Fateh e Qastantunia Ke Mazar Par
فتح قسطنطنیہ کی مزار پر
قسطنطنیہ کے سب سے بڑے گرجا گھر سے ٹن ٹن کی آواز آ رہی تھی، ہر طرف افراتفری تھی اور ہر بازنطینی، اس بات سے فکر مند دکھائی دے رہا تھا، کہ اس 21 سال کے ترک نوجوان نے، اگر واقعی قسطنطنیہ پر حملہ کر دیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ قسطنطنیہ کا شہنشاہ قسطنطین الیون، اس ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے اپنی ساری فوج حفاظت پر لگا چکا تھا، مگر اس کے باوجود وہ خوف میں مبتلا تھا۔
قسطنطین نے یورپ کے عیسائیوں سے بھی مدد مانگ لی، یورپ کے عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ قسطنطنیہ کے عیسائی آرتھوڈوکس فرقے سے۔ قسطنطنیہ میں رہنے والے آرتھوڈوکس عیسائی، کیتھولک فرقے کے عیسائیوں کو لا دین سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ قسطنطنیہ میں رہنے والا عیسائیوں کا فرقہ آرتھوڈوکس اپنے ہی شہنشاہ قسطنطین کے خلاف ہو چکا تھا۔
اور وہ کسی صورت یورپی عیسائیوں سے مدد لینے کے لیےتیار نہیں تھے۔ آیا صوفیہ کے آرتھوڈوکس پادریوں نے بادشاہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیتھولک عیسائیوں سے مدد لینے سے بہتر تھا کہ ہم ترکوں کی غلامی میں چلے جاتے، یہ ساری صورت حال جاری تھی کہ 28 مئی 1453ء کا دن آگیا اور سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر حملہ کر کے قسطنطنیہ پر صدیوں سے قائم رہنے والی بازنطینی حکومت کو ملیامیٹ کردیا۔
اور اسلام کا پرچم آیاصوفیہ چرچ پر لہرا دیا۔ میں آیا صوفیہ کے سامنے سرسبز لان کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھا بند آنکھوں سے یہ سارا منظر تصوراتی طور پر دیکھ رہا تھا، مسجد کے سپیکر سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی، میرے منہ سے الحمداللہ نکلا اور یک دم 1453ء سے 2022ء میں آ گیا۔ یہ 15جون بدھ کا دن تھا، اشفاق اور میں دن دو بجے استنبول پہنچے، ایئرپورٹ کے احاطے سے ٹیکسی کرایہ پر لی اور استنبول کے علاقے، سلطان احمد، جو آیا صوفیہ سے چار کلومیٹر دور ہے، وہاں ایک ہوٹل پہنچ گئے، جس کی بکنگ ہم نے پہلے ہی کروا رکھی تھی۔
یہ میرا ترکی کا دوسرا ٹور تھا اس سے پہلے میں ستمبر 2018 میں قاسم علی شاہ صاحب کے ساتھ سات دنوں کے لئے یہاں آ چکا تھا۔ لیکن استنبول شہر میں معلوم نہیں کونسی کشش تھی، جو مجھے یہاں دوبارہ کھینچ لائی۔ ہمارا ترکی کا یہ ٹور 11دنوں کا تھا اور میں ان گیارہ دنوں کے ایک ایک پل کو بھرپور انداز سے گزارنا چاہتا تھا۔
دو گھنٹے ہم نے ہوٹل میں آرام کیا اور فریش ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم نے اس عظیم ہستی "سلطان محمد فاتح" کے مقبرے پر جانے کا ارادہ کیا، جس کی بدولت ہم آج آزادی کے ساتھ اس سر زمین کو دیکھنے آئے تھے۔ یہ وہ عظیم شہر ہے، جس کی فتح کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا تھا "جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا وہ امیر بہترین امیر ہوگا اور اس کا لشکر بہترین لشکر ہوگا۔
