Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Mehar o Wafa Ke Baab

Mehar o Wafa Ke Baab

مہر و وفا کے باب

دوستو یہ کتاب جسے مَیں پوری پڑھے بیٹھا ہوں۔ بڑی مزے کی ہے یہ کتاب اور نام اِس کا ہے "مہر و وفا کے باب"۔ فیض صاحب کی زندگی پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جس نے اُن کا جو رُخ دیکھا اُسی پہلو کی شاخ کو دراز کیا۔ شاعر فیض صاحب، ترقی پسند فیض صاحب، دوست دار فیض صاحب، کرنل فیض صاحب، حافظِ قرآن فیض صاحب، کیمونسٹ فیض صاحب، قیدی فیض صاحب، باغی فیض صاحب، غرض فیض صاحب ایسے ہاتھی تھے کہ اُنھیں دیکھنے والوں نے جدھر سے دیکھا وہی سمجھا اور لکھ دیا۔ بلا شبہ ایک لیجنڈ شخص اِسی سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔ کون احاطہ کرے محشرِ خیال آدمی کا کہ پوری کائنات کا دل اُس کے سینے میں دھڑکتا ہے۔

البتہ پچھلے دنوں اُنھی کی گدڑی کے ایک جادو گر علی مدیح ہاشمی کی فیض صاحب پر لکھی یہ کتاب ہمارے ہاتھ لگی اور ہم نے جلد پڑھ بھی لی۔ اصل کتاب تو انگریزی میں تھی مگر یہ کہ پاکستان میں انگریزی صرف انڈے سے نکلے ہوئے بچے پڑھتے ہیں اقبال کے شاہینوں کو تو صرف اردو آتی ہے لہذا اِس کتاب کو اردو میں بھی لکھا گیا۔

اگر آپ فیض صاحب کو جِن تصور کر لیں تو یہ کتاب بوتل ہے جس میں اُس کے جادو گر نواسے نے اُنھیں گھیر کے ڈال دیا ہے۔ اور اگلی جادوگری یہ ہے کہ اب ہر کوئی یہ بوتل جِن سمیت اپنے گھر لے جا کر اُس سے کام لے سکتا ہے۔ کسی نے شاعری سیکھنا ہے، کسی نے انقلاب سیکھنا ہے، باغی بننا ہے، جیل جانا ہے، حافظِ قرآن بننا ہے الغرض عالم ہے کُل جو فیض تو قصہ ہے یہ کتاب، نام ہے جس کا مہرو وفا کے باب۔

اِس میں ایسی زبردست باتیں ہیں کہ جنھیں دنیا چھپاتی ہے اور اپنے خاندانی شکوہ کی جھوٹی کہانی سناتی ہے، وہ یہاں سب کی سب افشاں کر دی گئی ہیں۔ فیض صاحب کے والد کی زندگی کے باب ایسے دلچسپ ہیں کہ جی نچھاور کرنے کو چاہتا ہے۔ اُن کی والدہ کی نفیس شخصت، بہن بھائیوں کے کرب، اپنے حالات کی کسمپرسی اور لڑکپن سے بڑھاپے تک کی داستان حرف با حرف زندگی کی طغیانیوں کے قصے ہیں۔ دوستوں کی مہربانیاں ہیں، کیسے کیسے چہرے گرگٹوں میں بدلتے ہیں اور کیسے کیسے لوگ محبت کا مجسمہ ہوتے ہیں۔ پھر ملکوں شہروں میں آوارگی اور خودساختہ جلاوطنی، ایسی کئی فسوں گریاں اِس کتاب کے ورق ورق پر بکھری پڑی ہیں جنھیں آنکھوں کی راہ سے دل و دماغ میں ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

علی مدیح ہاشمی ہمارے دوست ہیں، اُن کا ہمارا ساتھ 2010 سے چلا ہے اور چودہ سال ہونے کو آئے اب تک چلا آتا ہے۔ آپ اِسی سے سمجھ لیجیے کہ مجھ جیسے مردودِ خلق اور "کڑتُما" کے پھل جیسے بندے سے ابھی تک نبھائے آرہے ہیں تو کیسے صابر آدمی ہوں گے۔ میری شاعری پر اگر سب سے پہلے کسی کا مضمون تھا تو وہ علی ہاشمی کا تھا۔ جسے بقلم خود مَیں نے ہی مقتدرہ کے رسالے اخبارِ اردو میں چھاپا تھا۔ اِسی سے آپ اندازہ کر لیجیے کہ اول وہ کتنے عمدہ سخن فہم ہیں اور دوئم کتنی اچھی اور رواں نثر لکھتے ہوں گے۔ یعنی بُرا لکھنے والے آدمی کو مَیں کم از کم اپنے اوپر تجربہ کرنے نہ دیتا۔

آپ ہرصورت یہ کتاب پڑھیں، میری ذمہ داری پر پڑھیں۔ اگر پسند نہ آئے تو مجھ سے پیسے وصول کر لیں لیکن قرات شرط ہے۔ اگرچہ کتاب کی قیمت 2600 ہے مگریہ ڈاک خرچ سمیت گھر بیٹھے 1800 میں مل جائے گی۔ سنگِ میل نے چھاپی ہے اور نہایت عمدہ گیٹ آپ میں چھپی ہے۔

Check Also

Jamaat e Islami Kya Soch Rahi Hai? (2)

By Amir Khakwani