Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Altaf Ahmad Aamir/
  4. Aspendos Mein Guzra Aik Din

Aspendos Mein Guzra Aik Din

اسپنڈوس میں گزرا ایک دن

جب سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت وہ سارا علاقہ اناطولیہ ہی کہلاتا تھا جو آج کا ترکی ہے یعنی اس وقت آج کے ترکی کا 97 فیصد حصہ اناطولیہ کہلاتا تھا باقی تین فیصد قسطنطنیہ، جو آج کا استنبول ہے، لیکن آج کا اناطولیہ ترکی کے 81 ضلعوں میں سے ایک ضلع ہے جو ترکی کے مشرق میں واقع ہے۔

استنبول کے بعد اناطولیہ، ترکی کا دوسرا بڑا سیاحتی مقام ہے۔ اناطولیہ اپنی تاریخی حیثیت کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ آج کل زیادہ تر سیاح جنہوں نے قونیا، کیپاڈوسیا اور اسپینڈس جانا ہو وہ پہلے اناطولیہ ہی آتے ہیں کیونکہ یہ تمام مذکورہ علاقے اناطولیہ سے قریب ہیں۔ سیاح استنبول سے بس یا ہوائی جہاز کے ذریعے اناطولیہ پہنچتے ہیں، اناطولیہ کا سٹی ٹور کرتے ہیں اور اس کے بعد ان قریبی سیاحتی مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اس لئے اناطولیہ کا ایئرپورٹ استنبول کے بعد ترکی کا دوسرا مصروف ترین ائیرپورٹ ہے۔

19جون 2022ء کو ہم بس کے ذریعے استنبول سے اناطولیہ پہنچے، بس کے ذریعے یہ سفر تقریبا بارہ گھنٹوں پر محیط تھا۔ اناطولیہ کے ساحل دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتے ہیں، ہم نے جہاں رہائش کے لئے ہوٹل لیا وہاں سے ساحل سمندر چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔ اناطولیہ پہچتے ہی ہم نے ساحل سمندر کا رخ کیا اور اس قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

اناطولیہ میں ہم نے تین دن رکنا تھا، وہاں سے ہم تین الگ الگ مقامات کے ٹورز لے سکتے تھے۔ ایک دن اناطولیہ کا سٹی ٹور، دوسرا قونیا اور تیسرا رومن اور یونانی تاریخی شہر اسپینڈس۔ تاریخ کا طالب علم ہونے کی وجہ سے مجھے تاریخی مقامات دیکھنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے، اس لیے پہلے دن ہم نے اسپینڈس کا ٹورکرنے کا پروگرام بنایا۔ وہاں کی ایک سیاحتی کمپنی سے رابطہ کیا اور چھ سو ترک لیرا فی کس کے حساب سے ہم نے اس ٹور کی بکنگ کروا لی اور ہم 20 جون صبح سات بجے یہ تاریخی جگہ دیکھنے نکل پڑے۔

ہمارے گروپ میں کل 20 کے قریب لوگ تھے، اناطولیہ کے مشرق میں تقریبا چالیس کلو میٹر دور پانچ ہزار قبل مسیح میں ایک قدیم شہر آباد تھا جس کا نام اسپینڈس تھا۔ اسپینڈس پمفالیہ کا اہم ترین شہر تھا۔ پانچ ہزار قبل مسیح میں پمفالیہ کا علاقہ رومنز نے آباد کیا تھا، یہ علاقہ مختلف ادوار میں رومیوں، یونانیوں اور فارسیوں کے زیر تسلط رہا۔ پمفالیہ کا دارالحکومت پریگے (Perge) تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ پمفالیہ میں اسپینڈس تھیٹر مشہور جگہ تھی جو آج بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ سائیڈ شہر پمفالیہ کا اہم ترین علاقہ تھا۔ یہ بھی ساتھ ہزار قبل مسیح میں رومیوں نے آباد کیا تھا۔ پریگے قدیم یونانی شہر جو کبھی پمفالیہ کا دارالحکومت رہا، اس شہر کے کھنڈرات موجودہ اناطولیہ سے پندرہ کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہیں۔

ہمارا ترک گائیڈ جو اچھی انگریزی جانتا تھا وہ ہمیں سب سے پہلے اسی قدیم شہر پریگے لے آیا۔ یہ کھنڈرات رومن طرز تعمیر کی شاندار باقیات ہیں، لمبے لمبے عمودی کالم بہت بھاری بھاری سلوں پر آج بھی بڑی مضبوطی سے قائم ہیں۔ پریگے شہر میں داخلے کا ایک بہت بڑا مرکزی دروازہ تھا، اس دروازے کے بائیں جانب اس وقت کے امراء کے لئے ایک شاندار سوئمنگ پول بنا تھا، یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ سات ہزار قبل مسیح میں بھی یونانیوں میں سوئمنگ پول بنانے کا تصور موجود تھا۔ اس پول کے ساتھ پانی کو گرم رکھنے کے لیے زیر زمین بھٹیاں بنی ہوئی تھیں۔ پانی ان بھٹیوں میں سے دو تین مراحل میں سے ہوتا ہوا اس سوئمنگ پول تک پہنچتا تھا۔