یہی وجہ تھی کہ بے شمار صحابہ کرام اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کامیابی اللہ تعالی نے ایک ترک نوجوان "سلطان محمد فاتح" کے نصیب میں لکھی، جس نے 1453ء میں قسطنطنیہ کو فتح کر کے اس شہر کا نام استنبول رکھ دیا۔ ہم پانچ بجے ہوٹل سےنکلے، قریب ہی ٹرام اسٹیشن سے 50 لیرا کا کارڈ لیا اور ہم "اکسرائے اسٹیشن" سے ٹرام میں بیٹھ کر آیاصوفیہ اسٹیشن پر پہنچ گئے۔
استنبول کے میئر نے دنیا بھر سے آئے سیاحوں کے لیے بہترین سفری سہولتوں کا اہتمام کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح استنبول کا رخ کرتے ہیں۔ ٹرام اور میٹرو بس کا ایک کارڈ پچاس لیرا میں مل جاتا ہے۔ جس کے ذریعہ آپ سات لیرا میں استنبول شہر میں کسی بھی جگہ جا سکتے ہیں، ہم نے بھی اسی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔ "اکسرائےاسٹاپ" سے چوتھا اسٹیشن آیا صوفیہ مسجد کا تھا۔
جونہی ہم ٹرام سے اتر کر دائیں جانب گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو ہماری آنکھوں کے سامنے آیاصوفیہ مسجد کے بلند مینار تھے اور دائیں جانب سلطان احمد کی بنائی "نیلی مسجد"۔ ان دونوں مساجد کے درمیان سلطان محمد فاتح کا مقبرہ تھا، جس نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا اور اسی مقبرے پر حاضری کے لئے ہم آج یہاں پہنچے تھے۔ مقبرے پر حاضری کے بعد ہم آیاصوفیہ کے سامنے سرسبز لان کے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔
جونہی اللہ اکبر کی صدا میرے کانوں میں پڑی، ہم مغرب کی نماز کی ادائیگی کے لیے نیلی مسجد کی طرف چل دیے، نیلی مسجد کے میناروں کے درمیان لائٹ آن ہوئیں اور ان روشنیوں سے خوبصورت انداز میں محمد رسول اللہ لکھا گیا تھا، جونہی مجھے نیلی مسجد کے چھ بلند مینار نظر آئے، مجھے اس مسجد کے بنانے کی وجہ اور میناروں کا واقعہ یاد آ گیا، قسطنطنیہ فتح ہو چکا تھا اور آیا صوفیہ، چرچ سے مسجد بھی بن چکی تھی۔
لیکن سلطنت عثمانیہ کے سلطان "احمد" کی یہ خواہش تھی کہ جس طرح عیسائیوں نے قسطنطنیہ میں اپنے وقت کا سب سے بڑا چرچ بنایا تھا، اسی طرح بالکل اس کے سامنے مسلمانوں کی بھی ایک عظیم عبادت گاہ ہونی چاہیے۔ لہذا سلطان احمد نے یہ نیلی مسجد 1609ء سے 1616ء کے درمیان تعمیر کروائی۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی اور سلطان کو مسجد دیکھنے کی دعوت دی گئی۔
جو نہی سلطان نے مسجد کے چھ مینار دیکھے تو اس نے بہت ناراضگی کا اظہار کیا، دراصل اس وقت مسجد الحرام میں میناروں کی تعداد چھ تھی، اس لیے سلطان احمد احترام یہ نہیں چاہتا تھا کہ مسجد الحرام کے میناروں کے برابر کسی اور مسجد کے مینار ہوں۔ چونکہ اس مسجد کی تعمیر اب مکمل ہو چکی تھی، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فورا مسجد الحرام میں اب ایک مینار کا مزید اضافہ کیا جائے۔
لہذا اسی وقت سلطان کے حکم پر مسجد الحرام میں ساتواں مینار تعمیر کیا گیا۔ سلطان احمد کے عشق نے یہ گوارا نہ کیا کہ نیلی مسجد کے میناروں کی تعداد، مسجدالحرام کے میناروں کی تعداد کے برابر ہو۔ اسی طرح عشق رسول ﷺ میں، سلطنت عثمانیہ کے بے شمار سلاطین کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مسجد کے قریب ہی وضو کے لیے جگہ مخصوص کی گئی ہے۔
