Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Zahak Ibn Yahya Ka Qatal

Zahak Ibn Yahya Ka Qatal

ضحاک ابنِ یحییٰ کا قتل

اب سورج پوری طرح سے طلوع ہو چکا تھا۔ محاصرے میں صرف پندرہ سو کے قریب لوگ رہ گئے تھے۔ یہ کل تعداد بھی چار حصوں میں منقسم تھی۔ پانچ سو کے قریب مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے باقی تین تین سو افراد ابنِ عوسجہ، عبداللہ بن عزیز اور ابوثمامہ صائدی کے ساتھ الگ الگ گروہ میں قلعہ کے چاروں جانب موجود تھے۔

ستم یہ ہوا کہ اِن گروہوں کے درمیان عبید اللہ ابنِ زیاد کے سپاہیوں نے پڑائو ڈال کر اُنھیں ایک دوسرے سے کاٹ دیا۔ اُدھر شمر اور شبث ابن ربعی اور محمد بن اشعث اِن گروہوں میں امان کا پرچم لہراتے رہے اور اعلان کرتے رہے کہ جو بھی شخص امیر کے اِس پرچم تلے جمع ہو جائے گا اُسے نہ صرف امان ہے بلکہ اُس کے وظیفے بحال کر دیے جائیں گے اور اُن کو مزید لطف و کرم سے نوازا جائے گا۔

یہ بات اگرچہ کافی کار گر تھی لیکن اِس سے بڑا ستم یہ ہوا کہ بنی مراد، بن ہمدان اور بنی ربیعہ کے محلوں میں قتل و غارت گری دیکھی تو باقی ماندہ قبیلوں کی عورتیں اپنے بچوں کو پہلو میں لیے ننگے سر اور ننگے پائوں محاصرہ میں دوڑی چلی آئیں۔ وہ ایک طرف معتوب قبائل کے گھروں کی آگ اور قتل و غارت کو دیکھ چکی تھیں تو دوسری طرف شام کے لشکر کی خبریں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اپنے مردوں اور بھائیوں اور بیٹوں کو بازئووں اور قمیضوں سے پکڑ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔ اُن کو اپنی جان اور اولاد کے واسطے دینے لگیں۔

شمر اور ثبث کا یہ طریقہ اتنا کارگر نکلا کہ ظہرین کے وقت تک کل چار سو افراد باقی رہ گئے۔ اُن میں سے بھی زیادہ تر وہی تھے جو مسلم بن عقیل کی کمان میں تھے۔ جب کہ ابنِ عوسجہ، ابوثمامہ صائدی اور عبداللہ بن عزیز کے ساتھ کل ملا کر ساٹھ ستر افراد بچ گئے۔ اُن پر عمر ابنِ حریث کے سپاہیوں نے حملہ کر دیا اور اُنھیں دھکیلتے ہوئے کوفہ کی گلیوں اور بنی کندہ کے محلوں تک لے گئے۔ یوں یہ لوگ مسلم بن عقیل سے جدا کر دیے گئے۔

مسلم بن عقیل پر ابھی تک کسی طرف سے حملہ نہیں کیا گیا تھا البتہ اُس کی تعداد کو مسلسل کم کیا جا رہا تھا۔ کثیر ابنِ شہاب شام تک مسلم کےمددگاروں سے بات کرتا رہا اور اُنھیں جنگ سے روکتا رہا یہاں تک کہ مغرب کی نماز کے بعد مسلم کے ساتھ تین سو افراد بچ گئے۔ اِن پر عبیداللہ ابنِ زیاد کے سپاہیوں نے حملہ کر دیا۔ اِس عرصہ میں کوفہ کی تمام فوج دارالامارہ کے ارد گرد جمع ہو چکی تھی اور مسلم سے برسرِ پیکار تھی۔

