Aik Aajiz Aur Ba Kamal Insan
ایک عاجز اور باکمال انسان
نیر علی دادا 11 نومبر 1943ء کو دہلی کی سید فیملی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان نے 1950ء میں دہلی سے لاہور ہجرت کی۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ابتدائی تعلیم کے بعد 1964ء میں نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور پھر کچھ عرصہ وہ بطور استاد نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھاتے رہے۔
نیر علی دادا پاکستان کے نامور آرکیٹیکٹ ہیں، جنہوں نے بے شمار مشہور عمارات کے ڈیزائن بھی بناۓ، جن میں گرینڈ جامع مسجد بحریہ ٹاؤن لاہور، گرینڈ جامع مسجد بحریہ ٹاؤن کراچی، بی سی سی آئی بینک کولمبو (سری لنکا)، فیصل آباد آرٹ کونسل، قذافی اسٹیڈیم لاہور، سرینا ہوٹل اسلام آباد، شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور، چڑیا گھر، قائداعظم لائبریری لاہور شامل ہے، لیکن مال روڈ پر گورنر ہاؤس کے بالکل قریب نیر علی دادا کی ڈیزائن کردہ عمارت، پنجاب کی ادبی اور ثقافتی تقریبات کا مرکز الحمرا آرٹ کونسل لاہور ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔
پاکستان بننے کے فورا بعد گورنمنٹ آف پاکستان نے آرٹ کونسل کے لئے یہ جگہ مختص کر دی تھی لیکن شروعات میں عمارت تعمیر نہ ہونے کے سبب اکثر ثقافتی پروگرام کھلے گراؤنڈ میں ہوا کرتے تھے۔ الحمرا آرٹ کونسل کا موجودہ کمپلیکس پنجاب کے سابق گورنر جنرل غلام جیلانی خان کی ذاتی دلچسپی اور نعیم طاہر جو پاکستان کے نامور اداکار، مصنف اور ڈائریکٹر ہیں کی وجہ سے 1979ء میں عارضی طور پر ایک آڈیٹوریم بنایا گیا اور بعد میں مزید کمپلیکس چار مرحلوں میں 1992ء میں مکمل ہوئے۔
الحمرا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں"سرخ کپڑوں میں عورت" اسپین کا شاہی محل جو سرخ اینٹوں سے بنا تھا اسے الحمرا کہا جاتا تھا، نیر علی دادا کی ڈیزائن کردہ یہ عمارت بھی سرخ اینٹوں سے بنائی گئ لہذا اسی مناسبت سے اس کا نام الحمرا رکھا گیا۔ 1998ء میں الحمرا آرٹ کونسل کو آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ شروع سے ہی الحمرا آرٹ کونسل کی سربراہی ملک کی نامور علمی و ادبی شخصیات نے کی، جن میں سید امتیاز علی تاج، عطاء الحق قاسمی اور نعیم طاہر جیسے لوگ شامل ہیں۔
آجکل الحمرا آرٹ کونسل کے چیئرمین نامور موٹیویشنل اسپیکر جناب قاسم علی شاہ ہیں۔ الحمرا کے چیئرمین کا عہدہ چونکہ ایک اعزازی عہدہ ہے، اس لیے اس کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی۔ ہمیشہ یہ عہدہ ادبی خدمات کے اعتراف میں گورنمنٹ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز میں شاہ صاحب سے ملاقات کے لیے الحمرا آرٹ کونسل ان کے آفس حاضر ہوا۔ اگر ہم مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کو دیکھیں تو ہمیں اکثر ہر جگہ ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو زیادہ تر صرف اپنے لیے کام کرتے ہیں، بہت کم ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو دوسروں کے لیے بھی سوچتی ہیں اور ان کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔
میری نظر میں اگر کسی شاعر نے کوئی ایسا کلام لکھا جو کسی کی روح کو بیدار کر دے، اس میں جذبہ حب الوطنی، احساس ذمہ داری یا اس شاعری میں کسی عظیم کام کی ترغیب ہو تو اس شاعر نے واقعی کمال کر دیا۔ ایسے ہی چند ہی مصنفین کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں جو واقعی دوسروں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں، اسی طرح بہت کم ایسے خوبصورت بولنے والے ہوتے ہیں جو اپنے الفاظ سے دوسروں کی زندگی بدل دیتے ہیں۔
قاسم علی شاہ بھی ان چند شخصیات میں شامل ہیں جو حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگیاں علمی، اخلاقی اور معاشرتی حوالے سے بدل رہے ہیں۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی کی لکھی ہوئی تحریر یا بولےہوئے لفظ اس وقت تک لوگوں پر اثر نہیں کرتے جب تک اس بندے پر اللہ کا خاص کرم اور رحم نہ ہو اور وہ خود با عمل نہ ہو اور جس پر اللہ کا خاص کرم اور رحم ہو جائے پھر اس کی بات عام نہیں رہتی، خاص ہو جاتی ہے۔