اس پول کے بالکل سامنے ایک بڑا ہال تھا جہاں اس وقت کے امراء گپ شپ کے لیے بیٹھے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے اس سوئمنگ پول کو استعمال کرنے کے لئے الگ الگ اوقات مقرر تھے۔ پھر گائیڈ نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں بڑے بڑے عمودی کالم بڑی ترتیب سے ایک مربع کی شکل میں تھے، ان کالموں کے درمیان کھلا میدان تھا اور کالموں کے ساتھ ساتھ چاروں طرف ایک سڑک تھی اور سڑک کے دوسری جانب یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہاں کبھی مارکیٹ تھی۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ جگہ کبھی پریگے کا بازار تھا جس کا نام انگورا تھا۔

پریگے کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے بڑے بڑے بھاری پتھروں کے ساتھ ایک نہر بھی بنائی گئی تھی۔ گائیڈ کے مطابق قدیم دور میں وہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دریا بہتا تھا، اس دریا کے پانی کو اس شہر تک پہنچانے کے لیے یہ نہر بنائی گئی تھی۔ مرکزی دروازے کے نیچے بڑے بڑے حوض اس لیے بنائے گئے تھے کہ اگر کبھی پانی زیادہ آجاتا تو یہ حوض کھول دیے جاتے اور پانی وہاں سے بڑی نالیوں کے ذریعے شہر سے باہر نکال دیا جاتا۔ رومیوں کے بعد یہ شہر فارسیوں اور یونانیوں کے زیر تسلط رہا۔ 334 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر پر حملہ کیا اور بھاری لگان دینے کی شرط پر سکندر اعظم نے اس علاقے کو لڑائی کے بغیر اپنی کالونی بنا لیا۔ بعد کے ادوار میں بھی پریگے ایک اہم شہر کی حیثیت سے قائم رہا۔

ترکی کی حکومت نے اس قدیم شہر کو سیاحت کے لئے ایک شاندار مقام بنا رکھا ہے۔ پریگے میں ہم نے دو گھنٹے گزارے اور اس کے بعد دن گیارہ بجے ہم اسپینڈس تھیٹر پہنچ گئے۔ اسپینڈس میں سیاحوں کے لیے جو سب سے زیادہ پرکشش مقام ہے وہ یہ تھیٹر ہی ہے۔ میں جو نہی اسپینڈس تھیٹر میں داخل ہوا تو اس کی بناوٹ نے مجھے حیران کر دیا۔ یہ تھیٹر رومیوں نے 160 سے 180 عیسوی کے درمیان بنایا تھا، فصلوں کی کٹائی کے بعد رومن مختلف جگہوں پر تفریح کے لئے کھیل تماشے اور مختلف پروگرام کرتے تھے، اس وقت کی شہنشاہ نے سوچا، کیوں نہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک ایسی جگہ تعمیر کی جائے جہاں یہ سارے لوگ اکٹھے ہوکر مختلف فنکاروں کے فن کا مظاہرہ دیکھ سکیں، اس لئے اس نے یہ تھیٹر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

اس تھیٹر میں ایک بہت بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا اور تھیٹر میں بڑے بڑے بھاری پتھروں سے بیٹھنے کے لیے سیٹ بنائی گئیں، اس تھیٹر میں بیک وقت نو ہزار لوگ بیٹھ سکتے تھے۔ پورے تھیٹر میں صرف پانچ ایسے کرسیاں بنائی گئی تھیں، جہاں اس وقت کے خاص لوگ بیٹھ کر فنکاروں کے فن کا مظاہرہ دیکھا کرتے تھے، میں اس سیٹ پر بیٹھا اور ایک لمحے کے لیے خود کو رومن دور کا کوئی خاص فرد محسوس کیا، جو اس تھیٹر میں فنکاروں کی پرفارمنس دیکھنے آیا تھا، تھیٹر میں بیٹھے میں تصوراتی طور پر یہ دیکھ رہا تھا کہ تھیٹر لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور کچھ فنکار لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لوگوں کے شور کی آوازیں پورے تھیٹر میں گونج رہی تھیں، کوئی سیٹیاں بجا رہا تھا تو کوئی اونچی اونچی آواز میں چیخ رہا تھا لیکن اگلے ہی لمحے گائیڈ کی آواز میرے کانوں میں آئی کہ یہاں آپ کے پاس 30 منٹ ہیں آپ یہ تھیٹر دیکھنے کے بعد بس میں آجائیں۔