ہم وضو کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہوئے، مسجد کے مرکزی دروازے پر پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک شخص ان سیاحوں کی رہنمائی کر رہا تھا۔ جو صرف مسجد دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ استنبول شہر میں چونکہ پوری دنیا سے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے سیاح آتے ہیں۔ اس لیے غیر مسلم سیاحوں کے لیے ہر مسجد کے مرکزی دروازے پر حجاب کے لئے چادریں رکھی گئی ہیں تاکہ یہ سیاح مسجد کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اندر داخل ہوں۔
مغرب کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد ہم دوبارہ کچھ دیر کے لیے آیاصوفیہ اور نیلی مسجد کے درمیان آ کر بیٹھ گئے۔ جمعہ کا دن ہم نے صرف آیاصوفیہ مسجد اور توپ کاپی محل کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ اس لئے آج ہم آیاصوفیہ مسجد کے اندر نہ گئے۔ آج کا سارا دن کیونکہ ہم نے سفر میں گزارا تھا۔ اس لئے ہم نے واپسی کا راستہ لیا اور ٹرام کے بجائے پیدل سفر کرتے ہوئے ہوٹل کی طرف چل دیے۔
راستے میں اسی مرکزی سڑک کے کنارے ایک ریسٹورنٹ سے، ہم رات کا کھانا کھانے کے لئے رک گئے۔ وہ درخت روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ جس کے نیچے ہم بیٹھے تھے۔ میرے بالکل سامنے ایک ترک فیملی کھانا کھا رہی تھی۔ اس فیملی میں میاں بیوی اور بچوں کے علاوہ ایک اسی سال کے لگ بھگ بوڑھی عورت بھی تھی، جو غالبا ان بچوں کی دادی ہوگی۔ کھانے کے بعد اس مرد نے کھانے کا بل ادا کیا اور جانے کے لئے کھڑے ہوئے۔
مرد نے اس بوڑھی عورت کو سہارا دینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ وہ بوڑھی عورت آسانی سے کھڑی ہو سکے۔ بوڑھی عورت جس کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے سفید تھے اور بہت چست دکھائی دے رہی تھی، نے مرد کے ہاتھ کو پیچھے کیا اور خود اٹھنے کی کوشش کی۔ دوسری مرتبہ پھر اس مرد نے جو شاید اس کا بیٹا ہوگا ہاتھ آگے بڑھایا، مگر اس بوڑھی عورت نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا اور ہمت کرکے خود اٹھی۔
اور ایک کرسی کو خود سائیڈ پے کر کے ان کے ساتھ پیدل چلنے لگی۔ میں بڑے غور سے اس بوڑھی عورت کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس عمر میں سیدھے کھڑے ہو کر چل بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن اس نے اس کے باوجود کسی دوسرے کا سہارا لینے سے انکار کر دیا، اسی وقت مجھے میرے ایک دوست بھٹی صاحب یاد آگئے، جن کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہے، وہ اکثر اپنی باتوں میں کہتے ہیں۔
اب اس عمر میں ہم نے زندگی کیا جینا ہے، اب تو ہم بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اسی خیال کے ساتھ میرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور میں سوچنے لگا کی اگر انسان زندگی کو مثبت انداز میں دیکھے تو اسی سال کا بوڑھا انسان بھی بغیر کسی سہارے کے چلنا پسند کرتا ہے اور اگر ہمت ہار جائے تو پھر صرف 50 سال میں ہی بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ہم نے زندگی کیسے جینا ہوتی ہے، اس کا فیصلہ بہرحال ہم نے خود ہی کرنا ہوتا ہے۔