شاہ جی سے میری پہلی ملاقات جنوری 2018ء میں ہوئی تھی، ازبکستان اور ترکی کے اسفار میں نے ان کے ساتھ کیے، جس پر میں نے ایک سفر نامہ "تاشقند سے استنبول" لکھا تھا اور یوں شاہ جی کے ساتھ میرا تعلق استوار ہوگیا۔ ایک بار 2018ء میں ہی میں نے یو ٹیوب پر قاسم علی شاہ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم اکثر اپنے کچھ دوستوں، بھائیوں یا رشتہ داروں کو ملنا چاہتے ہیں لیکن اپنی مصروفیات یا جھجک کی وجہ سے انھیں مل نہیں پاتے اور نہ ہی انہیں بتا پاتے ہیں کہ ہم ان سے کتنی محبت کرتے ہیں، پھر وہ کہنے لگے کہ میں جب بھی کسی اپنے دوست یا بھائی کو مس کروں تو میں فورا اپنا فون اٹھاتا ہوں اور کہتا ہوں بھائی آئی مس یو اور اگلے بندے کے احساسات بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں اور یوں ہم چائے یا کھانے پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
میں نے جب یہ ویڈیو دیکھی تھی تو کافی دیر یہ سوچتا رہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ اتنا مصروف بندہ اپنے کئی چاہنے والے دوستوں کے لیے ایسے وقت نکال سکے؟ کیونکہ یہاں تو اکثر لوگ جب کسی اچھی پوزیشن پر پہنچ جاتے ہیں تو سب سے پہلے وہ اپنے پرانے تعلقات کو نظر انداز کرتے ہیں اور ہر اس نئے بندے سے تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات وابستہ ہوں لیکن شاہ صاحب نے واقعی کمال کر دیا، پچھلے پانچ برسوں میں میں نے انہیں ہر اس بات پر عمل کرتے دیکھا جو کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر وہ دوسروں کو کہتے رہے۔
میں ہمیشہ ان کا ایک استاد کی حیثیت سے بے حد احترام کرتا ہوں لیکن یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ ہمیشہ مجھے ایک بھائی کی طرح محبت دیتے ہیں۔ گزشتہ اتوار شاہ جی کا مجھے میسج آیا بھائی جان! کافی دن ہوگئے ہیں ملاقات نہیں ہوئی، آپ جب بھی لاہور آئیں تو مجھے ضرور بتائیں، میں نے اسی وقت شاہ جی سے ٹائم لیا اور گزشتہ روز الحمرا آرٹ کونسل لاہور ان کے آفس حاضر ہوگیا۔ ویسے تو شاہ صاحب میں بے شمار خوبیاں ہیں دنیا جانتی ہے لیکن ان کی ایک خوبی جو سب سے نمایاں ہے وہ عاجزی ہے۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ "عاجزی اختیار کرو، اگر تم سمجھو کہ دنیا میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا تو قیامت کے دن اس کا بدلہ مجھ سے لے لینا" اس حدیث مبارکہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے عاجزی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ گزشتہ روز جب میں شاہ جی سے ملاقات کے لیے الحمرا ان کے آفس پہنچا تو انہوں نے کمال محبت سے نوازا۔ اس ملاقات کے دوران فیصل آباد کی نامور شخصیت پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرا بھی آگئے جو اپنے یوٹیوب چینل ہیلتھ "Lifestyle by Shahzad Basra" کی وجہ سے کافی مشہور ہیں، وہ اپنی ویڈیوز میں اکثر آرگینک فوڈز اور صحت مند زندگی گزارنے کے لئے کس طرح کی خوراک چاہیے پر بات کرتے ہیں۔
ڈیڑھ گھنٹے کی اس نشست میں مختلف موضوعات پر بات ہوتی رہی۔ واصف علی واصفؒ نے فرمایا تھا کہ بڑا انسان وہ ہے جس کی محفل میں بیٹھ کر کوئی بھی انسان اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کرے۔ قاسم علی شاہ کی شخصیت میں اللہ تعالی نے یہ کمال بھی رکھا ہے کہ وہ ہر انسان کو عزت دینا جانتے ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رب کریم عزت دینے والوں کو ہی عزتوں سے نوازتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح شاہ جی سے میری یہ ملاقات بھی انتہائی مفید رہی۔
میری دعا ہے کہ اللہ کریم! شاہ صاحب کو صحت والی لمبی زندگی دے اور وہ اسی طرح اس پلیٹ فارم سے بھی لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے رہیں۔