Khyber Ki Ziarat
خیبر کی زیارت
"خیبر" مدینہ سے شمال کی جانب 250 کلومیٹر کے فاصلے پر کئی بستیوں، باغوں اور کھیتوں کھلیانوں پر مشتمل ایک صوبہ تھا۔ اِس صوبہ میں ہر بستی گویا ایک شہر تھی، جس کا اپنا قلعہ اور اپنے باغات اور کھیت تھے اور اپنے کاروبار تھے۔ ہر بستی کا اپنا سردار تھا۔ اور اِن سب بستیوں کا ایک اجتماعی معاشی نظام اور معاشی حکومت تھی۔ البتہ انھیں بیرونی حملے کے وقت آسانی سے ایک مرکز میں تبدل کیا جا سکتا تھا۔ خیبر کی طرف جانے والا راستہ بھی ایسا تھا۔ جیسے نوکیلے اور سیاہ پتھروں کی زوردار بارش ہوئی ہو۔
آج بھی اِس علاقے میں اگر سڑک نہ بنتی تو جانا بہت مشکل تھا۔ یہ علاقہ ساٹھ میل ارد گرد تک بڑا زرخیز تھا اور یہاں عمدہ کھجوریں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز یہی خیبر تھا۔ یہاں کے یہودی عرب میں سب سے زیادہ مالدار اور جنگجو تھے اور ان کو اپنی مالی اور جنگی طاقتوں پر بڑا ناز تھا۔ ہر بستی میں ایک قلعہ بھی ہوتا تھا اور ہر قلعہ اپنے جد کے نام سے منسوب تھا ان میں آٹھ قلعے زیادہ مشہور تھے، کتیبہ، ناعم، شق، قموص، نطارہ، صعب، سطیخ، سلالم۔ اصل میں اِن سب کا مجموعہ خیبر کہلاتا تھا۔
جنگِ خندق میں جن قبیلوں نے مدینہ پر حملہ میں حصہ لیا تھا، ان میں خیبر کے یہودی بھی تھے۔ بلکہ وہی اس حملہ کے محرک تھے۔ حیی بن اخطب اور ابورافع سلام بن ابی الحقیق نے تومکہ جاکر کفار قریش کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا اور عربوں کے دوسرے قبائل کا دورہ کرکے جوش بھی دلایا اور مالی امداد کے لئے اپنی تجوریاں کھول دیں اور خود بھی اپنے پیادے اور سوار بھیجے۔ لیکن جب خندق میں قریش کو ناکامی ہوئی تو خود ایک حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جس کے لیے قبیلہ غطفان کو بھی آمادہ کرلیا۔ قبیلہ غطفان عرب کا ایک بہت طاقتور اور جنگجو قبیلہ تھا اور یہ خیبر سے جڑا بھی ہوا تھا۔
جب رسول خدا ﷺ کو خبر ملی کہ خیبر کے یہودی قبیلۂ غطفان کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو آپ اُن سے پہلے ہی سولہ سو صحابہ کا لشکر لے کر خیبر روانہ ہوگئے۔ تین علم تیار کرائے۔ ایک حباب بن منذر کو دیا، ایک سعد بن عبادہ کو اور پورے لشکر کا علم جسے علمِ نبوی کہتے تھے حضرت علیؑ کے دستِ خدا میں دیا۔
رسولِ خدا ﷺ رات کے وقت خیبر کی حدود میں پہنچ گئے مگر فجر کی نماز کے بعد شہر میں داخل ہوئے۔ اُس وقت یہودی اپنے اوزاروں کے ساتھ کھیتوں کی طرف نکل رہے تھے کہ اچانک اُنھوں نے اپنے شہر کے بیچ لشکر کو دیکھا اور بوکھلائے ہوئے گھروں کی طرف بھاگے۔ اُنھیں بھاگتا دیکھ کر صحابہ بلند آوازوں سے نعرۂ تکبیر لگانے لگے۔ آپ نے کہا آوازوں کو نیچا کرو خدا نہ بہرہ ہے نہ غائب ہے۔
اِدھر یہودیوں نے فوراً اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک محفوظ قلعہ میں پہنچا دیا اور کھانے پینے کا سامان قلعہ ناعم میں جمع کردیا اور فوجوں کو قموص کے قلعہ میں اکٹھا کیا لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ باقی قلعے مسلمانوں نے جلد فتح کر لیے تو دراصل اُن قلعوں میں کوئی فوج ہی نہیں تھی لہذا لڑائی ہی نہیں ہوئی تو فتح کیسے کر لیے؟
