Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Amir Warraich Aur Sheikh Saad

Amir Warraich Aur Sheikh Saad

عامر وڑائچ اور شیخ سعد

سعد نے جوس کا گلاس میز پر رکھا، شیخ کی طرف دیکھا اور گویا ہوا، آپ کو یاد ہے کہ صلالہ کے مچھلی بازار میں ایک چھوٹا سا لڑکا مچھلی بیچتا تھا اور آپ نے جب بھی مچھلی خریدنی ہوتی تھی تو آپ تمام دوکانداروں کو چھوڑ کر اس لڑکے کے پاس ہی آتے تھے اور ہمیشہ اسی سے مچھلی خریدتے تھے۔ شیخ بولا، یس آئی ریممبر (ہاں بالکل مجھے یاد ہے) وہ لڑکا بہت چست اور توانا تھا، اونچی اونچی آواز میں بول کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا اور تازہ مچھلی بیچتا تھا، اسی لیے میں باقی سب کو چھوڑ کر اسی کے پاس جاتا تھا۔

سعد بولا، یا شیخ وہ لڑکا میں ہی تھا۔ شیخ نے حیرانی سے سعد کی طرف دیکھا اور بے اختیار بولا، کمال ہے۔ وہ شیخ دراصل صلالہ کا بہت بڑا تاجر تھا جس کے وہاں کافی شاپنگ مالز تھے، وہ کنسٹرکشن کے کاروبار سے بھی منسلک تھا اور وہ لڑکا سعد بھی دراصل عمان کا ہی رہنے والا تھا، جس کی عمر تقریباََ 32 سال کے لگ بھگ تھی۔ سعد سے ملاقات کروانے کے لیے مجھے عامر وڑائچ جو میرے حقیقی بھائی کی طرح ہیں، لے کر دبئی کے اس ہوٹل میں آئے تھے جہاں سعد نے فلیٹ دے رکھا تھا۔

وہ ہوٹل برج الخلیفہ کے بالکل سامنے تھا، ظاہر ہے وہاں کوئی عام آدمی اپنی رہائش نہیں رکھ سکتا، یہی وجہ تھی کہ جب میں نے سعد کی باتیں سنیں تو مجھے بھی اکثر پاکستانیوں کی طرح تجسس ہونے لگا کہ ایک مچھلی بیچنے والا لڑکا اتنی ترقی کیسے کر گیا؟ عامر بھائی اور میں دن چار بجے سعد کو ملنے اس کے ہوٹل پہنچے تو لاونج میں وہ پہلے ہی ہمارا انتظار کر رہا تھا۔

عامر نے سعد سے میرا تعارف کروایا اور یوں سعد سے ہماری گپ شپ ہونے لگی، اسی دوران پاس سے صلالہ کا وہ بزنس مین شیخ گزرا جو اسی ہوٹل میں مقیم تھا، سعد نے اسے پہچان لیا، اس سے ملاقات کی اور یوں وہ بھی ہمارے ساتھ گپ شپ کرنے بیٹھ گیا۔ سعد عربی اور انگریزی بہت خوبصورت لہجے میں بول رہا تھا، سعد مجھے اور اس شیخ کو بتانے لگا کہ میں جب صلالہ میں مچھلی بیچتا تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے اس کام میں مسلسل نقصان ہونے لگا اور دن بدن میرے مالی حالات خراب ہوتے گئے، ان دنوں میرے پاس کرنے کے لئے کوئی اور کام نہیں تھا۔

