Wednesday, 22 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Do Meethy Bol

Do Meethy Bol

دو میٹھے بول

یہ جولائی 2004ء کی بات ہے، میرے والد صاحب کی ٹانگ کا آپریشن ہوئے ایک دن گزر گیا لیکن ٹھیک ہونے کے بجائے ٹانگ میں درد بڑھنے کے ساتھ ساتھ حرکت میں بھی کمی ہونے لگی اور دوسرے دن کی شام تک وہ بے ہوشی کی کیفیت میں چلے گئے۔ جس ڈاکٹر نے ان کا آپریشن کیا تھا وہ بھی اتوار کو چھٹی کی وجہ سے سیالکوٹ سے لاہور چلا گیا۔ ہم دونوں بھائی والد صاحب کو اسی حالت میں لے کر فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال سے سی ایم ایچ سیالکوٹ آ گئے، وہاں پہنچے تو انہیں فوراََ آئی سی یو میں داخل کر لیا گیا۔

ڈاکٹرز نے ابتدائی چیک اپ کے بعد کہا کہ ان کی ٹانگ تو ضائع ہو چکی ہے، جونہی یہ بات میں نے سنی تو مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو، کیونکہ تین دن پہلے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک صحت مند حالت میں گھر سے سیالکوٹ اپنی ڈیوٹی پر فوجی فاونڈیشن ہسپتال سیالکوٹ یہ کہہ کر آئے تھے کہ ایک معمولی سا ٹانگ کا آپریشن کروانا ہے اس لئے میں اس ہفتے آنے کے بجائے اگلے ہفتے گھر آؤں گا۔

دراصل ان کی ایک ٹانگ میں خون کی سرکولیشن بہتر نہیں تھی اس لیے وہ اسی ہسپتال سے جہاں وہ نوکری کرتے تھے، کے ڈاکٹر کے کہنے پر آپریشن کے لئے تیار ہوئے لیکن آپریشن کے بعد بجائے ٹانگ ٹھیک ہونے کے اس میں خون کی گردش بالکل رک گئی۔ جب ہم سی ایم ایچ پہنچے تو پتہ چلا کہ جس ڈاکٹر نے آپریشن کیا وہ بالکل غلط کیا، جس کی وجہ سے ان کی ایسی حالت ہو گئی۔ خیر اسی کیفیت میں دو دن گزرے اور ڈاکٹرز نے آپریشن کر کے ان کی ٹانگ کاٹنے کا فیصلہ کر لیا۔

4 جولائی کو آپریشن سے پہلے میں چار ڈاکٹرز کے پینل میں سے ایک ڈاکٹر کرنل اورنگزیب کے پاس گیا اور نم آنکھوں سے کہا کہ پلیز میرے والد کی ٹانگ بچا لیں، میری حالت کو دیکھ کر انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا اور کہنے لگے کہ دیکھیں ہمارے لیے اس وقت اہم یہ ہے کہ کسی طرح مریض کی جان بچ جائے ٹانگ کی جو حالت ہے اس میں ہمیں گھٹنے کے نیچے سے کاٹنی پڑے گی، یہ سن کر میں مزید افسردہ ہو گیا۔

میں نے دوبارہ درخواست کی کہ ڈاکٹر صاحب اگر ٹانگ کاٹنا اتنا ہی ضروری ہے تو پلیز صرف پاؤں تک کاٹیں، زیادہ نہیں۔ ڈاکٹر اورنگ زیب نے جو جواب دیا تھا وہ مجھے آج بھی یاد ہے، انہوں نے کہا بیٹا ہم ایک انگلی کاٹیں یا ایک پوری ٹانگ، ہمارے وہ کس کام کی، بس آپ دعا کریں آپ کے والد کی جان بچ جائے۔ خیر آپریشن ہوا اور اس دوران میرے چچا اکبر میرے ساتھ تھے، جنہوں نے زندگی میں میرے ہر غم اور خوشی میں ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ ان کی وجہ سے مجھے بہت حوصلہ تھا۔