مسلم نے لڑائی پر کمر کس لی اور جنگ دوبدو شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ عشا کے وقت تک مسجد کوفہ کے مشرق کی جانب بابِ ثوبان کے بالکل سامنےگھمسان کا رن پڑ گیا۔ مسلم بن عقیل نے تلوار کھینچ لی اور اپنی جان کو خدا کے ہاں رہن رکھ دیا۔ مسلم نے اپنے ساتھیوں سے خطاب میں کہا، اے میرے دوستو اور جانثارو تم میں سے زیاد تر ایسے ہیں جو میرے چچا امیرالمومنین کے زیرِکمان لڑ چکے ہیں۔ بخدا تم دیکھو گے کہ مَیں اُن کی اتباع میں کیسے تلوار چلاتا ہوں۔ آگے بڑھو اور امیر المومنین کے نام کی لاج رکھو۔ یہ کہہ کر وہ مخالفین کے مجمعے میں اِس طرح گھس گئے جیسے شیرگدھوں کے ریوڑ میں گھس جاتا ہے۔

سینے پر تانبے کی وزنی پتری اور اُس کے اوپر تانبے ہی کی ذرہ زیب تن کیے ہوئے مسلم کے دائیں ہاتھ میں خمدار بھاری تلوار تھی اور دوسرے ہاتھ میں چمڑے کی ڈھال تھی۔ جسےدشمنوں کے وار روکنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اُن کے دائیں بائیں جتنے جوان معاونت میں لڑ رہے تھے اُس لمحے سب نے اپنی جانیں خدا کے ہاتھ بیچ دیں اور نیزہ و تلوار سے لڑائی شروع کر دی۔ مسلم ایک تو خود لڑ رہے تھے اور دوئم اپنے ساتھیوں کو ہدایات بھی دے رہے تھے۔ چہرے پر ذرہ برابر پریشانی کے آثار نہیں تھے۔

ابنِ حریث، شمر اور ابنِ اشعث اِس لمحے اپنے گھوڑوں پر سوار لڑائی سے دُور کھڑے سپاہیوں کو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے پر اُکسا رہے تھے۔ اِسی لڑائی میں ابنِ زیاد کے دو غلام بھی شامل تھے۔ اِن میں ایک تو وہی مہران تھا اور دوسرا معقل اُنھوں نے اپنی قسمت آزمائی کے لیے خود میدان چُن لیا تھا۔ یہ دونوں مسلم کو قتل کرنے کے لیےاتنے حریص ہوئے کہ پہلے معقل نےآگے بڑھ کر حملہ کر دیا۔

مسلم نے اُسے دیکھا تو کہا، اے مکار تجھےخدا سمجھے، کیا تُو یہ سمجھتا ہے خدا تیرے عیبوں سے غافل ہو چکا ہے اور وہ تیرا مواخذہ نہ کرے گا؟ یہ کہتے ہی ایک دم اُسے گردن سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور منہ کے بَل زمین پر دے مارا۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ مسلم نے اُس کے سینے میں تلوار گھونپ دی۔ پھر دوسرے ہی وار میں سر قلم کر دیا۔ سعید بن احنف مسلم کی پشت پر موجود تھا تاکہ عقب سے کوئی وار نہ کرے۔ اُس نے معقل کا سر اٹھا کر عمر بن حریث کی طرف پھینکا اور کہا اے اپنی ماں کے ناجائز بیٹے اِس پلید کو ابنِ زیاد کی گود میں پہنچا دے۔ اور جسم کو پائوں کی ٹھوکر سے رستے سے ہٹا دیا۔

معقل کی یہ حالت دیکھ کر مہران پیچھے کی طرف بھاگا لیکن بھاگتے ہوئے اُس کی پُشت پرمحمد بن کثیر ازدی کے بیٹے نے نیزہ مارا لیکن یہ نیزہ کھانے کے باوجود بھاگ کر اپنے حامیوں کے درمیان پہنچ گیا اور وہیں کر گر گیا جسے اُٹھا کروہ قصر کی جانب دوڑے۔ اِسی عالم میں لڑائی زوروں پر پہنچ گئی اور اندھیرا جنگ پر غالب آ گیا۔ لیکن مسلم بن عقیل اور اُس کے ساتھیوں نے عمر ابنِ حریث کی فوج کو تلوار کی باڑ پر رکھ لیا۔ یہاں تک کہ مسلم نے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈھال پھینک کر نیزہ پکڑ لیا۔