عامر بھائی ان دنوں صلالہ تھے اور ان کی وہاں ایلمونیم کی ورکشاپس تھیں جہاں کافی لڑکے کام کرتے تھے، میں ان سے ملا اور ان سے کام کی درخواست کی اور یوں انہوں نے مجھے اپنی ورکشاپ پر کام کی غرض سے رکھ لیا۔ میں بچپن سے ہی محنت کرنے کا عادی تھا، اس لیے میں نے وہاں بھی دن رات ایک کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد عامر بھائی اپنے کاروبار کے سلسلے میں صلالہ سے دبئی شفٹ ہو گئے اور یہاں دبئی آ کر انہوں نے اپنے کاروبار کو مزید بڑھایا، ایک آن لائن کمپنی بھی بنا لی، اللہ نے کرم کیا اور دن بدن ترقی کرتے گئے۔

اس دوران میں صلالہ میں ہی کام کرتا رہا، میں نے ادھر صلالہ میں ایلمونیم کا کام سیکھنے کے بعد اپنی ایک الگ ورکشاپ بنا لی، اللہ کے فضل سے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کرتا گیا، میں چائنا سے ایلمونیم کے کنٹینرز منگواتا اور وہ مال آگے سپلائی کر دیتا، پھر میں بھی اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لئے دبئ آ گیا اور یہاں میرا کاروبار آٹھ، دس ممالک تک پھیل گیا۔

سعد رکا لمبا سانس لیا اور بولا، آپ کو پتا ہے کہ مجھے یہاں تک کس نے پہنچایا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا، وہ بولا عامر بھائی نے۔ اگر مجھے یہ اس وقت صلالہ میں سہارا نہ دیتے، اپنی ورکشاپ پر کام کے لئے نہ رکھتے، تو شاید میں آج بھی صلالہ کی اس مچھلی منڈی میں مچھلیاں بیچ رہا ہوتا۔ پھر سعد بتانے لگا کہ میں جب دبئی آیا تو سب سے پہلے میں عامر بھائی کو ملنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس ان کا کوئی کانٹیکٹ نمبر نہیں تھا، مختلف دوستوں سے معلوم کرتا ہوا میں ایک دن ان کے پاس پہنچ ہی گیا اور یوں ہم ایک بار پھر اکٹھے ہو گئے۔

عامر بھائی جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے، بولے! ہاں سعد جب مجھے تلاش کرتا کرتا میرے پاس پہنچا تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ یہ اب وہ صلالہ والا سعد نہیں تھا بلکہ شیخ سعد بن چکا تھا، دبئی کی بڑی کاروباری شخصیت۔ لیکن یہ اس کا بڑا پن ہے کہ یہ آج تک اپنے پرانے دوستوں کو نہیں بھولا۔ شیخ سعد کی کامیابی کی کہانی یقیناََ متاثر کن تھی۔

میں نے شیخ سعد کو بتایا کہ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے، میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جن کو عامر بھائی نے ان کے برے حالات میں اسپورٹ کیا اور وہ سب آج اچھی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، اچھے وقت میں تو ہر کوئی آپ کے ساتھ ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگ کسی کے برے وقت میں اس کا ساتھ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی عامر بھائی کو دے رکھی ہے۔

ترکی سے واپسی پر میں چند دنوں کے لیے دبئی گیا، میں دبئی پہنچا تو ایئرپورٹ سے چوہدری وقار نے مجھے رسیو کیا اور سیدھا اپنے گھر لے آیا حالانکہ میں ہوٹل میں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ چوہدری وقار میرے شاگرد بھی ہیں اور محلہ فیلو بھی۔ انہوں نے جس محبت سے میری مہمان نوازی کی وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ دو دن بعد کسی دوست کے ذریعے جب عامر بھائی کو میرے دبئی آنے کا پتہ چلا تو انہوں نے مجھے کال کر کے شکوہ کیا کہ آپ یہاں دبئی ہیں اور مجھے بتایا ہی نہیں۔