چھ گھنٹے کے آپریشن کے بعد والد صاحب کی ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دی گئی اور انہیں آئی سی یو میں بے ہوشی کی حالت میں منتقل کر دیا گیا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹر کرنل اورنگزیب نے مجھے کہا کہ بیٹا اگر آپ کے والد کی جگہ میرے والد بھی ہوتے تو میں اتنی ہی کوشش کرتا جتنی آج میں نے کی۔ آپ کے والد کی ٹانگ تو کٹ گئی لیکن اب وہ خطرے سے باہر ہیں اور ساتھ ہی مجھے انہوں نے حوصلہ دیا۔

اپنے والد کی کٹی ہوئی ٹانگ دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا، میرے چچا نے کس حوصلے سے ٹانگ کا وہ حصہ کہیں دفن کیا ہو گا میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ والد صاحب ٹھیک ہو گئے، وہ معذور تو ہوں گے لیکن اللہ نے انہیں نئی زندگی بخش دی اور وہ الحمداللہ 73 سال کی عمر میں صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔

اللہ کریم نے میرے والد کو بےحد حوصلہ دے رکھا ہے، آپریشن سے ایک دن پہلے ڈاکٹرز نے مجھے بتا دیا تھا کہ کل آپ کے والد کی ٹانگ کاٹنا پڑے گی، میں اس رات دس بجے والد کے پاس آئی سی یو میں گیا تو میرے ذہن میں یہ تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کل صبح ان کی ٹانگ کاٹ دی جائے گی، لیکن ڈاکٹر شام کو اپنے راونڈ پر یہ بات انہیں پہلے ہی بتا چکے تھے۔

میں ان کے بیڈ کے پاس کھڑا تھا، ان کی ذہن میں یہ تھا کہ مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے، مجھے اپنے قریب بلا کر مسکراتے ہوئے یہ کہنے لگے، بچے! یہ ٹانگ 57 سال میرے ساتھ رہی ہے لیکن اب اس کا ساتھ رہنے کا ارادہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا ہے کہ یہ کل کاٹنی پڑے گی۔ ان کے منہ سے یہ بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بجائے اس کے کہ میں انہیں حوصلہ دیتا، وہ مجھے حوصلہ دے رہے تھے۔ میں نے اپنے والد کی طرح کا حوصلہ مند شخص کم ہی زندگی میں دیکھا۔

بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہوا لیکن ڈاکٹر کرنل اورنگزیب جیسا فرشتہ صفت انسان آج بھی مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس نے مجھے حوصلہ دیا اور کتنی محنت سے میرے والد صاحب کا آپریشن کیا۔ دو دن پہلے میں تیمور کی عیادت کے لیے اس کے گھر گیا۔ تیمور نہایت مخلص، ملنسار اور اچھی شخصیت کا مالک لڑکا ہے، اس کے تین چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ دو ماہ قبل اس کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا، اسے الیون کے وی کی کیبل سے کرنٹ لگا، اسے فوراََ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں وہ دو ماہ ایڈمٹ رہا۔

اس کی جان تو بچ گئی لیکن اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا اور دوسرے ہاتھ کے بھی کئی آپریشن ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اس میں حرکت نہیں۔ ساتھ ہی ایک پاؤں کی تین انگلیاں بھی کاٹ دی گئیں۔ اس کی حالت دیکھ کر مجھ پر سکتہ سا طاری ہو گیا، اللہ نے اسے بھی بہت حوصلہ دے رکھا ہے۔ جب میں اس کی عیادت کے لیے گیا تو مجھ سے مسکرا کر باتیں کر رہا تھا اور ساتھ اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اللہ نے مجھے بچا لیا ورنہ اسپتال میں میں نے ایسے ایسے مریض بھی دیکھے جن کے کرنٹ لگنے کی وجہ سے دونوں بازو اور دونوں ٹانگیں تک کٹ گئیں۔