مسلم کی چھ فٹ سے نکلتی ہوئی قامت، بازو مضبوط اور کشادرہ اور لمبے تھے۔ بازو کی دستیاں کسی بھی پہلوان سے زیادہ چوڑی ہونے کے سبب دستی کی طاقت اتنی تھی کہ ایک بھاری بھرکم مرد کو اٹھا کر دیوار کے ساتھ مارنے کی قوت رکھتے تھے اور یہی کچھ مسلم کر رہے تھے۔ عمرابن حریث اپنے سپاہیوں کو حوصلہ دے کر آگے بڑھاتے تھے، اِدھر مسلم کے مٹھی بھر ساتھی اُن میں سے ایک دو کو تلوار یا نیزے میں پرو دیتے تھے۔

اِسی میں اچانک عمر ابنِ حریث کے لشکر کی طرف سے ایک آدمی نکلا اور پکارا، میرا نام ضحاک ابنِ یحییٰ ہے۔ مَیں شام کے جنگی اکھاڑوں کا مرد ہوں۔ کسی علوی کی بساط نہیں میرے نیزے کی زد میں آئے اور اپنی پسلیاں سلامت لے جائے۔ مَیں علیؑ کا کھلا دشمن ہوں اور اُس کےشیعوں سے جنگ کرنامجھے مرغوب ہے۔ اے مسلم ہمارے اور آپ کے درمیان یہ مسجد کوفہ کا بابِ ثوبان گواہ ہے۔ اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کو تلوار کےمنہ میں دینے کی بجائے اُنھیں کہو تلوار چلانا روک دیں۔ وہ تیری اور میری جنگ کو دیکھیں۔

اِس شخص کی پکار سُن کر عبداللہ بن عزیز آگے بڑھا۔ عبداللہ ابنِ عزیز باب الفیل کی طرف تھا۔ اُس کے کم و بیش تمام ساتھی اُس سے جدا ہو چکے تھے اور وہ کچھ ہی دیر پہلے مسلم کے ساتھیوں میں کسی طرح شریک ہوگیا تھا۔ اِس کے باوجود کہ بہت زیادہ زخمی تھا، آگے بڑھا اور بولا، اے ہمارے امیر آپ رُکیے، مَیں اِس ملعون کی زبان بند کرتا ہوں لیکن مسلم نے عبداللہ کو ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور کہا، عبداللہ، تم پیچھے رہو، یہ بات ہماری توقیر کے خلاف ہے کہ کوئی ہمیں مبارزہ کی دعوت دے اور ہم اُس کے سامنے کسی دوست کو بھیج دیں۔

یہ شخص جو چاہتا ہے اِسے یہیں ملے گا اور اُسی وقت ضحاک اِ بن یحییٰ شامی کے مقابل ہو گئے۔ اِس اچانک انفرادی مبارزہ پر دونوں جانب سے لڑائی رُک گئی جبکہ میدان میں دونوں طرف کے کئی مقتول اور زخمی اُسی حالت میں گرے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ابنِ عقیل اپنے دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں نیزہ لیے سامنے آئے، عمر ابنِ حریث بھاگ کر آگے بڑھا اور ضحاک کا دامن کھینچ لیا اور بولا، ابنِ یحییٰ آگے مت بڑھنا، یہ ابوطالبؑ کا پوتا ہے۔ بخدا اِن سے انفرادی مبارزہ ہمارے خسارے میں رہے گا۔

