانب سے آنے والے دشمن کے بحری جہازوں کو دور سے دیکھا جا سکے، لہٰذا یہ ٹاور دراصل بازنطینیوں نے قسطنطنیہ کی حفاظت کے پیش نظر تعمیر کیا تھا، لیکن جب سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ کو فتح کیا تو اس کالونی کو ختم کر کے اس ٹاور کو قیدیوں کے لیے جیل کے طور پر استعمال کیا۔
عثمانی دور حکومت میں اس ٹاور کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا، یہ وہی ٹاور ہے جس کے بارے میں ایک روایت مشہور ہے کہ عثمانی سلطنت کے دوران 1638ء میں "ہیزرافرن احمد چلبی" نامی شخص نے اپنے کندھوں کے ساتھ بہت بڑے پر باندھے اور ٹاور کی بلندی سے چھلانگ لگا دی اور اڑتا ہوا قسطنطنیہ کے یورپ والے حصے سے ایشیا والے حصے میں اتر گیا، اور ایک براعظم سے کسی دوسرے براعظم میں اڑ کر پہنچنے والا پہلا شخص بن گیا۔
یہ واقعہ عثمانی دور کے ایک مصنف "ایویا چلبی" نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے۔ یہ واقعہ درست ہے یا نہیں، لیکن ہم اس تاریخی ٹاور کو دیکھنے کے لئے پل کراس کر کے گلیوں میں داخل ہو گئے، جہاں مسلسل سیڑھیاں تھیں، لگاتار اتنی زیادہ تعداد میں سیڑھیاں میں نے پہلی بار دیکھیں، دائیں بائیں گھر تھے اور ہر گھر کے دروازے پر تین تین، چار چار بلیاں بیٹھیں ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہی تھیں۔
اتنی زیادہ تعداد میں بلیوں کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے میں اور اشفاق مسلسل سیڑھیاں چڑھتے رہے، ایک دو جگہوں سے راستہ پوچھتے ہوئے ہم اس مین گلی میں پہنچ گئے جہاں سے گلاٹا ٹاور سامنے دکھائی دے رہا تھا۔ کسی زمانے میں یہ ٹاور یقیناََ کھلی جگہ ہوتا ہو گا، لیکن اب یہ سارا علاقہ گنجان آباد ہے اور گلاٹا ٹاور بہت سی عمارتوں کے درمیان آ چکا ہے۔
ہم نے ٹاور کے چھت پر جانے کے لیے ٹکٹ لیے اور قطار میں کھڑے ہو گئے، شام پونے آٹھ کا وقت ہو چکا تھا لیکن دھوپ ابھی تک تھی، کیونکہ ترکی میں مغرب کی اذان کا وقت پونے 9 بجے تھا۔ خیر لفٹ کے ذریعے ٹاور کے چھٹے فلور پر پہنچے، اس کے اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں، سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہم گلاٹا ٹاور کے سب سے اوپر والے فلور پر آ گئے جہاں سے استنبول شہر کو 360 ڈگری کے زاویے سے دیکھا جا سکتا تھا۔
گلاٹا ٹاور کے ٹاپ سے استنبول شہر کا نظارہ نہ بھولنے والا تجربہ تھا، پورا شہر ایک پینٹنگ کی طرح سامنے دکھائی دے رہا تھا۔ ٹاور کے ٹاپ سے ہم دائیں جانب با آسانی استنبول کا یورپ والا حصہ دیکھ سکتے تھے جسے "گولڈن ہارن" شمالی اور جنوبی حصے میں تقسیم کر رکھا تھا، اور بائیں جانب استنبول کا ایشیاء والا حصہ دکھائی دے رہا تھا اور درمیان میں سمندر کا گہرا نیلا پانی، اور اس پانی میں بے شمار کشتیاں دکھائی دے رہی تھیں۔
وہاں کھڑے میں یہ سوچ رہا تھا کہ حفاظتی نقطہ نظر سے بازنطینیوں نے یہ کیا کمال عمارت بنائی تھی، کیونکہ آج شہر اتنا گنجان آباد ہونے کے باوجود بھی، سمندر میں ایک ایک چیز دور سے بھی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ٹاور کی اونچائی سے سمندر کے نیلے پانی کے اس پار آیاصوفیہ مسجد اور سلطان احمد کی بنائی نیلی مسجد خوبصورت دکھائی دے رہی تھی اور وہیں سے استنبول کے ایشیا والے حصے میں وہ جدید مسجد جو ترکی کے صدر طیب اردگان نے بنوائی ہے، بھی دیکھی جا سکتی تھی۔
میں نے مختلف ملکوں میں جتنے بھی شہر دیکھے ہیں ان میں استنبول سب سے زیادہ صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک شہر ہے۔ ہزاروں فٹ کی بلندی سے بھی آپ کو شہر کی ایک ایک عمارت صاف دکھائی دیتی ہے۔ اگر آپ استنبول آئیں اور آپ گلاٹا ٹاور سے اس شہر کا نظارہ نہ کریں، تو سمجھیں آپ نے استنبول کو صحیح معنوں میں نہیں دیکھا۔
گلاٹا ٹاور کے ٹاپ سے استنبول شہر کو چاروں طرف سے دیکھنے کے بعد ہم سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترے، یہ سیڑھیاں بہت بڑے بڑے بھاری پتھروں سےبنائی گئی ہیں، جن سے جھک کر ہی گزرا جا سکتا ہے۔ سیڑھیوں کے پتھروں کو خوبصورتی سے تراشا گیا ہے اور ان پتھروں پر جب روشنی پڑتی ہے تو یہ اور بھی خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔
گلاٹا ٹاور کے چھٹے فلور پر ایک بڑی سکرین لگائی گئی ہے، جہاں احمد چلبی کی وہ فرضی ویڈیو دکھائی جا رہی تھی، کہ کیسے پروں کی مدد سے اس نے گلاٹا ٹاور سے چھلانگ لگائی تھی۔ پانچویں فلور پر لوہے کی زنجیر کا کچھ حصہ بھی رکھا گیا ہے، جو بازنطینیوں نے قسطنطنیہ کی حفاظت کے لئے "گولڈن ہارن" میں لگا رکھی تھی۔ موجودہ حکومت نے گلاٹا ٹاور کو 2000ء میں میوزیم کی شکل دے دی اور تاریخی حوالے سے کچھ اشیاء، سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ٹاور کے مختلف حصوں میں رکھی گئی ہیں۔
اس ٹاور کو ماضی میں کبھی کسی طوفان سے نقصان پہنچا تو کبھی یہ آگ کی زد میں آیا، لیکن 1965ء میں اس کے بالائی چھت کو نئے سرے سے تعمیر کر کے سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا۔ جب ہم گلاٹا ٹاور سے نیچے اتر رہے تھے، اس وقت استنبول شہر کی مسجدوں سے اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جو شہر صدیوں تک بازنطینیوں کے پاس رہا اور اس شہر کو فتح کرنے کی خواہش ہر مسلمان حکمران کے دل میں رہی اور آخر یہ سعادت 1453ء کو سلطان محمد فاتح کو نصیب ہوئی، میں آج اس شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا۔
واپسی پر گلاٹا پل کو کراس کرنے کے بعد ہم "مرمرے اسٹاپ" پر سمندر کے کنارے آ کر بیٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھا رہا تھا، سمندر کی لہروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور سامنے گلاٹا ٹاور اور باقی عمارتوں پر روشنیاں پھیل چکی تھیں اور وہ سارا منظر ہمیشہ کے لئے میری یاداشت کا حصہ بن گیا۔