1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Manazil e Imam Par Us Ke Ghulam Ka Guzar

Manazil e Imam Par Us Ke Ghulam Ka Guzar

منازلِ امامؑ پر اُس کے غلام کا گزر

احباب سب سے پہلے کچھ وضاحتیں ہو جائیں۔ بہت زیادہ دوست مجھ سے میسج کرکے پوچھتے ہیں کہ مَیں اُن مقامات کی لوکیشن اُنھیں دے دوں جہاں سے امامؑ مکہ سے کربلا جاتے ہوئے قیام کرتے گئے ہیں اور جس راستے سے گزرے ہیں تاکہ وہ بھی اِن منازل کی زیارت کر سکیں۔

سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ میرے ساتھ یہ ایک معجزہ ہوا ہے۔ مَیں پاکستان سے جب چلا تھا تو دل میں یہ بات ضرور تھی کہ ایک ٹیکسی لے کر کم از کم دو تین منازل تک جائوں گا اور وہ رستہ دریافت کرنے کی کوشش کروں گا۔ جس پر امام علی السلام نکلے تھے۔ لیکن جب میں یہاں پہنچا اور حالات کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ 25 ہزار ڈالر بھی ناکافی ہوں گے اور ٹیکسی اُن مقامات تک جا بھی نہیں سکتی، چاہے آپ جتنا بھی کرایہ دیں۔ کیوں کہ اکثر منازل صحرا اور پہاڑوں کے بیچ میں سو سو اور دو دو سو میل تک سفر کرنے اور عام سڑکوں سے ہٹ کر آتی ہیں۔ جو اُس دور میں استعمال ہوتی تھیں۔ پھر عراق کے بارڈر تک جانا ممکن نہیں تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ پھر مجھے ایک مردِ درویش نقاب صاحب، جس سے میری دُور دور تک کی ملاقات نہیں تھی، نےاچانک میسج کیا اور فون نمبر مانگا، جدہ سے خاص میرے لیے ینبع میں ملاقات کی۔ اور وہیں سے اُن تمام مراحل سے گزرنے پر منصوبہ بنایا گیا۔ بخدا پھر چل سو چل۔

جب ہم سفر پر نکلے تو ایسے مراحل اور گزر گاہوں سے گزرے اور امام کی ایسی منازل پر رُکے جہاں غیر ملکی کا گزر ممکن نہیں۔ ہر منزل کا رستہ دقیق اور پیچیدہ اور ہر منزل پر پہرہ سخت تھا۔ وہ تو خدا کا کرم اور اہلِ بیت کی تائید تھی کہ امام نے جیسے فرمایا ہو کہ ناطق کو ہماری گزر گاہ میں سے ایسے گزار دو کہ جیسے وہ ہمارے ساتھ سفر پر ہو۔ چونکہ تاریخ میری نظر میں تھی لہذا حجون، بستانِ بنی عامر اور تنعیم کو مَیں نے مکہ میں قیام کے دوران ہی اچھی طرح سے دیکھ لیا تھا، جہاں سے امام کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ البتہ نقاب صاحب کے ساتھ جن منازل سے گزرا اور وہاں خاص امام کی خیمہ گاہ کی جگہ پر سجدہ ریز ہوا، اُن میں زبالہ، خثیمیہ، حزیمیہ، زرود، حاجر، عمق، وادی عقیق، معدنِ بنی سلیم، معدنِ الذہب، مسلخ اور ذات العرق ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جنھیں ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ میری مجبوری ہے۔ البتہ مَیں نے اِن تمام مقامات کی تصویریں لے لی ہیں۔ جنھیں اپنے ناول میں ظاہر بھی کروں گا، لیکن اِس وقت احباب سے عرض ہے کہ وہ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ امامِ زمانہ کے حضور دعا کریں کہ جلد ظہور فرمائیں اور سب کچھ آسان ہو جائے۔ مجھے محسوس یہ بھی ہوا ہے کہ خود حکومت اُن جگہوں کو کھولنے کے لیے غورو فکر کر رہی ہے، تب تک کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ ہم پچھلے پانچ دن میں کوئی پانچ ہزار کلومیٹر کا سفر کر چکے ہیں۔ اور اچانک ایسی جگہوں پر بھی جا ٹھہرے جہاں کا تصور بھی نہیں تھا، نقاب صاحب تیس سال سے یہیں پر ہیں، اُن کی گاڑی چونکہ بڑی اور فور ویلر ہے اور وہ راستے کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل بھی تھے، شاید یہ سب باتوں کے پیشِ نظر خدا نے اُنھیں منتخب کیا۔ میں سب کچھ تفصیل سے لکھوں گا اور امام کی مشکلات اور سفر کے دوران اُنھوں نے کیا کیا اقدامات کیے، سب ذرا ذرا سی بات کی تفصیل بیان ہوگی۔ لیکن ذرا تحمل کیجیے گا۔

آج شام تک یہ سفر اختتام پذیر ہو جائے گا۔ آپ بس دعا کیجیے، اپنے لیے بھی میرے لیے بھی اور نقاب صاحب کے لیے جسے خدا نے میرے اِس کام کے لیے مامور کیا ہے۔ ذات العرق امام کی دوسری منزل تھی۔ مکہ سے تنعیم اور تنعیم سے کم از کم ڈیڑھ سو کلومیٹر مشرق کی طرف ایک وادی ہے۔ یہ راستہ انتہائی مشکل اور نوکیلے پتھروں پر طے کیا گیا ہے اور سب سے طویل فاصلے پر منزل ہے۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ مکہ سے امامؑ کو گرفتار کرنے کے لیے عمر بن سعید اشدق نے خود امام کا تعاقب شروع کیا تھا لہذا امامؑ ایسے رستے پر چلے جہاں سے فوجی دستے اپنے گھوڑوں کے ذریعے نہیں چل سکتے تھے۔ اور منزل کا فاصلہ بھی انتہائی تیزی سے طے کیا اور رستے میں کہیں قیام نہیں کیا۔

یہی وہ منزل ہے، جہاں پر بشیر بن غالب نے امام سے ملاقات کی اور امام کو کوفہ کے حالات بتائے اور کہا، مولا کوفہ کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر وہاں کے حالات آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ ذات العرق انتہائی مشکل وادی ہے۔ یہاں سے سڑک آگے نہیں جاتی۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں اور ایک طرف سے تنگ راستہ ہے۔ اور وہ راستہ بھی انتہائی نوکدار پتھروں کا ہے جیسے بڑے لوہے کے کانٹوں کا جال بچھا ہو، مجھے حیرت ہے امام یہاں تک کیسے پہنچے تھے؟ اِس جدید دور میں بھی بڑی مشکل سے سڑک بنی ہے۔

یہاں ایک مسجد بنا دی گئی ہے، اور لگتا یہ ہے کہ حکومت اِس مقام کو کھولنے کے چکر میں ہے، کچھ چیزیں بنائی جا رہی ہیں۔

Check Also

Maulana Fazal Ur Rehman Se 10 Sawal

By Najam Wali Khan