دراصل یہی قلعہ تھا، جسے فتح کرتے تو خیبر فتح ہوتا۔ یہاں سعودی حکومت رینوویشن کر رہی ہے اور ہیری ٹیج کے اعتبار سے لوگوں پر کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے اِس لیے اِسے فی الحال بند کیا ہوا ہے، لیکن دور سے نظر آتا ہے۔ نہایت بلند جگہ پر واقع ہے۔ قریب جا کر تصویریں نہیں بنا سکے لیکن بستیوں کی تصویریں ضرور بنائی ہیں۔
یہودیوں کا سپہ سالار مرحب اِسی قلعہ میں اپنی فوج کی کمانڈ کر رہا تھا۔ اتنا تیز طرار اور طاقتور تھا کہ ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ یہودیوں کے پاس تمام فوج یہیں پر اِس کے زیرِ کمان دے دی گئی۔ جو کم و بیش پانچ ہزار تھی۔
رسولِ خدا ﷺ نے خیبر اور غطفان کے درمیان مقام "رجیع" میں اپنی فوجوں کا ہیڈکوارٹر بنایا اور یہیں سے مرحب کے ساتھ لڑنے کے لیے روز ایک نیا کمانڈر بھیجا جاتا وہ مگر ناکام واپس آ جاتا تھا۔ مسلمانوں کی اِس حالت سے حوصلہ پا کر مرحب خود میدان میں آ کر دو بدو لڑنے کی دعوت دینے لگا اور اب کئی روز سے اُس کا یہی معمول ہوگیا تھا۔ جب کوئی مسلمان اُس سے دوبدو نہ لڑتا تو مرحب سمیت تمام یہودی اُن کمانڈروں اور اسلامی لشکر پر جملے بازی کرتے اور تمسخر اڑاتے۔ یہاں تک کہ اِس حالت کو انتالیس روز گزر گئے اور مسلمان نااُمید ہو گئے اور رسولِ خدا ﷺ کو وآپس مدینہ جانے پر زور دینے لگے۔
لہذا اب رسولِ خدا ﷺ نے اپنے اصلی کمانڈر کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا اور فرمایا کہ
لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلاً یَفْتَحُ اللہ عَلٰی یَدَیْہِ یُحِبُّ اللہ ُ وَرَسُوْلَہ، وَیُحِبُّہ، اللہ وَرَسُوْلُہ، قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ اَیُّھُمْ یُعْطَاھَا۔ 2
کل مَیں اُس مرد کو علم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تَعَالٰی فتح دے گا وہ اللہ ورسول کا محب ہے اور محبوب بھی۔
صبح کو اچانک یہ صدا لوگوں کے کان میں آئی کہ علیؑ کہاں ہیں؟
علیؑ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم بڑے سکون کے ساتھ جاؤ اور ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دو۔ خدا کی قسم اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری بدولت اسلام قبول کرلیا تو یہ دولت تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
مولا علیؑ نے قلعہ کے پاس کلمہ کا اعلان کیا اور اپنا علم زمین میں گاڑ دیا اور کہا جو اس علم کے نیچے آ جائے وہ امن پائے گا۔ مگر مرحب سابقہ تجربات کی بنیاد پر بہت اکڑ گیا تھا اور وہی کام شروع کر دیا، خود نکل کر میدان میں آ گیا اور قلعہ میں بیٹھے ہووں کو نقارہ اور شادیانہ بجانے کا حکم دے دیا۔ بچارے کو معلوم نہیں تھا۔ اب کے جو آیا ہے، یہ جنگ سے بھاگ کر پہاڑوں پر نہیں چڑھتا اور نہ بات بات پر تلوار نکالتا ہے۔ جب میدان میں آتا ہے تو فیصلہ کُن جنگ کرتا ہے اور جب تلوار نکالتا ہے تو اُس وقت تک نیام میں نہیں رکھتا جب تک وہ مقصد نہ پورا ہو جائے جس کے لیے نکالی تھی۔
مرحب نے علی کو دیکھ کر اپنا رجز پڑھا
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّیْ مُرَحَّب
شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّب
اب مولا علیؑ بھی آگے بڑھے اور کہا
اَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ اُمِّیْ حَیْدَرَہ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ
مرحب حیران ہوا کہ پہلے تو میری شکل دیکھ کر ہی مسلمانوں کے کمانڈر پیچھے ہٹ جاتے تھے، آج یہ کون آ گیا جو مقابل ہو کر رجز پڑھنے لگا ہے۔ تب اُسے اپنی ماں کا قول یاد آ گیا کہ اگر کوئی حیدر مقابلے پر آئے تو کبھی نہ جانا۔ مرحب ایک دم پیچھے ہٹا تو پیچھے اُن کا بوڑھا یہودی کھڑا تھا، اُس نے کہا، کیا ہوا، مرحب نے اُسے اپنی ماں کی بات بتائی تو وہ بولا، افسوس اب تم عورتوں کے خواب سنا کر جنگ سے بھاگنے کی عذ بنانے لگے ہو، آگے بڑھو اور مقابلہ کرو۔ اب مرحب دوبارہ میدان میں آیا اور بڑے طمطراق کے ساتھ آگے بڑھ کر مولا علیؑ پر اپنی تلوار سے وار کیا مگر علیؑ نے ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا اور علیؑ اِس تیزی سے اُس کے گرد گھوما کہ اُسے علیؑ کی سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ دائیں ہے یا بائیں، آگے ہے یا پیچھے۔ ابھی وہ علی کی سمت کا تعین کرکے دوبارہ وار کا سوچ ہی رہا تھا کہ علیؑ نے اس کے سر پر ذوالفقار مار دی۔ ایک تو ذوالفقار اتنی بھاری تھی کہ عام بندہ اُسے اٹھانے سے قاصر ہوتا تھا دوئم علیؑ نے ایسی طاقت سے ماری کہ ایک ہی ضرب سے پہلے لوہے کی ٹوپی جسے خود کہتے ہیں وہ کٹا، پھر اُس کے نیچے کا مغفر کٹا اور اپس کے بعد ذوالفقار سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور تلوار کی مار کا تڑاکہ اُس کی فوج تک پہنچا اور مرحب زمین پر گر کر ڈھیر ہوگیا۔
مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اُس کے عقب میں کھڑے فوجی دستے مولا علیؑ پر ٹوٹ پڑے۔ لیکن اب ذوالفقار بھی بجلی کی طرح چمکنے لگی یہاں تک کہ فوجی دستوں کی صفیں اُلٹنے لگیں۔ لہذا اِسی پہلے حملے میں یہودیوں کے اکثر سورمے مرحب، حارث، اسیر عامر اور عنتر مولا علیؑ کے ہاتھ سے کٹ گئے۔ پھر ایسی گھمسان کی جنگ میں قلعہ کے سامنے کے میدان میں گردوغبار بلند ہونے لگا اور اِس میں ہر طرف سے علیؑ پر تلواریں چلنے لگیں جنھیں ڈھال پر روکتے روکتے ڈھال ٹوٹ گئی۔ لیکن مولا اب ایسے جوش میں تھے کہ ایک دم آگے بڑھے اور قلعہ کے دروازے کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور اُسی کو ڈھال بنا لیا۔ حتیٰ کہ اِسی عالم میں قموص کے قلعہ میں داخل ہو گئے اور اُسے فتح کر لیا۔ اِسی عالم میں مولا علیؑ کو رات ہوگئی تھی۔
اِس جنگ میں 93 یہودی قتل ہوئے اور 15 مسلمان جام شہادت سے سیراب ہوئے۔ اب یہودیوں نے درخواست کی کہ ہم کو خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین ہمارے ہی قبضہ میں رہنے دی جائے۔ ہم یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دیتے رہیں گے۔ رسولِ خدا ﷺ نے ان کی درخواست منظور فرمالی اور خیبر کو اپنی اسٹیٹ میں شامل کر لیا۔
فاتح خیبر اپنے آقا کے معیت میں مدینہ لوٹ آیا۔ یہی وہ معرکہ تھا، جس نے قریشِ مکہ اور دیگر عرب قبائل کے اوسان خطا کر دیے تھے اور وہ دُبک گئے تھے۔