تیمور کی یہ حالت دیکھ کر دکھ ہوا لیکن اللہ نے اسے حوصلہ دیا اور وہ پر امید نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد تیمور بولا، بھائی یہ ہسپتال کا عملہ اتنا بےحس اور بےرحم کیوں ہوتا ہے؟ میں سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا وہ دوبارہ گویا ہوا۔ مجھے جب آپریشن کے لیے آپریشن تھیٹر لے جایا جا رہا تھا تو میرے والد میرے ماتھے پر بوسہ کرنے لگے تو اسی لمحے اس عملے میں سے کسی نے کہا بابا جی پیچھے ہٹ جاؤ، دیکھ نہیں رہے کہ ہم اسے آپریشن تھیٹر لے جا رہے ہیں۔

میرے والد جذباتی ہو گئے اور بولے کہ اگر میں اس حالت میں اپنے بیٹے کے ماتھے پر بوسہ نہ کروں تو کیا کروں؟ خیر یہ اتنی بڑی بات نہ تھی لیکن انہوں نے۔۔ تیمور یہ بات کرتے ہوئے ایک لمحے کیلئے خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا، بھائی انہوں نے ظلم یہ کیا کہ آپریشن کے بعد میرا جو ہاتھ کٹ گیا انہوں نے وہ ہاتھ ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر میرے والد کو پکڑا دیا، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے بڑے آرام سے کہہ دیا یہ مریض کا وہ ہاتھ ہے جو کٹ گیا۔

یہ سنتے ہی میرے والد بے ہوش ہو گئے۔ تیمور کہنے لگا کہ آپریشن کے دو تین دن بعد، جب یہ بات میرے کزن نے مجھے بتائی تو مجھے بہت دکھ ہوا اور میں بار بار یہی سوچتا رہا کہ میرے والد پر کیا گزری ہو گی؟ یہ واقعی ایک تکلیف دہ بات تھی، پھر تیمور کہنے لگا ہو سکتا ہے کہ اس عملے کو یہ معلوم نہ ہو کہ وہ جسے یہ شاپنگ بیگ دے رہے ہیں وہ مریض کا والد ہو لیکن کیا انہیں پوچھنا نہیں چاہیے تھا کہ آپ مریض کے کیا لگتے ہیں؟ وہاں میرے کزن بھی تھے وہ انہیں دے دیتے۔

تیمور کی یہ حالت اور یہ باتیں یقیناََ تکلیف دہ تھیں۔ میں اس کی بات کے دوران یہ سوچ رہا تھا کہ اچھے اور برے لوگ ہر جگہ ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں، ایک طرف ایسی ہی صورتحال میں ڈاکٹر اورنگزیب جیسا عظیم انسان تھا اور دوسری طرف کسی ڈاکٹر کی اتنی بے حسی۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ ہونا تو وہی ہوتا ہے جو اللہ نے کسی کے نصیب میں لکھ دیا ہو لیکن ایسے تکلیف دہ لمحات میں لوگوں کے رویے نہیں بھولتے۔ ایسی حالت میں اگر کسی کے دو میٹھے بول آپ کو بلند حوصلہ کر دیتے ہیں تو کسی کی بے رخی انسان کو ایسے زخمی کر دیتی ہے کہ زندگی بھر وہ زخم نہیں بھر پاتے۔

خوشی میں کی ہوئی باتیں تو شاید انسان بھول جاتا ہے مگر تکلیف دہ لمحات میں کسی کے بولے دو میٹھے بول انسان زندگی بھر نہیں بھولتا، کیوں کہ وہ دو بول صرف بول نہیں ہوتے، دراصل کسی کی زندگی ہوتے ہیں۔ کاش ہم سب ایسے دکھ بھرے لمحات میں ایک دوسرے کی کیفیات کو سمجھ سکیں اور اگر ہمارے دلوں میں ایسے احساسات جنم نہیں لیتے تو یقین کیجیے پھر یہ زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔

Check Also

Ye Aap Ka Bohran Hai, Pakistan Ka Nahi

By Irfan Siddiqui