ضحاک نے بڑی حقارت سے ابنِ حریث کو پیچھے دھکیل دیا، گھوڑے سے چھلانگ لگائی اور مسلم بن عقیل کے سامنے ہو کر خم ٹھونک دیا۔ مسلم بھی اپنے ساتھیوں کے منع کرنے کے باوجود گھوڑے سے نیچے اُتر آئے۔ ضحاک نے پہل کرتے ہوئے بائیں طرف سے ایک بھرپور حملہ کیا اور نیزہ سیدھا مسلم کے پہلو میں اتارنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اندھیرا بہت تھا لیکن بابِ ثوبان کے سامنے آگ کی لابیں روشن ہونے کے سبب یہ لڑائی سب کی آنکھوں میں تھی۔

مسلم گویا ضحاک کے اِس وار کی توقع میں تھا، فوراً ایک قدم پیچھے چھلانگ لگائی اور اُسی کے ساتھ اپنی تلوار کی مدد سے اُس کے نیزے پر اُلٹا وار کیا اور نیزے کے دو ٹکڑے کر دیے۔ ایک ٹکڑا ضحاک کے ہاتھ میں رہ گیا اور دوسرا زمین پر جا گرا۔ ضحا ک نے ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھ کر دوبارہ اُسی ٹوٹے ہوئے نیزے کو مسلم کی گردن میں گھونپنے کی کوشش کی۔ مسلم نے پلک جھکپتے زقند بھری اور ضحاک کی پشت پر آگئے اور تلوار کے دستے سے ایک زوردار ضرب لگائی۔ تلوار کے قبضے کی اِس ضرب سے ضحاک کے پائوں اُکھڑ گئے اور وہ زمین پر گر گیا۔ اُسی لمحے اُسے خبر ہوئی جب مسلم ضحاک کے سر پر کھڑا تھا۔

مسلم نے تلوار کی نوک ضحاک کی شہ رگ پر رکھی اور کہا، اے ملعون ہم ایسے صابر ہیں کہ جا بجا اپنی تلواریں نہیں دکھاتے اور ایسے جنگجو ہیں کہ میدانِ جنگ میں ٹھوکریں کھا کر نہیں گرتے۔ مَیں تجھے چھوڑ نہیں سکتا کہ تُونے میرے چچا اور امیر المومنین کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مسلم نے ضحاک اِ بن یحییٰ کا سر الگ کر دیا۔ ضحا ک کا سر جدا ہونا تھا کہ عمر ابنِ حریث بد حواس ہو کر پیچھے ہٹااور اپنے ساتھیوں سے بولا اندھیرا بڑھ گیا ہے۔ خدا کی قسم بنی ہاشم جیسے روشن دن میں لڑتے ہیں اُسی طرح تاریکی میں تلوار چلاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو ہم مسلم کے مٹھی بھر ساتھیوں سے لڑتے ہوئے اپنے بہترین جنگجو دے بیٹھیں۔ لڑائی روک دو اور راستے بھی روک دو۔ اِنھیں کہیں چھپنے کی جگہ نہ ملے۔ صبح اِن کی خبر لیتے ہیں۔

عمر ابنِ حریث کی اِن ہدایات پر اُس کے سپاہی ایک دم پیچھے ہٹ گئے اور مسلم اور اُس کے ساتھیوں کو محاصرے میں لینے کی کوشش کی۔ اِس پہلے حملے میں مسلم کے شہید ہونے والے ساتھیوں کی تعداد چالیس تھی اور عمر بن حریث کے سپاہیوں کی ڈھائی سو لاشیں بابِ ثوبان کے سامنے گری پڑی تھیں۔ اِن میں سے کچھ کوفہ کے افراد تھے جو سرکاری سپاہ کے باقاعدہ تنخواہ دار اور کچھ شامی تنخواہ دار سپاہی تھے جنھیں خاص طور پر دارلامارہ کی حفاظت کے لیے رکھا گیا تھاکیونکہ معاویہ کے پورے دور سے اب تک کوفہ کے کسی بھی سپاہی پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاتا تھا۔

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry