Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Shan Mughal
  4. Taqdeer Aur Tadbeer (1)

Taqdeer Aur Tadbeer (1)

تقدیر اور تدبیر

نہم جماعت میں ہم نے اساتذہ کی زیرِ نگرانی دلجمعی سے محنت کی اور اپنے اسکول کا نام خوب روشن کیا۔ اب ہم جماعت دہم میں تھے۔ ہمارے سابقہ نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس سال ادارہ کی جانب سے پہلے سے زیادہ محنت کرنے کاعزم کیا گیا تا کہ مزید بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ چُنانچہ سال کے آغاز ہی سے ہر کوئی محنت کے پسینے میں شرابور نظر آنے لگا۔ جہاں اساتذہ ایک دوسرے کو مات دینے کی تدبیریں کرنے میں مصروف تھے، وہیں طلباء نے بھی حریف جماعتوں سے ٹکرانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جلد ہی جُزوی امتحانات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا، صبح کھانے کی میز پر ناشتا چاہے نہ ملتا پر ہاتھ میں کتاب کا ہونا تو لازم تھا۔ اسکول کے ایک دن میں لیکچرتو آٹھ ہوتے مگر ٹیسٹ ہم سے دس لے لیے جاتے۔ اضافی دو کے لیے نا جانے ہمارے شفیق اساتذہ وقت کہاں سے نکال لیتے؟ خیر اس تکلیف دہ مگر مُفید گھن چکر کو پار کرتے کرتے کتابیں تو ہمیں جیسے از بر ہو چکی تھیں۔

سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا پھر ایک دن یکا یک خبر آئی کہ علاقہ میں نئے سی - ای - او (چیف ایگزیکٹیو آفیسر) آئے ہیں۔ سب نے سوچا کہ افسران کا کیا ہے یہ تو آتے جاتے رہتے ہیں، آج یہاں ہیں تو کل وہاں! لیکن یہ صاحب اپنے ہم مرتبہ افسران سے قدرے مختلف تھے۔ انہیں اپنے علاقہ میں موجود تعلیمی اداروں کے انتظامی امور سے خاصی دِل چسپی تھی۔ اس کے علاوہ یہ طلباء کی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کے بھی مدّاح تھے اسی لیے گاہے بگاہے ان کی حوصلے افزائی کرتے رہتے تھے۔ ایک دِن آپ کو ایک طوفانی خیال آیا اور آپ نے تحصیل بھر کے طلباء کی تعلیمی قابلیت کو جانچنے کے لیے نصابی مقابلہ جات کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران میزبانی کی زمہ داری ہمارے اسکول کو سونپی گئی۔ اس منصوبے کے تحت سال بھر کے تعلیمی نصاب کو تین حصوں میں برابر تقسیم کیا گیا۔ پہلا امتحان اکتوبر، دوسرا نومبر جبکہ تیسرا اور آخری امتحان دسمبر میں ہونا طےپایا۔ تحصیل بھر کے ہر اسکول سے 5 بچے اِس امتحان میں شریک ہو سکتے تھے۔ لیکن ہمارے اسکول میں طلباء کی تعداد زیادہ تھی اس لیے ہر کلاس سے 5 ہونہار بچوں کو امتحان میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی۔

ہماری کلاس سے میں اور میرے دیگر چار ساتھی اِس مقابلہ کے لئے اہل قرار پائے۔ امتحان سے ایک ہفتہ قبل ہمیں کتابیں تھماتے ہوئے ہمارے اساتذہ نے کہا، "بیٹا! اب ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے"۔ اُن کے اِس جملے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ہم سے کسی بھی صورت کامیابی ہی کے متقاضی ہیں۔ خیر ہم نے بھی کتابیں لیں اور الگ تھلگ اسکول کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ چونکہ ہمارا اصل مقابلہ اپنے ہی ادارے کے دوسرے طلباء سے تھا جو کہ کہیں نا کہیں ہم سے زیادہ قابل اور محنتی تصوّر کیے جاتے تھے اِس لئے ہم نے بھی خُوب دِل لگا کر محنت کرنے کا ارادہ کیا۔ ہمارا یہ ماننا تھا کہ بھرپور محنت کے باوجود بھی اگر کامیابی نہ ملے تو کم از کم قلبی سکون تو مِل ہی جاتا ہے۔ ہم نے ایک ہفتہ کے لیے ہر طرح کی غیر ضروری سر گرمیاں ترک کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کر دی۔ ہم باہمی مشاورت سی پڑھتے اورجہاں ضرورت پڑتی اساتذہ سے بھی راہنمائی حاصل کرتے۔ ایک ہفتے کا قلیل وقت دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیااور امتحان کے لئے مقرّر کر دہ وقت آن پہنچا۔

ہم نے امتحان کے لئے ضروری اشیاء جن میں کامیابی کا جذبہ سرِ فہرست تھا، اپنے ہمراہ لیں اور کمرا امتحان کی جانب چل دیئے۔ یہ امتحان ہمارے لیے کسی بھی صورت ایک جنگ سے کم نہ تھا جسے جیتنے کے لئے ہم خاصے پُر اعتماد بھی تھے اور ہوتے بھی کیوں نا؟ ہم اساتذہ کی ڈھیروں دعاؤں، بھرپور محنت اور جذبۂ کامیابی جیسے نا قابلِ تسخیر ہتھیاروں سے جو لیس تھے۔ امتحانی کمرا میں پہنچنے کے بعد مقررہ وقت پر امتحان شروع ہوا۔ ہم نے سوالیہ پرچے پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائی تو معلوم ہوا کہ دیا گیا وقت، پرچے کی طوالت کے لحاظ سے بہت ہی قلیل تھا۔ چہرے کی رنگت آہستہ آہستہ تبدیل ہونے لگی گویا کسی نے انتہائی بے رحمی سے اُمیدوں کے محل پر ایک غیر متوقع حملہ کر دیا ہو۔ خیر مرتے کیا نہ کرتے۔ نا چاہتے ہوئے بھی پرچہ حل کرنا شروع کیا ابھی ایک چوتھائی پرچہ بھی حل نہ ہونے پایا تھا کہ ممتحن نے نہایت بے دردی سے پُکارا، " معزز طلباء! آپ کو دیے گئے وقت میں سے آدھا وقت گزر چکا ہے، براہِ کرم ہاتھ تیزی سے چلائیں "ممتحن کے اِس جملے کے بعد تو جیسے دماغ نے لکھوانے اور ہاتھوں نے لکھنے سے انکار ہی کر دیا ہو۔ بقیہ وقت میں سے آدھا وقت ہاتھوں کو لکھنے پر مجبور کرنے اور باقی آدھا وقت اِن ہی خیالات میں گزرا کہ یہ ہمارے ساتھ آخر ہوا کیا؟ کیا فائدہ ہوا اتنی محنت کا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم اِس شکستِ فاش کے ساتھ اپنے اساتذہ کا سامنا کیسے کریں گے؟ ابھی اِن ہی خیالات میں گُم تھے کہ ممتحن انتہائی سفّاکی سے ہم پر جھپٹا اور آن کی آن میں پرچہ لے اُڑا۔ ہم منہ لٹکائے کمرا جماعت کی جانب چل دیے۔ اساتذہ ہماری جانب سے خوش خبری کے منتظر تھے لیکن جب ہم نے اپنے غم کی روئیداد سنائی تو وہ سیخ پا ہو گئے اور ہم پر ہی برس پڑے۔ ہم تو ابھی تک یہ ہی سمجھنے سی قاصر تھے کہ اس سب میں آخر ہم سے کیا خطا ہوئی ہے۔

جیسے تیسے وقت گزرا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے شفیق اساتذہ کی ناراضی بھی ختم ہوگئی۔ دن اچھے گزرنے لگے۔ لیکِن اچھا وقت زیادہ دیر کہاں ٹکتا ہے۔ دوسرے امتحان کی تاریخ آن پہنچی۔ اور پھر ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ اس بار پھر ہمیں اساتذہ کے کہنے پر اِس امتحان میں مجبوراً حصّہ لینا پڑا لیکِن اِس دفعہ کم از کم ہمارے اساتذہ کی ہم سے کوئی اُمیدیں وابستہ نہ تھیں اور یہ ہمارے لیے ایک خوش آئند بات تھی۔ چُنانچہ اِس دفعہ ہم نے کوئی خاص تیاری نہ کی، محض ایک دفعہ نصاب کو دیکھا اور بغیر تیاری کے ہی امتحان میں جا کودے۔ بس پھر کیا تھا، وہی وقت اور وہی پرچہ کی طوالت۔ طلباء کے بارہا کہنے کے با وجود نہ تو پرچہ کی طوالت میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی وقت میں اضافہ ہو سکا۔ ادارہ کی انتظامیہ بضد تھی۔ ہم نے بھی انتظامیہ کے خلاف جوابی کارروائی کرتے ہوئے دیے گئے مختصر وقت سے خوب" لطف" اٹھایا۔ کمرا امتحان میں لُطف؟ ؟ جی ہاں جناب لطف!! کبھی ہال میں بیٹھے اپنے دوستوں کو تاڑتے تو کبھی سامنے کھڑے ظالم ممتحن کو گھورتے۔ ہاں آج اُس کی گھڑی کی رفتار قدرے سست تھی یا پھر وہ ہمیں مزید لُطف اندوز ہونے کا موقع دینا چاہتا تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ اگر نتیجے والا صفحہ تختے پر اُلٹا لٹکایا جاتا تو ہم پانچوں کے نام سرِ فہرست ہوتے لیکن انتظامیہ نے وہ صفحہ سیدھا چسپاں کر دیا اور ہمارے نام آخر پر چلے گئے۔

اِسی کے ساتھ مقابلہ جات کے دو مرحلے اپنے اختتام کو پہنچے۔ مگر تیسرا اور آخری مرحلہ اب بھی باقی تھا۔ مذکورہ بالا امتحانات کے نتائج سی۔ ای۔ او (چیف ایگزیکٹیو آفیسر) صاحب کو باقاعدگی سے ارسال کیے جاتے رہے۔ نتائج بھی کیا تھے، اندھوں میں جو کانا ہوتا اُس کا نام ذرا نمایاں کر کے لکھ دیا جاتا۔ یوں یہ سلسلہ اب تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھا۔ تحصیل بھر کے طلباء میں سے ہر دفعہ تین کانے نکالے جاتے اور خوش قسمتی سے اُن تینوں کا تعلق ہمارے ہی اسکول سے ہوتا۔ اِس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تحصیل کے باقی اسکولوں نے اتحاد کیا اور تیسرے مرحلے میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ یُوں اِس مقابلے میں ہم اکیلے رہ گئے۔ مجموعی طور پر تو ہم یہ مقابلہ جیت چکے تھے لیکِن انفرادی جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ اب کی بار طلباء نے بھی اتحاد کیا اور انتظامیہ کے خلاف ڈٹ گئے۔ طلباء اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات ہوئے اور طے پایا کے اِس دفعہ امتحان میں پوری کتاب سے سوالات پوچھے جائیں گے اور وقت بھی پہلے سے زیادہ دیا جائے گا۔ بچوں میں تو خوشی کی اک لہر سی دوڑ گئی۔

سب نے کمر کسی اور امتحان کی تیاری کرنے لگے۔ لیکِن میں دو ماہ تک جاری رہنے والی اِس کھینچا تانی سے تنگ آ چکا تھا۔ پچھلے دونوں مقابلوں میں ہماری حریف جماعت کے طالب علم ہم سے آگے رہے تھے۔ اِس لیے ہمیں اب کی بار شدید محنت کرنے اور اُن کو پچھاڑنےکی تلقین کی گئی۔ امتحان سے چند دن پہلے ہمیں حسبِ معمول علیحدہ کر دیا گیا تا کہ ہم پوری توجہ سے پڑھ سکیں۔ بس پھر میرے بقیہ ساتھی خوب جی جان سے محنت کرنے لگے۔ یُوں معلوم ہوتا تھا کہ اِس دفعہ پچھلے سارے حساب برابر ہو جائیں گے۔ لیکِن میرا اِس دفعہ امتحان میں شامل ہونے کا سرے سے ارادہ ہی نہ تھا۔۔ چنانچہ میں پُر سکون اور کتابوں سے دور رہا۔ میں نے اپنے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مصنوعی بیماری کو بطورِ ڈھال استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ چونکہ میں سب سے ذہین اور قابل طالب علم تھا اس لیے یہ سب کرنا کم از کم میرے لیے اُتنا آسان نہ تھا جتنا کہ کسی بھی اور طالب علم کے لیے ہوتا۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ بھی تھی کہ ہم دس سالہ تعلیم مکمل ہونے کے باوجود اب تک چھٹی کے لفظ ہی سے نا آشنا تھے۔ یعنی ہمارے ہاں چھٹی کا خیال کرنا بھی ایک قسم کا گناہ سمجھا جاتا تھا۔

جاری۔۔

Check Also

Manzar Nama

By Syed Mehdi Bukhari