خیر اگلا دن ان کے ساتھ گزارنے کا پروگرام بنا، اور یوں اگلی صبح عامر اپنی گاڑی لے کر آئے اور مجھے اپنے آفس لے آئے، وہاں ہم نے کافی پی اور دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ دن کا کھانا ہم نے ایک سعودی ریسٹورنٹ میں کھایا، اس ریسٹورنٹ کو سعودی کلچر کے مطابق ڈیزائن کیا گیا تھا، ہم نے بھی عرب لوگوں کی طرح زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا، کھانا بہت لذیذ تھا، خاص بات یہ تھی کے مٹن اور چاول کے ساتھ کھجوریں اور قہوہ بھی تھا، جس نے کھانے کے لطف کو دوبالا کر دیا۔

کھانے کے بعد ہم اس ہوٹل آ گئے جہاں شیخ سعد نے فلیٹ لے رکھا تھا، دو گھنٹے وہاں خوب گپ شپ ہوئی، جب اندھیرا چھانے لگا تو ہم فلیٹ کی بالکونی میں آ کر بیٹھ گئے، جہاں سے برج الخلیفہ کا منظر دیدنی تھا۔ برج الخلیفہ کے بالکل سامنے "ڈانسنگ فاؤنٹین" کا نظارہ ایک لائف ٹائم تجربہ تھا۔ یہ فونٹین ہر گھنٹے کے بعد چلاۓ جاتے ہیں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح اس نظارے سے لطف اندوز ہونے کے لئے دس، پندرہ منٹ پہلے ہی ان فاؤنٹین کے قریب آ کر انتظار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔

شام سات بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور ہم شیخ سعد کے فلیٹ کی بالکونی سے نیچے ان "ڈانسنگ فاؤنٹین" کا نظارہ کرنے کے لئے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ جونہی گھڑی پر سات بجے تو میوزک کے ساتھ روشنیوں کا سیلاب آ گیا، کافی بلندی سے ان "ڈانسنگ فاؤنٹین" کا نظارہ انتہائی خوبصورت تھا۔ برج الخلیفہ کے بالکل ساتھ ہی دبئی مال ہے، "ڈانسنگ فاؤنٹین" کا نظارہ دیکھنے کے بعد، ہم نے کچھ وقت دبئی مال میں گزارا۔

دبئ مال واقعی ایک شاندار شاپنگ مال ہے یہاں دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے لیکن میرے لیے دلچسپی کی بات وہاں ڈائنوسار کا رکھا ہوا وہ اصلی ڈھانچہ تھا جو مال کے ایک حصے میں رکھا گیا تھا اور اس کے ساتھ اس کی تاریخ بھی ایک الیکٹرونک بورڈ پر لکھی ہوئی تھی۔ دبئی میں گزرا یہ دن میرے لیے لرننگ سے بھرپور تھا۔

مجھے اس دن یہ بات سمجھ آئی کہ زندگی میں وہی لوگ آگے بڑھتے ہیں جو ہمیشہ بڑا سوچتے ہیں، سخت محنت کرتے ہیں، رسک لیتے ہیں اور کوئی بھی ٹارگٹ اچیو کرنے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ یہ پہلے سے بھی ذیادہ توانائی کے ساتھ کسی بڑے کام میں لگ جاتے ہیں۔ وہ خود تو کامیاب ہوتے ہی ہیں لیکن اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی کامیابی کے راستے پر لگا دیتے ہیں۔

عامر وڑائچ اور شیخ سعد ایسی ہی شخصیات ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان کو زندگی میں تین کام ضرور کرنے چاہیے، ایک پودا ضرور لگانا چاہیے، دوسرا ایک کتاب ضرور لکھنی چاہیے اور تیسرا اپنے بعد نیک اولاد چھوڑنی چاہیے۔ مجھے عامر سے مل کر ہمیشہ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے بہت سے دوستوں کو کاروباری حوالے سے سیٹل کر کے حقیقتاََ ایسے پودے لگائے ہیں جن کا ثمر بہت سے خاندانوں کو پہنچ رہا ہے، یقیناََ یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔

Check Also

Shadeed Garmi Aur School Tateelat

By Amer Abbas