میں اس تصوراتی دنیا سے نکلا اور اشفاق کو لے کر تھیٹر کے بالکل اوپر والے حصے میں آ گیا، جہاں سے اس پرانے شہر کا نظارہ دیکھنے کے قابل تھا۔ مختلف ادوار میں اس تھیٹر کو نقصان پہنچتا رہا لیکن سلجوقی دور حکومت میں، سلطان علاءالدین سلجوقی نے اس تھیٹر کی مرمت کروائی۔ یہ تھیٹر ایشیا کا سب سے قدیم اور بڑا تھیٹر ہے اور آج بھی بہت اچھی حالت میں موجود ہے۔ دن کے دو بج چکے تھے، ہم تھیٹر سے نکلے اور ایک جھیل کے کنارے ریسٹورنٹ میں آگئے یہاں ہمارے گروپ کے لیے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ لنچ کے دوران مجھے ہمارے گروپ میں شامل پولینڈ کا ایک پنتالیس سالہ شخص ملا جو پیشے کے اعتبار سے ٹیچر تھا وہ اپنی والدہ کے ساتھ اناطولیہ دیکھنے آیا تھا۔ اس کی والدہ کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہوگی۔

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے ابھی تک شادی نہیں کی لیکن مجھے اس کی اچھی بات یہ لگی کہ وہ اپنی اتنی بوڑھی ماں کو لے کر تفریح کی غرض سے یہاں آیا تھا۔ اسپینڈس ٹور میں ہماری آخری منزل سائڈ شہر تھا، یہ تاریخی شہر موجودہ اناطولیہ سے 78 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ شہر 7 ہزار قبل مسیح میں یونانیوں نے آباد کیا تھا لیکن آج ترکی کی حکومت نے سیاحت کے فروغ کی غرض سے یہاں جدید ریسٹورنٹس اور ہوٹل بنا رکھے ہیں۔ ہم جونہی سائیڈ شہر میں داخل ہوئے تو گائیڈ نے ہمیں ایک ٹرین میں بٹھا دیا اور وہ چھوٹی سی ٹرین اس قدیم شہر سائیڈ کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ دائیں بائیں قدیم شہر سائیڈ کے کھنڈرات تھے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم زمانہ قبل مسیح میں آ گئے ہوں۔ یونانی طرز تعمیر کے آثار جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ لمبے لمبے ستون اور بھاری پتھروں سے بنی عمارتیں چاروں طرف تھی اور ہم ان کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسی جگہ آ گئے جو قدیم اور جدید عمارتوں کا سینٹر تھا، یہ جگہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہی تھی۔

دائیں جانب سات ہزار قبل مسیح شہر سائیڈ کے کھنڈرات تھے اور بائیں جانب آج کے جدید ترکی کی خوبصورت عمارتیں۔ ترکی کی حکومت نے ان جدید عمارتوں کو بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا کہ جہاں قدیم آثار موجود رہیں۔ وہاں فرش پر موٹے گلاس لگا دیے جن پر چلتے ہوئے آپ نیچے پتھر اور پرانے پتھروں کی بڑی بڑی سلیں اور ٹوٹے ہوئے مینار دیکھ سکتے ہیں۔ گائیڈ نے یہاں ہمیں ایک ایسی عمارت دکھائی جس میں دائیں طرف رومن کی ایک عبادت گاہ تھی پھر اس جگہ کو چر چ بنا دیا گیا اورجب ان علاقوں کو مسلمانوں نے فتح کر لیا تو یہاں مسجد کا بلند مینار بنا دیا گیا یعنی یہ جگہ صدیوں سے مختلف مذاہب کی عبادت گاہ کے طور پر ہی مختص رہی۔

آج بھی اس عمارت میں مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کے آثار موجود ہیں۔ سائیڈ شہر چونکہ ایک ساحلی علاقہ ہے اس لیے ساحل کے قریب خوبصورت ریزاٹس بنائے گئے یہ علاقہ چونکہ شہر سے دور ہے، اس لیے یہاں اشیاء بہت مہنگی ملتی ہیں۔ شام پانچ بجے ہم سائڈ شہر سے اناطولیہ کے لئے واپس نکلے، جون کے مہینے میں اناطولیہ کے مشرق میں واقع ہے اس تاریخی جگہ پر اتنی گرمی تھی کہ ہماری جلد تک جھلس گئ لیکن اگر آپ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر آپ کا ترکی کا ٹور اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک آپ یہ علاقہ نہیں دیکھ لیتے۔

Check Also

Teen Hath

By Syed Tanzeel Ashfaq